منتخب کردہ کالم

ایک نئے ہسپتال کی کہانی…حبیب اکرم

ڈاکٹر سعید اختر گردوں کے امراض کے ماہر ہیں۔ زندگی کا بڑا حصہ امریکہ میں گزارا اور وہاں اپنے میدان میں خوب نام پیدا کیا۔ کچھ عرصہ پہلے وطن واپس آکر اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں کام شروع کیا تو یہاں بھی نام بن گیا۔ گردوں کے امراض کا علاج دنیا بھر میں مہنگا ترین ہوتا ہے‘ سو پاکستان میں کام کرتے ہوئے انہوں نے یہ خیال رکھا کہ گردوں کا کوئی غریب مریض ایک بار ان تک پہنچ جائے تو پھر اس کے دوا دارو کا بندوبست بھی وہ اپنے ذمے لے لیں۔ کبھی اس کے لیے امریکہ میں اپنے دوستوں کے سامنے ہاتھ پھیلایا اور کبھی پاکستان کے اصحابِ خیر کو متوجہ کر لیا۔ ایک ڈاکٹر اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے انسانیت کی جو خدمت کر سکتا ہے، ڈاکٹر سعید اختر کرتے رہے اور دل میں کسی ایسے ادارے کی تشکیل کے منصوبے بھی بناتے رہے‘ جو پاکستان میں گردوں کے امراض کا علاج کرے اور ان پر تحقیق بھی کرے۔ دو ہزار بارہ میں کسی نے انہیں آصف علی زرداری کے پاس جانے کا مشورہ دیا تو انہوں نے صدر مملکت کے سامنے اپنے منصوبے کا خاکہ پیش کیا مگر اس کا انجام وہی ہوا جو زرداری صاحب کے ہاتھوں کسی فلاحی منصوبے کا ہو سکتا ہے، یعنی سب کچھ فائلوں میں دبا رہ گیا۔ دو ہزار تیرہ میں ان کی ملاقات شہباز شریف سے ہوئی تو ان کے سامنے بھی اپنا منصوبہ پیش کر دیا۔ زرداری صاحب کے برعکس شہباز شریف نے منصوبہ فوری طور پر قبول کر لیا مگر اس میں گردوں کے ساتھ ساتھ جگر کے امراض کی تحقیق و علاج شامل کرنے کے لیے بھی کہہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب کی شرط تھی کہ اس میں بیوروکریسی اور سیاستدانوں سمیت کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ تھوڑی بہت رد و قدح کے بعد یہ شرط بھی مان لی گئی۔ اس کے بعد یہ معاملہ کبھی رکتا، کبھی چلتا رہا‘ یہاں تک کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کا ڈھانچہ بن گیا۔ لاہور میں اس کے لیے زمین بھی مہیا کر دی گئی اور مطلوبہ سرمایہ بھی فراہم ہو گیا۔
ڈاکٹر صاحب سے میری پہلی ملاقات کوئی سال بھر پہلے ہوئی۔ ان کا اعتماد اور اپنے مقصد سے لگن نے متاثر تو کیا مگر یہ سوال دل میں رہا کہ ڈاکٹر صاحب بار بار کسبِ کمال اور مہارت کی بات کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ دونوں خصوصیات ناپید ہوتی جاتی ہیں تو یہ ایسے لوگ کہاں سے لائیں گے؟ اس کے علاوہ یہ شک بھی تھا کہ برطانوی اور امریکی شہریت کے حامل پاکستانی ”صاحبانِ کمال‘‘ عام طور پاکستان کا رخ واردات ڈالنے کے لیے ہی کرتے ہیں اور اپنے ”مقدس مشن‘‘ کی کامیابی کے بعد فوراً رفو چکر ہو جاتے ہیں۔
ان لوگوں کا طریقۂ واردات یہ ہوتا ہے کہ امریکہ، برطانیہ یا یورپ میں ایک کاغذی کمپنی بناتے ہیں‘ اور اپنے لیپ ٹاپ اور چرب زبانی کے زور پر حکومتوں کو چونا لگا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ نئی حکومت آتی ہے تو نئی کمپنی اور نئے لیپ ٹاپ کے ساتھ دوبارہ وہی نکما منصوبہ لے کر آ جاتے ہیں۔ پہلے تو اس طرح کے احمقانہ منصوبوں میں دریائے سندھ کو اٹک سے کراچی تک گہرا کرکے جہاز رانی کے لئے موزوں بنانا، چنیوٹ میں بیک وقت لوہے، تانبے سونے کے ذخائر دریافت کرنا اور بلوچستان میں موجود تانبے کے ذخائر کو سستے ترین طریقے سے نکالنا جیسے معاملات شامل تھے‘ مگر پچھلے کچھ عرصے میں صحت کے نام پر بھی جعل سازی کی بڑی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔ اس لیے غیر ملکی پاسپورٹ کے حامل پاکستانی وارداتیے ایک بار پھر ملک بھر میں نظر آنے لگے ہیں۔ ان کے کمپیوٹر میں پاکستان میں صحت کے مسائل پر رنگ برنگی پریزینٹیشنز مع حل بھی موجود ہیں اور ہمارے تیز طرار نظر آنے والے حکمران ان کے ہاتھوں احمق بننے کے لیے ہمہ وقت تیار بھی رہتے ہیں۔ ان وارداتیوں کے کئی پسندیدہ مقامات ہیں ‘ کیونکہ ان مقامات پر ایسے مشاہیر بستے ہیں جنہیں دست قدرت نے حکومتیں تو دے دی ہیں مگر ہماری آزمائش کے لیے عقل و بصیرت سے محروم رکھا ہے۔
خیر، ڈاکٹر سعید اختر سے پہلی ملاقات ہوئی تو دل میں کوئی امید جاگی نہ کسی وسوسے نے جڑیں پکڑیں۔ ایک صحافیانہ شک البتہ باقی رہا۔ سال گزر گیا تو چند دن پہلے مجیب الرحمن شامی صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے کسی نے فون کیا کہ آپ دو دن بعد لاہور نالج پارک آ جائیں‘ جہاں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کی تازہ ترین صورت حال پر صحافیوں کے لیے بریفنگ کا انتظام کیا گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر سعید اختر کا تاکید مزید کا ایس ایم ایس بھی موصول ہو گیا۔ دیے گئے وقت پر میں بتائی گئی جگہ پر پہنچا تو وہاں دنیا ہی الگ تھی۔ ایک سال پہلے جہاں خاک اڑ رہی تھی وہاں تکمیل کے قریب پہنچی ہوئی ایک زیر تعمیر عمارت نظر آ رہی تھی۔ اس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ چار سو پچھتر بستروں پر مشتمل دنیا کا جدید ترین ہسپتال ہے جہاں گردے اور جگر کے امراض کا علاج ہو گا۔ اس کے قریب ہی ایک عارضی عمارت میں ایسا کلینک کام کرتا ہوا نظر آیا جہاں ان دونوں امراض کے مریض پاکستان بھر سے پہنچے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ یہ ہسپتال دراصل پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں موجود گردے اور جگر کے امراض کے مراکز کا اعصابی مرکز بن جائے گا۔ اس طرح کوئی مریض خواہ کسی بھی ضلعے میں ہو اسے مقامی معالج کے علاوہ اس مرکز میں بیٹھے ڈاکٹر کی مدد بھی مل سکے گی۔ پھر یہ مرکز ہر مریض کا ڈیٹا بھی مرتب کرتا چلا جائے گا‘ جس کی بنیاد پر یہ تحقیق بھی ممکن ہو سکے گی کہ پنجاب کے کس علاقے میں یہ مرض زیادہ ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔ اس ہسپتال کے بارے میں ان کا کہنا تو یہ تھا کہ اس میں جو سہولیات میسر ہوں گی وہ امریکہ میں بھی نہیں ملتی ہوں گی‘ مگر میں سوچ رہا تھا کہ جب یہ ہسپتال چل پڑے گا تو یہاں پر ینگ ڈاکٹر بھی ہوں گے اور جہاں ینگ ڈاکٹر ہوں گے وہاں مار دھاڑ بھی ہو گی۔ کچھ عرصے بعد یہ ہسپتال دوسرے ہسپتالوں کی طرح ہڑتالوں کی زد میں ہوگا، اس کی ایمرجنسی بند ہو گی اور پاکستانی ڈاکٹروں کی مہارت کی دہائی دیتے ہوئے گردے اور جگر کے مریض اس عالی شان عمارت کے دروازے پر دم توڑا کریں گے۔ ڈاکٹر سعید اختر کی لائی ہوئی جدید ترین مشینیں اس ہسپتال کے اندر بننے والے مافیا کے قبضے میں ہوں گی اور مریض اپنے ٹسٹ کرانے کے لیے مہنگی مہنگی نجی لیبارٹریوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ڈاکٹر سعید اختر بتا رہے تھے کہ دنیا بھر کے ہسپتال ایک پیشہ ورانہ نظام کے تابع ہوتے ہیں‘ اور جو ڈاکٹر اس نظام کو اہمیت نہیں دیتا، اسے نکال دیا جاتا ہے‘ سو اس ہسپتال میں بھی یہی نظام ہو گا‘ اور کارکردگی ہی نوکری یا ترقی کا معیار ہو گی۔ ہر شخص کا دائرہ کار متعین ہو گا اور اس دائرے کے اندر رہ کر ہی اسے کام کرنا ہو گا۔
دائرہ کار کی بات بھی خوب ہے۔ کسی بھی نظام کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اس میں کون کیا کرے گا۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ہم پاکستانی بحیثیت قوم اس نکتے کو فراموش کر چکے ہیں۔ ہم ایک بہادر سپاہی سے یہ توقع باندھ لیتے ہیں کہ وہ معاشی کامیابیوں کا نقیب ہو گا، ایک قانون دان سے امید کرتے ہیں کہ وہ قانون کے جھاڑو سے سیاست کا گند صاف کر دے گا۔ ہم نظام سے باہر جا کر ہر وہ کام کرنے میں مہارت رکھتے ہیں جو ہمارا نہیں اور ہر وہ کام بگاڑ ڈالتے ہیں جسے بنانے کی ذمہ داری ہم پر ڈالی گئی تھی۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں بھی اگر گارڈ آپریشن تھیٹر میں داخل نہ ہوا، قانونی مشیر لیبارٹری سے دور رہا اور ڈاکٹر کو سیاست سے باز رکھا گیا تو نظام بھی چلے گا اور ہسپتال بھی۔ ورنہ حال پاکستان جیسا ہی ہو گا جہاں نظام ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے۔