منتخب کردہ کالم

اپنی اپنی باری کے انتظار میں…منصورآفاق

اپنی اپنی باری کے انتظار میں…منصورآفاق
کل پنجاب حکومت کے کسی اہلکار سے وفاقی حکومت کے کسی اہلکار نے کہا کہ’’ہماری بربادیوں کے قصے ہنس ہنس کر سنا کرتے تھے ۔اب جگر تھام کے بیٹھوکہ تمہاری باری آئی ہے ۔بے شک سب کو اپنی اپنی باری پر چلےجانا ہے ۔یہ دنیا کا اقتدار چند روزہ ہے۔یہ سب جھوٹ کہانی ہے ۔پردیسی چند نمانی ہے۔فانی ہے سب فانی ہے۔کل تیری باری آئی تھی ۔اب میری باری آئی ہے۔نہ کل زمین کی گرد جھاڑنے بادِ بہاری آئی تھی اور نہ آج آئے گی۔حیران ہوں بعض لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کی باری آ گئی ہے ۔بھئی ایسی کونسی بات ہے باریاں تو لگی ہوئی ہیں اور باریوں نے لگے رہنا ہے ۔اقتدار کاگھوڑا بڑا بدمست ہے ۔زیادہ دیر اپنے اوپر کسی کو نہیں بیٹھنے دیتا کبھی بھٹو کی باری آئی تھی اور پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔پھر جنرل ضیا الحق کی باری آئی تھی اور وہ فضائی حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔پھر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی باریاں آئیں پھرجنرل پرویز مشرف کی باری آگئی تھی اور زرداری آ گیا تھا پھر زرداری کی باری آئی اور نواز شریف آ گیاپھر اس کی باری آ گئی ۔یہ چل چلائو کی دنیا ہے یا یہ دنیا کا چل چلائو ہے بہر حال یہ طے ہے کہ دنیا سے محبت کرنے والے ہمیشہ نقصان میں رہتے ہیں ۔’’بے شک انسان خسارے میں ہے ۔‘‘
یہ تصور پیش کرنا کہ یہ ’’باری‘‘ کسی نے لگائی ہے ۔ میں اسے نہیں مانتا ۔میرے نزدیک انسان اپنی تقدیر خود لکھتا ہے ۔اس کے سامنے لوح پڑی ہوتی ہے اور قلم اس کے ہاتھ میں رہتا ہے ۔جب ماڈل ٹائون میں چودہ شہادتیں ہوئی تھیں تو کسی نے اپنی لوح پر کچھ لکھا تھا خون پھر خون ہے گرتا ہے تو جم جاتا ہے ۔ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔
پھر کسی کا دھرنے کا شورہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری کی بارگاہ میں آصف علی زرداری کی تشریف آوری کسی شوخ و شنگ گیت کی طرح بج رہی ہے ۔ وہ فون کال جو عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کو کی ہے اس کی گھنٹی کی آواز کچھ لوگوں کی سماعتوں میں گونج رہی ہے۔ پہاڑوں کا بھی اب جغرافیہ تبدیل ہونا ہے ‘‘ وزیرِ بے قانون کو اس دھرنے کے پیچھے ’’ریاست کے باقی ارکان ‘‘دکھائی دئیے جو حکومت کو پھنسا کر فارغ کرنا چاہتے ہیں ۔ختم بنوت والے دھرنے پر بھی حکومت کے دانشوروں نے ریاست کے انہی ارکان پر الزام لگایا تھاکہ یہی اس دھرنے کی پشت پر ہیں مگر جب انہی کی مدد سے اُس دھرنے کا خاتمہ ہوا تو اُس مائند سیٹ کو بڑی تکلیف ہوئی جو بیرونی طاقتوں کے اثر میں آکر اپنے ہی ادارے کے خلاف برسر پیکار ہے ۔ میرے خیال میں رانا ثنااللہ کو اب تو مستعفی ہو جانا چاہئے اب تو وفاقی وزیر مملکت پیر امین الحسنات شاہ نے بھی اس کے استعفی کا مطالبہ کر دیا ہے ۔
مولانا فضل الرحمن اور رانا ثنا اللہ کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر ہوئی ہے کہ آصف علی زرداری ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس کیوں گئے ہیں ۔نون لیگ کے لوگوں کی تکلیف کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر مولانا فضل الرحمن کو اتنی تکلیف کیوں ہوئی ہے اس پر اہل ِ دانش کو غور کرنا چاہئے ۔امریکی سفیر اگر مولانا فضل الرحمن سےملنے جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔زرداری اگر ڈاکٹر طاہر القادری سے ملنے چلا جائے تو کیوں قیامت آجاتی ہے ۔ کسی نے تویہاں کہہ دیا ہے کہ اس عمل سے ذوالفقار علی بھٹو کی روح تک کانپ اٹھی ہو گی ۔ ایسا کہنے والے شاید تاریخ سے واقف نہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو اپنے زمانے میں مفتی محمود سے ملتے تھے ۔
دوسری طرف اورنج ٹرین کا مقدمہ پنجاب حکومت نے جیت لیا ہے ۔وہی تین جج جنہو ں نے نواز شریف کو نااہل کیا تھا انہی نے اورنج ٹرین کے حق میں فیصلہ دیا ہے ۔اہل لاہور کےلئے یہ شہباز شریف کا سب سے بڑا تحفہ ہے جس کا انہیں سیاسی طور پر بھی بہت فائدہ ملنا ہے ۔ عدلیہ پر الزام لگانے والے اس فیصلے کے حق میں بھی کچھ لکھ دیں ۔عین ممکن ہے ان کو اس فیصلے میں بھی نواز شریف کے خلاف کوئی سازش نظر آ رہی ہو ۔حدبیبہ ریفرنس سپریم کورٹ میں کافی دنوں سے سرد خانہ میں پڑا ہے ۔ سوموار سے شاید اس پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔
خواجہ آصف نے اسمبلیاں الیکشن سے چند ماہ پہلے تحلیل کرنے کی پیشن گوئی کردی ہے ۔یعنی نون لیگ خود بھی یہی چاہ رہی ہے کہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات سے پہلے اسمبلیاں توڑ دی جائیں ۔یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے ۔اس وقت نون لیگ کی اکثریت ہے نون لیگ کو چاہئے تو یہی تھا کہ وہ ہر حال میں سینیٹ کے الیکشن تک حکومت کو طول دیتی۔اس صورت حال میں خواجہ آصف کا بیان نون لیگ کے اندر کسی عجیب کشمکش کی خبریں سنا رہا ہے ۔اور ہاں یہی وہ لوگ تھے جو کل تک نواز شریف کو اس بات کا یقین دلا رہے تھے کہ شہباز شریف ڈیل کر چکے ہیں ۔ وہ اپنی حکومت بچانے کےلئے آپ کے خلاف صف آرا ہیں ۔ وہ اب خود وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں ۔وہ مریم نواز کی جگہ حمزہ شریف کو آگے لانا چاہتے ہیں ۔اب وہی لوگ جب کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف کی باری آ گئی ہے تواب ان کا کیا خیال ہے ۔ ممکن ہے دونوں خاندانوں میں کچھ باتوں پر اختلاف ہو مگر نواز شریف اور شہباز شریف دو کشتیوں کے مسافر نہیں ۔ وہ ایک ہی بحری جہاز میں ہمیشہ سےمحو سفرہیں ۔ البتہ ہر طوفان سےنبرد آزما دونوں اپنے اپنے انداز میں ہوتے ہیں ۔باقی سب مایا ہے ۔چاہے منصو ر آفاق کا کالم ہویا کسی نے فرمایا ہو ۔ سب اپنی اپنی باری کے انتظار میں ہیں ۔