منتخب کردہ کالم

انکوائری کرائی جائے! .. کنور دلشاد

انکوائری کرائی جائے! .. کنور دلشاد

انتخابی اصلاحات بل کی آڑ میں ”حلفیہ بیان‘‘ کے الفاظ کی جگہ ”اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ شامل ہونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کی کابینہ اور پارلیمانی امور پر گرفت کمزور ہے۔ میر ی نظر میں یہ نیت کا فتور تھا کیونکہ اس فارم میں جہاں حلفیہ بیان کو حذف کیا گیا وہاں انتخابی فہرست ایکٹ 74ء کی دفعہ سات (سی) منسوخ کر نے سے قادیانی ووٹر کو مسلمانوں کی ووٹر لسٹ سے نکالنے کا کوئی قانونی طریقہ ہی باقی نہ بچا اور ایسی کئی تبدیلیاں حادثاتی یا تکنیکی غلطیاں نہیں بلکہ سیکولرسوچ کا نتیجہ ہی ہو سکتی ہیں‘ جو ان کے مشیر ان خاص کی نیت کے فتور کو ظاہر کرتی ہیں۔
میرے خیال میں انتخابی اصلاحات کا بل ایک ایسا متنازعہ قانون ہے جسے ہر صورت عدالت میں چیلنج ہونا چاہیے۔ اس قانون میں ایسی شقیں موجود ہیں‘ جنہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات اور آئین کے آرٹیکل 62اور 63کی روح کو متاثر کیا ہے۔ اصلاحاتی بل کی شق 203 جرائم پیشہ افراد کیلئے پارٹی صدارت کا راستہ کھول رہی ہے اور ان حالات میں پاکستان کا دستور خطرے کی زد میں دکھائی دیتا ہے۔ نوازشریف کے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو قانون سازی کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں تعجب نہیں کہ کوئی بھارتی شہری پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بن جائے ‘ کیونکہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2000ء کے آرٹیکل 5کو حذف کر دیا گیا ہے۔
کاغذات نامزدگی میں ”قسم و اقرار‘‘ کے لفظ حذف کر دئیے گئے تھے جو کہ گزشتہ بل میں موجود تھے۔ جب قسم و اقرار کے الفاظ ہی نکال دئیے جائیں تو باقی اقرار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ ترمیم سے پہلے ایک ڈکلیئریشن بھی دینا ہوتا تھا کہ ”میں توحید اور ختم نبوت پر یقین و ایمان رکھتا ہوں‘‘ یہ ایک رکاوٹ تھی کہ قادیانی کسی بھی حکومتی عہدے پر براجمان نہ ہو سکیں۔ مجھے لگتا ہے کہ حکومت ‘پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کی بین الاقوامی طاقتوں کو یقین دہانی کرا چکی ہے اور اب بڑی ہوشیاری سے یہ سارا کام کر رہی ہے۔ پہلی چیز حلف نامہ کی شق حذف کرنے کی سازش تھی اور دوسری کاغذات نامزدگی سے قسم کے الفاظ حذف کرنے کی مذموم کوشش ۔ حلف و اقرار میں فرق یہ ہے کہ حلف کی خلاف ورزی پر امیدوار سزا کامستحق ٹھہرتا ہے جب کہ اقرار سے انحراف کی صورت میںاسے کسی سزا کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا۔
1974ء کی جس ترمیم کے تحت منحرف گروہ کو غیر مسلم قرار دیا تھا ‘اس کی روح کو ہی ختم کرنے کی کوشش انتخابی اصلاحات کمیٹی کے بعض ارکان نے کی تھی۔ میں نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کو چند ماہ پہلے خبردار کر دیا تھا کہ حکومت کاغذات نامزدگی کے فارم میں کسی بھی قسم کی ترمیم یا اخراج سے اجتناب کرے کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے الیکشن رولز بنانے کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وسیع اختیارات تقویض کر دئیے تھے۔ جب انتخابی اصلاحات کمیٹی کے سیکولر ذہنیت کے ارادوں کا علم الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہوا کہ حکومت کاغذات نامزدگی فارم میں کئی ترامیم کر رہی ہے تو چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان نے 16مئی 2017ء کو انتخابی اصلاحات کمیٹی کو خط لکھا جس میں الیکشن کمیشن کے بذات خود اس اقدام کو انجام دینے کے حوالے سے آئینی حیثیت بیان کی گئی تھی اور انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کسی بھی قسم کی ترمیم کی تجاویز الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائے جو آئین کے آرٹیکل 218کے تحت بذاتِ خود ضرورت کے مطابق تبدیلی کا مجاز ہے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے بعض ارکان نے یہ تجویز دی تھی کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے نامزدگی فارمز کو الیکشن ایکٹ 2017ء کے ڈرافٹ کے سیکشن 60اور 109کو حصہ بنایا جائے گا تاکہ مستقبل میں الیکشن کمیشن اس میں ترامیم نہ کر سکے۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ الیکشن کمیشن کے رولز بنانے کے
اختیارات کو محدود نہ کیا جائے۔ یہ الیکشن کمیشن کا اختیار تھا کہ وہ فارمز کی تشکیل ، کاغذات نامزدگی کے فارم اور دیگر فارمز خود تیار کرے تاکہ آرٹیکل 218/2کی ضرورت پوری ہو سکے۔ مزید یہ کہ الیکشن کمیشن ، الیکشن قوانین 2017ء کے ڈرافٹ کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے تیار کئے گئے تمام فارمز کا تبادلہ پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات سے کیا جائے اور اگر انتخابی اصلاحات کمیٹی کا کوئی رکن کسی فارم میں کسی تبدیلی کی تجویز دے تو اس تجویز کو تحریر کی صورت میں الیکشن کمیشن کو بھجوایا جائے اور الیکشن کمیشن اگر ضروری سمجھے تو اس پر غور کیا جائے۔ الیکشن کمیشن ‘ آئین کے آرٹیکل (2)218کے تحت تقویض کردہ اختیارات کے تحت ‘کسی بھی امیدوار سے جس نے نامزدگی فارم جمع کرایا ہو کسی بھی قسم کی معلومات طلب کر سکتا ہے تاکہ آزاد، صاف، شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہو ۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردارمحمد رضا نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان کو ایک خط لکھا تھا کہ نامزدگی فارم 2013 ئمیں کچھ ترامیم اور کرپٹ پریکٹس کے ازالے کے لئے جو اقدامات کئے گئے اور عدالت عظمیٰ کے سامنے 14مارچ 2013ء کو پیش کئے گئے تھے اس پر عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ بہتراور ترامیم شدہ نامزدگی فارم ان کے 14مارچ 2013 ء کے حکم نامہ کا حصہ ہے اور عدالتی مؤقف بھی یہی ہے ‘ لہٰذا اعلان کیا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 218(3)جسے آئین کے آرٹیکل 222، عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کی دفعہ 103اور104کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو جو فارمز تیار کئے گئے ہیں وہ آئندہ عام انتخابات کے لئے آئین و قوانین کے تحت ہوں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مذکورہ فارم میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں ترامیم میں احتیاط کی تجویز دی گئی تھی۔ دلائل کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی اصلاحات کمیٹی سے درخواست کی کہ آئینی مشاہدات کا تبادلہ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ کیا جائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارشات کے بعد پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات نے کمیٹی کے اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری کو مدعو نہیں کیا اور خود فیصلے کرنے کو ترجیح دی تاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فارم میں تبدیلی کے اختیارات کو محدود اور جامد کیا جاسکے۔اسی طرح ”صدق دل سے حلفیہ اقرار‘‘ کے الفاظ نکال دیئے گئے۔ پھر میڈیا، اسلامی ذہن رکھنے والے دانشوروں اور سیاسی جماعتوں کے دبائو کے تحت حکومت نے 24گھنٹے کے اندر مؤقف بدل لیا اور نئی ترمیم منظور کر لی اور کاغذات نامزدگی کو اصل شکل میں بحال کرنے کا اعلان کر دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے بعد خاموشی سے انتخابی اصلاحات میں متنازعہ ترمیم منظور کرالی اور قادیانیوں کے لئے قومی اسمبلی کے ارکان بننے کا راستہ ہموار کر دیا۔ شہباز شریف نے مذکورہ وزیر کو برطرف کر کے جوڈیشل انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا کہ انتخابی اصلاحات کمیشن نے کس کی تجویز پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارشات کو نظر انداز کر کے حلف نامے کی اہمیت کم کی ؟
پاکستان کے عوام میں تشویش کی لہر قدرتی رد عمل ہے۔ صورت حال کے سنگین تر خدشات کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا ۔ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان از خود نوٹس لے لیتی تو ان ارکان کی رکنیت خارج ہو جاتی‘ جنہوں نے اس متنازعہ بل کی رائے شماری میں حصہ لیا تھا ‘ یہی نہیں صدر مملکت کی اہلیت بھی چیلنج ہو سکتی تھی ۔ عوام اور میڈیا کے دبائو کے تحت حکومت نے ان پرانی شقوں کو بحال کر دیا ہے۔ اگر حکومت تاخیری حربے اختیار کرتی تو پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا جواز بن سکتا تھا۔ اسی طرح سینیٹ میں جو بل متعارف کرایا گیا ‘اس میں حلف بدلنے کی کوئی شق نہیں تھی‘ لیکن پاس کرنے کے لئے جو بل پیش کیا گیا اس میں خاموشی سے اسے شامل کر دیا گیا۔ اس عمل میں وفاقی وزارت قانون و انصاف کے مشیران کے شریک ہونے کا احتمال رد نہیں کیا جا سکتا ۔