منتخب کردہ کالم

اندر کا خوف؟…رئوف طاہر

اندر کا خوف؟…رئوف طاہر

”90 روز کا جوڈیشل مارشل لاء‘‘…شیخ کا یہ مطالبہ کیا اس کے اندرونی خوف کا نتیجہ ہے ؟ اواخر مئی میں موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی مدت مکمل ہونے پر‘ آئین کے مطابق اگلے 60 روز میں عام انتخابات کے انعقاد کا خوف… اور اس سے پہلے (آئندہ چند روز میں) شکیل اعوان کی اس پٹیشن پر سپریم کورٹ کا فیصلہ جس میں شیخ کی اہلیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ سماعت کے آخری روز اس بینچ کے ایک رکن جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی شہ سرخی بن گئے، ”پانامہ کیس میں معاملہ لندن فلیٹس کا تھا، سزا اقامہ پر سنا دی گئی‘‘ وہی بات جو 28 جولائی کے فیصلے کے بعد ”نااہل‘‘ نواز شریف کے بیانئے کا اہم ترین حصہ ہے۔ تب سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین سمیت اعلیٰ عدالتوں کے بیشتر ریٹائرڈ ججوں اور عالمی شہرت کے حامل آئینی ماہرین نے بھی اسے ”ایک کمزور فیصلہ ‘‘ قرار دیا تھا۔ ان آئینی ماہرین میں سینئر موسٹ جناب ایس ایم ظفر گزشتہ شب بھی ایک ٹاک شو میں اسے ”کمزور دلیل پر مبنی فیصلہ‘‘ قرار دے رہے تھے۔ 28 جولائی کے بعد نواز شریف نے یہی بات پکڑ لی تھی اور ”ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے ساتھ اسے عوام میں لے گئے۔ تجزیہ کار اور تبصرہ نگار اسے معزول وزیر اعظم کا Victim Card قرار دے رہے تھے۔ مظلومیت کا یہ تاثر رنگ لا رہا تھا ، چوکھا رنگ… یہاں تک کہ عمران خان بھی چیخ اٹھے، یہ تو ہونا ہی تھا، معاملہ پانامہ والے لندن فلیٹس کا تھا، سزا اقامہ پر سنا دی گئی (پانامہ سے جس کا کوئی تعلق نہ تھا) اور شیخ کیخلاف شکیل اعوان کی پٹیشن کی سماعت کے آخری روز یہی بات عزت مآب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی کہہ دی۔
یہ بات بارہا دہرائی جا چکی کہ معزول وزیر اعظم کو سزا اپنے صاحبزادے سے Receivable Amount کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر ہوئی۔ مالی معاملات سے متعلق پاکستانی قوانین میں یہ ” اثاثے‘‘ کی ذیل میں نہیں آتی لیکن بلیک لاء ڈکشنری کے مطابق اس پر اثاثے کا اطلاق ہوتا تھا۔ اسے اثاثوں میں ظاہر کرنے کا نواز شریف کو کوئی نقصان نہ تھا اور جسٹس فائز قاضی کے بقول ”اگر میری غلطی کا مجھے فائدہ نہیں ہورہا تو اسے بدنیتی نہیں کہا جا سکتا‘‘۔ فاضل جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پانامہ کیس میں جو اصول طے کر دیا گیا‘ اس پر عملدرآمد کیلئے دو معیار نہیں ہو سکتے (گویا شیخ کے معاملے کو بھی اسی اصول پر رکھنا ہوگا)
پٹیشنر شکیل اعوان کا الزام تھا کہ شیخ نے 983 کنال اراضی ظاہر کی جبکہ اس کی زیر ملکیت اراضی 1,081 کنال ہے (یوں اس نے 98 کنال اراضی کو خفیہ رکھا) اس کے علاوہ بحریہ گولڈ سٹی میں اس نے اپنی زیر ملکیت ایک کنال اراضی کی قیمت 10 ملین (ایک کروڑ) روپے بیان کی جس کی بکنگ پرائس ہی 48 ملین (چار کروڑ 80 لاکھ) روپے سے زائد تھی جبکہ موجودہ مارکیٹ پرائس 60 ملین (6 کروڑ) روپے ہے۔
شیخ کے وکیل نے پٹیشن میں بیان کردہ حقائق کو درست قرار دیا تاہم اس کا کہنا تھا کہ اس میں کسی بددیانتی یا بدنیتی کا دخل نہ تھا۔ یہ اعداد و شمار کی غلطی تھی۔ حیرت ہے کہ یہ غلطی ایک دو کنال کی نہیں بلکہ 98 کنال کی تھی اور بحریہ والی زمین کی قیمت کے حوالے سے بھی غلطی ایک آدھ لاکھ کی نہیں‘ تین کروڑ اسی لاکھ کی بنتی تھی۔ شیخ تو حساب کتاب میں بہت طاق ہوتے ہیں اور لال حویلی والا شیخ تو اپنے حوالے سے عموماً یہ دعویٰ کرتا رہتا ہے کہ وہ ایک ایک پیسہ کا حساب کتاب رکھتا ہے۔
حاسدین تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ 1985ء کا پہلا الیکشن شیخ نے اس عالم میں لڑا کہ وہ اڑھائی تین مرلہ کے گھر میں رہتا تھا۔ یہ سینکڑوں کنال رقبہ‘ لہلہاتے بل کھاتے فارم ہائوس اور کروڑوں روپے فی کنال والا پلاٹ الیکشن کے بعد کا ”ہٰذا من فضل ربی‘‘ ہے۔ ہمیں یاد آیا، 1985ء کا غیر جماعتی الیکشن جیتنے کے بعد شیخ لاہور آیا، تو یہاں اخبار نویسوں سے گپ شپ میں بڑے فخر سے بتا رہا تھا کہ اس نے یہ سارا الیکشن ”پیدل‘‘ لڑا۔ وہ اپنے شہر کے لوگوں سے ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی مانگتا جس کیلئے اس نے شہر کے چوراہوں پر باقاعدہ ”صندوقڑیاں ‘‘بھی رکھوا دی تھیں۔ الیکشن کے بعد اتنے پیسے بچ گئے کہ اس نے پرانے ماڈل کی ایک کھٹارا سی کار خرید لی۔ اسی کار پر وہ ایک شام ڈی سی ہائوس گیا تو چوکیدار اسے اندر جانے سے روکتا رہا جسے یقین ہی نہ آتا تھا کہ اس پرانی سی گاڑی پر کوئی ایم این اے بھی آ سکتا ہے۔
اور یہ جو شیخ نے 90 روزہ جوڈیشل مارشل لاء کا مطالبہ کر دیا ہے تو کیا اس کی تہہ میں جولائی میں ہونے والے عامہ انتخابات کا خوف بھی ہے؟ کہ انتخابات کے حوالے سے 2002ء کے بعد شیخ کے تجربات خاصے تلخ رہے ہیں۔ مان لیا کہ 1985ء کا غیر جماعتی انتخاب اس نے اپنے زور پر جیتا (”اصل‘‘ پنڈی والوں کی ہمدردیوں کو نظر انداز کر دیں)۔ 1988ء اور 1990ء میں اس کے پاس جنرل حمید گل والے اسلامی جمہوری اتحاد کا ٹکٹ تھا۔ 1993ء اور 1997ء میں وہ نواز شریف والی مسلم لیگ کا امیدوار تھا۔ ڈکٹیٹر مشرف کے اکتوبر 2002ء والے الیکشن میں وہ لاہور کے بزرگ ایڈیٹر کی پُرزور فرمائش کے باوجود جلا وطن نواز شریف کا ٹکٹ حاصل نہ کر سکا (کہ اس میں سب سے زیادہ مخالفت شہر کے مخلص مسلم لیگی کارکنوں کی طرف سے تھی۔ڈکٹیٹر کے خلاف مہم میں محترمہ کلثوم نواز کی پنڈی آمد پر شیخ نے اپنے لیڈر کی بیگم کے متعلق جو الفاظ کہے، مسلم لیگی کارکن انہیں بھولے نہ تھے)۔ اس کے باوجود شیخ نے شہر کے دونوں حلقوں (55 اور 56) سے یہ الیکشن نواز شریف کے نام پر لڑا۔ انتخابی مہم میں اس وعدے کے ساتھ کہ وہ یہ سیٹیں جیت کر نواز شریف کے قدموں میں ڈال دے گا وہ جیت گیا اور پھر ڈکٹیٹر کی اطاعت قبول کرلی۔ شہر والوں نے اس کا بدلہ این اے 56 کے ضمنی انتخاب میں اس کے بھتیجے کی (حنیف عباسی کے ہاتھوں) شکست میں لے لیا۔ فروری 2008ء کے عام انتخابات میں اس نے این اے 55 میں جاوید ہاشمی سے اور 56 میں حنیف عباسی سے اس بری طرح شکست کھائی کہ ضمانت تک نہ بچا سکا۔ 2010ء میں این اے 55 کے ضمنی انتخاب میں اسے شکیل اعوان کے ہاتھوں شکست ہوئی حالانکہ اب پیپلز پارٹی بھی اس کے ساتھ تھی۔ وہ ہر شام اپنی انتخابی مہم کا آغاز لیاقت باغ کے باہر بینظیر کی یادگار پر حاضری سے کرتا ۔ 2013ء کا دریا اس نے عمران خان کا ہاتھ تھام کر عبور کیا (اس میں مقامی مسلم لیگیوں کے باہمی اختلافات کا دخل بھی کم نہ تھا)۔ اب پھر عام انتخابات سر پر ہیں اور شیخ کو خوف نے آ لیا ہے۔ ہم جیسوں کو نواز شریف کے ”لفافہ صحافیوں‘‘ میں شمار کر لیں لیکن وفاقی دارالحکومت کے ایک سینئر (اور ”غیر جانبداری‘‘ کی شہرت رکھنے والے) کالم نگار کے تازہ تجریے کے مطابق ”شیخ رشید احمد ٹی وی شوز میں گپ شپ کیلئے مناسب شخصیت ہیں لیکن شہر کے اندر ان کا اثرو رسوخ لگ بھگ دم توڑ چکا ہے۔ اگر نون لیگ کے قومی سلامتی کے اداروں سے تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو شیخ رشید نہ صرف اپنی نشست ہار جائیں گے بلکہ پورے راولپنڈی ڈویژن سے پی ٹی آئی کا بوریا بستر بھی گول ہو سکتا ہے‘‘۔
پس نوشت: لندن سے بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی صحت کے حوالے سے تشویشناک خبریں آ رہی ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز نے جمعرات کی صبح نیب کورٹ سے صرف ایک ہفتے کے استثنیٰ کی درخواست کی۔ یہ سماعت ملتوی کرنے کی نہیں‘ انہیں حاضری سے مستثنیٰ قرار دینے کی درخواست تھی۔ نیب پراسیکیوٹر نے اس دلیل کی بنیاد پر مخالفت کی کہ وہاں سارے خاندان کی موجودگی ضروری نہیں۔ فاضل جج نے درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بہت حساس ہیں جس کا مظاہرہ ہسپتالوں کے ان کے دوروں میں بھی ہوتا ہے۔ ایک خاوند اور بیٹی کا نہ سہی‘ کیا موذی مرض کے خطرناک مرحلے سے دوچار ایک مریضہ کا بھی یہ بنیادی حق نہیں کہ اس کا شریکِ حیات اور لاڈلی بیٹی اسے ”وزٹ‘‘ کر آئیں۔ می لارڈ! ایک سوئو موٹو اس حوالے سے بھی