منتخب کردہ کالم

آیئے! نئی تحریک پاکستان چلائیں…محمود شام

آیئے! نئی تحریک پاکستان چلائیں

آیئے! نئی تحریک پاکستان چلائیں…محمود شام

آپ کی نظریں میری سطروں پر ہیں۔
آپ کا ممنون ہوں۔ یہ الفاظ۔یہ ریاضت بے معنی ہے اگر لکھے کو پڑھنے والے میسر نہ ہوں۔ آپ میرے لئے سب سے اہم ہیں۔ آپ پاکستان کا درد رکھتے ہیں۔ آپ کو یاد دلائوں۔ آپ اگر میرے ہم عمر ہیں یا ذرا بڑے ہیں تو آپ کو 23 مارچ 1940ء یاد ہوگی۔ آپ اگر نوجوان ہیں تو تاریخ میں آپ نے پڑھا ہوگا۔ اب انٹرسروسز پبلک ریلیشنز آپ کو یاد دلاتی ہے۔ حالانکہ یہ ہماری منتخب حکومت کی ذمّہ داری ہے۔
23 مارچ 1940ء کو ہم نے تاریخ کے ساتھ ایک Mou یعنی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے تھے کہ ہم ایک الگ ملک بنائیں گے۔ جہاں سب انسان برابر ہوں گے۔ جہاں باشندوں کو اپنے نمائندے مرضی سے چننے کی آزادی ہوگی۔
یہ قائداعظم کی بے لوث۔ کرپشن سے پاک۔ دور اندیش قیادت تھی کہ ہمیں 7سال بعد ایک الگ ملک مل گیا۔ ورنہ ایم او یو تو اپنی تعبیر کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ تصور کیجئے۔ جہاں آج مینارِ پاکستان ہے یہاں برصغیر کے سب بڑے بڑے لیڈر اکٹھے بیٹھے تھے۔ آپس میں ایک دوسرے کو چور۔ ڈاکو۔ چابی کے کھلونے۔ ایک ہی سکّے کے دو رُخ نہیں کہہ رہے تھے۔ ان میں کوئی یونیفارم والا نہیں تھا۔ ان میں کوئی منی لانڈرنگ کرنے والا نہیں تھا۔ یہ مینار بن رہا تھا تو میں 1968ء میں اس کی پوری سیڑھیاں 360 کے قریب چڑھا تھا۔
78 سال پہلے ہم نے ایک چیلنج قبول

کیا تھا۔ ہم ایک نیا تجربہ کرنے والے تھے۔ بدقسمتی دیکھئے کہ جب نو سال بعد ہم نے پہلا آئین منظور کیا۔ 23مارچ کو اس کے بعد ہی ہم نے یوم جمہوریہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ یہ دن تو ہم آج تک مناتے ہیں لیکن یہ آئین دو سال بعد ہی کچرے دان میں ڈال دیا گیا۔ آج جب ہم یہ دن منا رہے ہیں تو ہم بہت سی خوش قسمتیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے پاس ایک آئین ہے متفقہ طور پر منظور شدہ۔ اگرچہ یہ متحدہ پاکستان کے دوران نہیں بنایا جاسکا۔ جس اسمبلی نے 1971ء میں یہ آئین بنانا تھا اس کا اجلاس ہی نہیں بلایا گیا۔ تاریخ اس کا جواب مانگتی ہے فوجی قیادت سے بھی سیاسی قیادت سے بھی۔
خوش قسمتی اور بہت بڑی کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں۔ ہم نوجوان ملک ہیں۔ 60فیصد آبادی ہماری 15 سے 35سال کے درمیان ہے۔ سوچئے کتنی بڑی نعمت ہے یہ۔ ہماری جغرافیائی حیثیت کتنی اہم اور حساس ہے کہ دنیا کی تینوں بڑی طاقتیں امریکہ، روس اور چین ہم سے تعلق رکھے بغیر اپنے عالمی منصوبے مکمل نہیں کرسکتیں معدنی خزانے اللہ نے ہمیں بے شمار دیئے ہیں۔
آپ میری بات توجہ سے سن رہے ہیں ناں۔ میں آپ سے مخاطب ہوں حکمرانوں سے نہیں، کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتے ہیں۔ان میں سے کچھ کا معیار تو یہ ہے کہ ’’اوہ ساڈے نال اے یا نئیں‘‘۔ دوسروں کی کسوٹی یہ ہے کہ ’’اسے ساتھ نہیں لینا ہے۔ یہ اپنی عقل استعمال کرتا ہے‘‘۔ کچھ اس عیاری اور شاطری کے میدان میں تازہ وارد ان میں سے ہیں۔ ابھی تک کوئی معیار متعین نہیں کرسکے ہیں۔ میں بھی کئی برس یہ سوچتا رہا کہ میں حکمرانوں کو تبدیلی کے مشورے دوں گا۔ وہ اسے مخلصانہ سنیں گے۔ اپنے اندر تبدیلی لے آئیں گے۔ آپ بھی یہی خیال کرتے ہیں۔ ذرا سوچئے۔ میں بھی اس نتیجے پر پہنچا ہوں آپ بھی سوچیں گے تو میرے ہم نوا ہوں گے کہ میاں نواز شریف۔ شہباز شریف۔ آصف علی زرداری۔ عمران خان۔ بلاول۔ مولانا فضل الرحمٰن۔ اسفند یار ولی میں تبدیلی لانا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ 70 سال سے ہم یہ کوششیں کرتے آرہے ہیں کامیاب نہیں ہوسکے جو ہمارے بس میں ہے وہ ہم نے کیا نہیں۔ اپنے اندر تبدیلی لاسکتے ہیں۔ اپنے گھر میں تبدیلی لاسکتے ہیں اسے ہم ضروری نہیں سمجھتے۔
مشہور زمانہ کتاب Animal Farm کے مصنّف جارج آرول کا کہنا ہے:
A People that elect corrupt politician, impostors, theives and traitors are not Victims but accomplices
وہ لوگ جو کرپٹ سیاستدانوں۔ جعلسازوں۔ چوروں اور غداروں کو منتخب کرتے ہیں وہ مظلوم (متاثرین) نہیں بلکہ شریک جرم ہیں۔
دل پر ہاتھ رکھ کر محسوس کریں ہم گزشتہ چند دہائیوں سے یہی نہیں کرتے آرہے۔
آئیے آج یومِ پاکستان پر عہد کریں کہ ہم اپنے اپنے خاندان میں تبدیلی لائیں گے۔ کیا آپ کو اپنے بچوں سے۔ بیٹوں بیٹیوں سے۔ پوتوں پوتیوں سے۔ نواسوں نواسیوں سے بات کرنے کی فرصت ملتی ہے۔ یہ آپ کا انتخابی حلقہ ہے۔ یہاں کے حکمراں آپ ہیں۔ کیا آپ اپنی ذمّہ داری نبھا رہے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کے ذہنوں میں جھانکتے ہیں کہ وہ آپ کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ وہ آپ کے اندر کیا تبدیلی چاہتے ہیں۔ آپ اُٹھتے بیٹھتے کہہ دیتے ہیںوزیراعظم تو اپنے ایم این اے کو نہیں ملتے۔ آپ اپنے بچوں سے ہفتے میں کتنی بار تفصیلی ملاقات کرتے ہیں۔ ان کے بھاری بستے دیکھتے ہیں۔ ان کی کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ ان کے اسکول۔ کالج۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کیا پڑھا رہے ہیں۔ ان کا انداز تدریس کیا ہے۔ ان کا کردار کیسا ہے۔ وہاں ماحول کیسا ہے۔ اپنے بچوں بچیوں کے موبائل فون آپ نے کبھی دیکھے۔ ان پر کون کونسی Apps کھلی ہیں۔ انٹرنیٹ میں وہ کن دنیائوں میں گھومتے ہیں۔
کیا آپ نے بھی غور کیا کہ بچے اپنے ملک کی تاریخ پڑھ رہے ہیں یا سنگاپور، برطانیہ، ملائشیا کی۔ ان بچوں کے ہیرو کون ہیں اور ناپسندیدہ کون۔
آپ کچھ وقت نکالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے گھر میں بھی کوئی ٹرمپ کوئی پیوٹن۔ کوئی نواز کوئی شہباز۔ کوئی زرداری کوئی عمران والی وہ صفات لے کر بڑا ہورہا ہے جو آپ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ ہیں۔
غور کیجئے۔ ہم اپنے 6¼ کروڑ نوجوانوں جیسی دولت اور طاقت کو ضائع ہونے دے رہے ہیں۔ یہ آپ اور ہم میں سے ہی کسی کے بیٹے بیٹیاں ہیں۔ ان کی ہم کیسی تربیت کررہے ہیں۔ ان کو ہم اپنی باتوں سے۔ ٹاک شوز سے۔ سوشل میڈیا پر ’’اقوال زریں‘‘ سے مایوس کرتے ہیں کہ وہ ملک سے باہر جانے کا سوچتے رہتے ہیں۔
آئیے ہم تاریخ کے ساتھ ایک اور MOU پر دستخط کریں۔ نئی تحریک پاکستان چلائیں۔ اب ہمیں کسی غیر ملکی طاقت سے نہیں اپنے آپ سے ہی اپنا ملک حاصل کرنا ہے۔ آپ کو یقین ہونا چاہئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک انتہائی اہم مالدار اور عظیم الشان ملک دیا ہے۔ آپ اپنے آپ کو۔ اپنے گھر کو تبدیل کرلیں۔ 1940ء میں تو یہ ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی جدید ترین ٹیکنالوجی سے مدد حاصل کریں۔ ان دِنوں جو تحریک 7 سال میں کامیاب ہوئی وہ آج کی تیز رفتار دنیا میں 7 منٹ میں نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔ جدید ماحول میں جدید طریقوں سے تحریک چلائیں۔ سوشل میڈیا کو ٹیکنالوجی پارک بنائیں۔ موچی دروازہ نہ بنائیں۔