منتخب کردہ کالم

اور کٹہرا بول اُٹھا … ڈاکٹر خالد جاوید

اور کٹہرا بول اُٹھا … ڈاکٹر خالد جاوید

جس دن میاں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا متفقہ فیصلہ آیا اور انہیں ڈکٹیٹر ضیاکی غاصبانہ آئینی ترمیم کے تحت صادق اور امین کی تعریف پر پورا نہ اترنے پر وزارتِ عظمیٰ سے نا اہل قرار دے دیا گیا ۔ اتفاق سے اسی روز جنگ میں میرا کالم شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا ’’ اِک روز کٹہرا بولے گا‘‘ ۔ جس میں کٹہرے کو میں نے تاریخ کی عدالت کے گواہ سے تشبیہ دیتے ہوئے لکّھا تھا کہ کٹہرا جب بولتا ہے تو اس کا فیصلہ ہی تاریخ کا آخری فیصلہ ہوتا ہے تو صاحبو! اس فیصلے کے بعد کٹہرا بول اٹھا ہے۔ اور اس نے وقت کی عدالتوں کے تین الزامات کا جواب دینے کے لئے لب کشائی شروع کر دی ہے کٹہرے کا پہلا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آئین پر شب خون مارنے والے ہی پاکستان کے سیاسی استحکام اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی کے اصل مجرم ہیں۔ ضیاء الحق نے اپنی زندگی میںہی اس ملک کو جھوٹ، مذہبی منافرت اور تقسیم در تقسیم کے عمل سے تباہ نہیں کیا بلکہ اسکی موت کے بعد بھی اس کا بھوت عوامی حاکمیت کا منہ چڑا رہا ہے۔ پہلے اس کی رسوائے زمانہ 58-2.Bنے تین منتخب حکومتوں کو گرادیا اور اب 62-63جیسی متنازع ترمیم نے عوامی فیصلے کی تذلیل کی ہے۔’’ اسلامی نظام ‘‘ جیسی مبہم اصطلاح کہ جس کی تشریح ہر فرقے میں علیحدہ علیحدہ ہے کے بعد صادق اور امین جیسی ترمیم جس کا پھندا کسی بھی گلے میں فٹ کیا جا سکتا ہے جنرل ضیاء کی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک اورمذموم کوشش ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اس شخص کی گھڑی ہوئی اصطلاح ہے جس نے اپنے آئینی حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ خانہ کعبہ میں نوے روز میں انتخابات کروانے کا جھوٹ بولاا ور متواتر ایسے جھوٹ بولے جس سے اسکا پورا عرصہ اقتدار بھرا پڑا ہے۔ کٹہرے کا دوسرا فیصلہ یہ ہے کہ جنرل ضیاء کے بعد چالیس سال سے پوری قوم یہ جانتی ہے کہ میاں نواز شریف ضیاء الحق کے دستِ راست رہے ہیں۔ انہیں حقیقی جمہوری قوتوں کو کچلنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ غیر مرئی طاقتوں نے دھونس اور دھاندلی کے ذریعے انہیں عوام کے سروں پر زبردستی مسلط کیا کبھی شریف النفس محمد خان جونیجو سے غداری کے صلے میں اور کبھی آئی جے آئی کی تشکیل کے حوالے سے ۔ 90کی دہائی میں ان کے ساتھ ملکر دو مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت گرائی گئی ۔ اس دوران وہ بھٹو خاندان انکی خواتین اور جمہوریت کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کرتے رہے وہ تاریخ کا حصّہ ہیں۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کی جنرل پرویز کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے نتیجے میں واپس پاکستان آئے لیکن میمو گیٹ اسکینڈل میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ جا پہنچے ۔ ان کے دورِ حکومت میں چھانگا مانگا آپریشن اور مہران جیسے مالی کرپشن اسکینڈل کے ذریعے سیاست کو خرید و فروخت کی منڈی بنا دیا گیا۔ اور ثابت کر دیا گیا کہ جاگیردار تو صرف رعب دار اور طاقت کے ذریعے من مانی کرتے تھے لیکن بزنس میں سیاست دانوں نے رشوت، جھوٹ ، مذہبی منافقت اور عوامی نمائندوں کی خریدو فروخت کا ایک نیا دروازہ کھول دیا۔ محترمہ نظیر بھٹو کی پہلی منتخب حکومت میں تحریک ِ عدمِ اعتماد کے ذریعے اسامہ بن لادن سے مبینہ خطیر رقوم کی وصولی اور اس کی بندر بانٹ ابھی کل کی باتیں ہیں۔ صرف یہی نہیں اقربا پروری کی جو مثالیں انہوں نے قائم کی ہیں۔ وہ بھی پاکستان کی سابقہ تاریخ میں مفقود ہیں۔ آج کئی درجن افراد ایک ہی خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے سیاست اور حکومت کے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کے خاندان کے جو لوگ ان سے الگ ہو گئے اُن کے اثاثے بھی وہیں منجمدہو گئے لیکن ان کے اثاثے حیرت انگیز طور پر بڑھتے گئے۔ یہ وہ حقائق اور الزامات ہیں جن کی تحقیقات کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے ان کے خلاف تحقیقات کیںاور انہیں پورا موقع دیا گیا کہ وہ لندن اپارٹمنٹس کے بارے میں ’’ منی ٹریل ‘‘ فراہم کریں۔ اس سلسلے میں جو ہوش رُبا حقائق سامنے آئے ۔
اس کا تقاضا تھا کہ ’’ موضوعِ سخن ‘‘ وہیں رکھّا جاتا۔ اور ان ریفرنسزکے فیصلے کا انتظار کیا جاتا جس کے بعد کسی کو اپنی ’’مظلومیت‘‘کا رونا رونے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ جہاں اتنی دیر انتظار کیاگیا تھا وہاں مزید 6ماہ انتظار کرنے میں کیا قباحت تھی؟کیوں ایک ایسے فیصلے کے ذریعے نواز شریف کو نا اہل کیا گیا جو چاہے ٹیکنیکل طور پر درست بھی ہو لیکن بہر حال ایک کمزور فیصلہ ہے۔ کٹہرے نے یہ بھی فیصلہ دیا ہے کہ جس طرح مجرم کو اسکے جرم کی سزا نہ دینا نا انصافی ہے اسی طرح اسے مضبوط جرم کی بجائے ’’ متنازع جرم‘‘ میں سزا دینا بھی انصاف نہیں۔ اگر صادق اور امین کے حوالے سے سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا تو اس کا آغاز کہاں سے ہوگا اور کہاں پر ختم ہوگا۔ اُن جرنیلوں ، ججوں ، بیوروکریٹس اور با اثر افراد کو کس کھاتے میں رکھا جائے گا جنہوں نے علی الاعلان اپنے اپنے اثرو رسوخ سے غلط فائدے اٹھائے۔کیا عمران خان سمیت دیگر سیاستدان صادق اور امین کی شرط پر پورے اترتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی عائشہ گلالئی نے عمران خان کے کردار پر الزامات لگا کر ایک نئی بحث شروع کر دی ہے ۔ آخر یہ سلسلہ کہاں جا کر رُکے گا۔ کٹہرے کا تیسرا فیصلہ اُن قوتوں کے لئے ہے جو خود کو عقل ِ کل سمجھتی ہیں کہ آپ کے ناقص العقل ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آپ جس ’’ بُت ‘‘ کو بھی اپنی ماتحتی کے لئے تراشتے ہیں ۔ بالآخر وہی ’’ خدا‘‘ بن جاتا ہے آپ یہ سلسلہ بند کیوں نہیں کر دیتے یا پھر انہیں ’’ خدا‘‘ تسلیم کیوں نہیں کرتے۔
کیونکہ۔۔
بُت گرو! ان کی خدائی کو بھی تسلیم کرو
بُت اسی واسطے بنتے ہیں خدا ہوجائیں

……………
اگلا کالم
………….