منتخب کردہ کالم

اِدھر آ بے، ابے او … …ابراہیم راجہ

اِدھر آ بے، ابے او … …ابراہیم راجہ
کراچی کی معاشرتی فضاء بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے اور اُتنی ہی تیزی سے مزید تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ سوچنے اور برتنے کا انداز ایسا بدلا ہے کہ ابھی کل تک جن باتوں کو تسلیم شدہ اصولوں کا درجہ حاصل تھا وہ اب کچرے کے ڈھیر پر پڑی ہیں اور کسی کو اس بات کی پروا بھی نہیں کہ تسلیم شدہ اقدار اور تہذیب کی علامات سمجھی جانے والی باتیں کچرے کے ڈھیر پر کیوں پڑی ہیں۔ وقت نے بہت کچھ بدل دیا ہے اور وہ بھی اتنی تیزی سے کہ جو لوگ اس تبدیلی سے دوچار ہوئے ہیں خود اُنہیں بھی کبھی کبھی سب کچھ بدل جانے کا یقین نہیں آتا۔
آپ جناب کا زمانہ تو جیسے ہزار بارہ سو سال پہلے کی بات ہو۔ وہ بھی کیا دن تھے کہ لوگ ایک دوسرے کو مخاطب کرنے میں بھی تہذیب کا اس قدر مظاہرہ کرتے تھے کہ دنیا دیکھ کر دنگ رہ جایا کرتی تھی۔ معمول کی گفتگو میں بھی اس قدر حساب کتاب اور رکھ رکھاؤ تھا کہ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ہم اِسی سرزمین پر جی رہے ہیں، اِسی ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔ روزمرہ گفتگو کے دوران اونچ نیچ کا اس قدر خیال رکھا جاتا تھا کہ بہت سوں کو تو الجھن محسوس ہونے لگتی تھی! چھوٹوں سے گفتگو الگ ہوتی تھی اور بڑوں سے بالکل الگ۔ ہم عمر افراد جو باتیں کرتے تھے وہ چھوٹوں سے کی جاسکتی تھیں نہ بڑوں سے۔ یہ تھا معاشرے کا مجموعی تانا بانا۔ تعلقات کی نوعیت اور شدت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے الفاظ بولے اور برتے جاتے تھے۔ الفاظ کوئی اندھے کی لاٹھی نہیں ہوتے تھے کہ جب چاہو گھماؤ اور کسی کے بھی سَر پر دے مارو۔ بولنے سے پہلے تولنا لازم سمجھا جاتا تھا۔ بڑے بڑے طُرّم خاں بھی بولنے کے معاملے میں جذبات اور حواس پر قابو پانے کو اپنی انتہائی بنیادی ذمہ داری تصور کیا کرتے تھے۔ کسی بھی معاملے میں کچھ بھی کہنے سے پہلے عواقب کے بارے میں سوچنا معاشرے کی اجتماعی عادت اور مزاج کا حصہ تھا۔
مگر صاحب، ہم بھی کس زمانے کا ذکر لے بیٹھے۔ اُس زمانے کو گزرے ہوئے اب کم و بیش دو عشرے بیت چکے ہیں۔ یہ سب ٹیکنالوجی کے ”دھماکے‘‘ سے پہلے کی باتیں ہیں۔ ٹیکنالوجی کا ریلا یوں آیا کہ سبھی کچھ بہا لے گیا۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ ہر معاملے میں کام کا جو کچھ بھی تھا وہ جاچکا ہے اور صرف تلچھٹ رہ گئی ہے۔ گویا میر تقی میرؔ کے محبوب کا کوچہ ایک بار پھر منصۂ شہود پر آگیا ہے! ؎
یوں پکارے ہیں مجھے کوچۂ جاناں والے
اِدھر آ بے، ابے او! چاک گریباں والے!
ویسے تو خیر ملک بھر میں لوگ بات بات پر جذباتی ہو جاتے ہیں، بھڑک اٹھتے ہیں مگر اس معاملے میں کراچی نے میدان مار لیا ہے! یہاں اب سوادِ اعظم مغلّظات کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہے یعنی عوام کی واضح اکثریت نے طے کرلیا ہے کہ جو کچھ بھی کہنا ہے وہ سوچے سمجھے بغیر کہنا ہے اور کہنے کے بعد پچھتانا تو بالکل نہیں ہے۔ داغؔ دہلوی کا مقطع آپ نے بھی سُنا ہوگا ؎
جو گزرتے ہیں داغؔ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں!
بس کچھ ایسا ہی معاملہ اب کراچی میں روزمرہ گفتگو کا بھی ہے۔ کسی کے چار لفظ قیامت ڈھا جاتے ہیں اور قیامت ڈھانے والے کو احساس تک نہیں ہوتا۔ کسی کی خیریت دریافت کرنا ہو تو دو تین انتہائی سخت الفاظ منتخب کرکے معاملہ نمٹایا جاتا ہے۔ ہوٹلوں میں اور چبوتروں پر ہونے والی معمول کی گفتگو میں مغلّظات کا تناسب اس قدر ہے کہ جس کے مزاج کی پاکیزگی اور تازگی نے ابھی دم نہیں توڑا اُس کی طبیعت چند ہی لمحات میں تکدّر کے ہاتھوں مضمحل ہو اٹھتی ہے۔
یہ منظر نامہ ایسے لوگوں کا ہے جو عرفِ عام میں شرفاء کہلاتے ہیں۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ جن بچوں کو کسی بھی مرحلے میں اچھے اور برے میں فرق کرنے کا ہنر سکھایا ہی نہ گیا ہو وہ گفتگو کے نام پر کیسی کیسی قیامتیں ڈھاتے ہوں گے! اُن کا معاملہ یہ ہے کہ بات مغلّظات سے شروع ہوکر مغلّظات پر ختم ہوتی ہے اور بیچ میں کہیں کہیں، محض منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے، چند غریب و سادہ و شریف الفاظ بھی بروئے کار لے آتے ہیں! اور صاحب، یہ بھی اُن کی عنایت ہے۔ اگر وہ اتنا بھی نہ کریں تو کوئی اُن کا کیا بگاڑ لے گا!
ہر معاملے کی طرح مغلّظات کے معاملے میں بھی ماہرین نے ”مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا کردار ادا کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ ایک طرف تو معاشرہ بگاڑ پر بگاڑ کو گلے لگا رہا ہے اور دوسری طرف ماہرین ہیں کہ اپنی مرضی کی تحقیق کی روشنی میں خرابیوں کی کوکھ سے خوبیوں کے برآمد ہونے کی نوید سُنا رہے ہیں! سوچنے والے سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ان ماہرین کو لگام دینے والا کوئی ہے یا نہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ جس خرابی نے کراچی کے پراگندہ ماحول کو خاصا گندا کر ڈالا ہے اُس کے گلے میں ماہرین توصیف و استحصان کے ہار پھول ڈالنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جدید ترین تحقیق کی روشنی میں ماہرین نے بتایا ہے کہ بات بات پر گالیاں بکنے والے دِل، نیت اور مزاج کے بہت اچھے اور سچے ہوتے ہیں۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ محفل کا خیال کیے بغیر گالیاں بک دیتے ہیں وہ دراصل سچ بولنے کے عادی ہوتے ہیں اور کسی کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرتے ہیں۔ ماہرین اس کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ ایسے لوگ دل کی بات کو زبان پر آنے سے روک کر تصنّع کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ محقق ڈیوڈ اسٹلویل کا کہنا ہے کہ جو لوگ بات بات پر گالیاں دیتے ہیں وہ دراصل اپنی زبان کو فلٹر نہیںکرتے یعنی جو کچھ دل میں ہوتا ہے اُسے بے دھڑک زبان پر لے آتے ہیں۔
دیکھا آپ نے؟ ایک طرف لوگ مغلّظات کو حرزِ جاں بنائے رکھنے پر بضد ہیں اور دوسری طرف ماہرین اُنہیں مزید شہ دے رہے ہیں۔ گالیاں بکنے کی عادت کو سچا ہونے کی علامت یا نشانی قرار دینے کا دل اور گردہ محققین اور ماہرین ہی میں پایا جاسکتا ہے! اب کوئی ان سے پوچھے کہ جو لوگ بہت سنبھل کر بولتے ہیں اور کسی کے دل کو ٹھیس پہنچانے سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کیا وہ جھوٹے ہوتے ہیں! اور اگر گالیاں دینا اخلاص اور حق پسندی کی دلیل ہے تو ذرا محققین اور ماہرین کو دو چار شاندار قسم کی گالیاں دے کر دیکھ لیجیے، اندازہ ہو جائے گا کہ وہ گالیاں کھاکے بے مزا نہ ہونے کے فارمولے پر کس حد تک عمل کرتے ہیں! ہمیں یقین ہے کہ پہلے تو وہ جواب میں خوب ”حق گوئی‘‘ کا مظاہرہ کریں گے یعنی جو کچھ دل میں ہے وہ بے دھڑک زبان پر آئیں گے اور دوسرے یعنی خاصے ہلاکت خیز مرحلے میں وہ نئی تحقیق پیش کریں گے کہ گالیوں کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق کا مطالعہ کرکے گالیاں بکنے والے پرلے درجے کے احمق ہوتے ہیں!
ماہرین اور محققین کی ہر بات اس قابل نہیں ہوتی کہ اس پر سوچے سمجھے بغیر عمل کرلیا جائے۔ اگر یقین نہیں آتا تو ذرا والدین اور دیگر اہل خانہ کے حضور ”اخلاص و حق گوئی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو چار قریبی رشتوں کو الٹ پلٹ دیجیے اور پھر تماشا دیکھیے اور بھگتیے! اور یہ سب کچھ آپ اپنی ذمہ داری پر کریں گے، ہمارا اس پورے معاملے سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اچھی طرح یاد رکھیے کہ ہم مشورہ نہیں، چیلنج دے رہے ہیں