منتخب کردہ کالم

بارش کا پہلا قطرہ .. عشرت اختر

صحت اللہ تعالی کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے دولت ،شہرت ، اولاد ،غرضیکہ تمام دیگر نعمتیں ہیچ ہیں اگر صحت کی نعمت میسرنہیں۔ باالفاظ دیگر صحت کی دستیابی سے دیگر نعمتوں کا حصول عین ممکن ہے یعنی صحت کی حیثیت بنیادی ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اعوام الناس کی صحت کے لیے خصوصی نظام کار فرماں ہیں۔ جن کی بدولت عوام کو صحت کی بہتر سہولیات میسر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام کا مقدر افراد پر منحصر ہے۔ جس اقوام کے افراد تندرست و توانا ہیں وہ قوم ترقی کے زینے تیزی سے طے کرتی ہیں اس کے برعکس اگر کسی ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ صحت کے مسائل میں الجھا ہوا ہے اس کا ملکی ترقی و خوشحالی میں کردار نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے بلکہ بعض حالات میں ابتر صحت کے مالک افراد قوم پر بوجھ بن جاتے ہیں ۔ اس حقیقت کے پیش نظر اعوام الناس کی صحت کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔
صد افسوس پاکستان میں یہ شعبہ گزشتہ کئی عشروں سے نظر انداز ہوتا چلا آرہا ہے ۔ غریب عوام کے لیے صحت کی ناکافی سہولیات ان کی زندگی کو دشوار بنائے ہوئے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی تعداد اور کارکردگی اعوامی ضروریات پر کسی صورت پورا نہیں اتر رہی ہیں ۔ مجبوراً اعوام کو نجی صحت کے اداروں سے رابط کرنا پڑتا ہے جن کے اخراجات آسمان سے باتیں کرتے ہیں اور غریب کی جیب کتری کے باوجود ان کے لمبے لمبے بل مریض اور اسی کے لواحقین کی دسترس سے دور ہیں۔ کینسر ہیپاٹائٹس اور دیگر موذی امراض کی صورت میں غریبوں کے پاس دیوالیہ ہونے کے بعد سوائے موت کا سامنا کرنے کے کوئی دوسرا چارہ نہیں رہتا ۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان پچھلے 20برسوں میں ایک بھی سرکاری ہسپتال قائم نہیں کیا گیا جس سے حکمرانوں کی عوام بارے دلچسپی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں بھی عوام کو نیلی پیلی گولیاں دے کر ٹرخانے کی حکمت عملی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کو جو محدود فنڈز دیئے جاتے ہیں ان میں بھی کرپشن کرنا ارباب اختیار اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں صحت کے شعبے کی ناگفتہ بہ صورتِ حال کے پس منظر میں بارش کا پہلا قطرہ گراِ۔ گزشتہ سال کے آخر میںوزیرِاعظم ہیلتھ پروگرام کا افتتاح کیا گیا جس کے تحت 23 اضلاع میں غریب لوگوں کو مفت علاج کی سہولیات مہیا کی جانی تھیں۔ تین اضلاع سے آغاز ہونے والا یہ پروگرام اب دیگر 20 اضلاع میں بھی پھیلا دیا گیا ہے۔ روزانہ 200 روپے سے کم آمدنی والے افراد اس پروگرام کا ہدف ہیں۔ اس ہیلتھ پروگرام کے تحت کینسر، ہیپاٹائٹس اے، بی سی اور دیگر موذی امراض کا اعلاج کیا جائے گا۔ گزشتہ روزرحیم یار خان میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ ملک میں پچاس نئے ہسپتال قائم کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے ہیلتھ کارڈ کے اجراء کا اعلان بھی کیا۔ یہ پروگرام، ان غریبوں کے لیے مخصوص ہے جو کہ اپنے علاج معالجے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ۔ غریب مریضوں کے علاج کے لیے تین لاکھ تک کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی اور اگر اس سے زیادہ اخراجات آئے تو زائد رقم بیت المال ادا کرے گا۔رحیم یار خان مین اس پروگرام کے تحت ڈھائی لاکھ خاندان رجسٹر کئے جارہے ہیں جبکہ دیگر اضلاع کے تین لاکھ نوے ہزار خاندان اسی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں اور لورالائی ، خانیوال اور لسبیلہ میں انرولمنٹ کے کام جاری ہے۔
اس پروگرام کی نگرانی کے لیے منظم نظام بنایا ہے جب یہ منصوبہ شروع ہوا تھا تو ابتدائی طورپر لاہور اور اسلام آباد میں تین سو پنشنرز قائم کیے گئے تھے اور اب ہر ضلعے میں منصوبے کی نگرانی کے پنشنرز قائم کیے جا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 12لاکھ خاندان اس منصوبے سے فائدہ حاصل کریں گے۔ حکومت نے اس سلسلے میں تقریباً19ارب روپے مختص کیے تھے۔ علاج کے ساتھ ساتھ ادویات کی مفت فراہمی بھی میسر کی جائے گی۔
اب جبکہ وزیراعظم نے قومی ہیلتھ پروگرام کا اجراء کر دیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کارنامے کو عوام ہمیشہ یاد رکھیں تو انہیں اس بدبو دار نظام کو فی الفور ٹھیک کرنا چاہیئے تاکہ اس کے فوائد عام آدمی تک براہ راست پہنچ سکیں۔ پاکستان کا شروع سے ہی یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں پر عوام کو براہ راست مستفید نہیں کیا جاتا جیسے اگر حکومت رمضان پیکج یا یوٹیلٹی سٹورز پر عوام کوئی ریلیف فراہم کرتی ہے تو اس ریلیف کی پہلے ہی آپس میں بندر بانٹ کر لی جاتی ہے اور عوام کی قسمت میں صرف در در کی ٹھوکریں اور کئی کئی گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا ہی رہ جاتا ہے۔
پاکستانی عوام کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوامی صحت جیسے نازک معاملے کی طرف توجہ دینا شروع کی ہے گوکہ دیر سے ہی سہی دیر آید درست آید ۔ضرورت اب اس امرکی ہے کہ عوامی بہبود کے ایسے منصوبوں کوبد عنوانی نااہلی اور سست روی جیسے عوامل سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی موثر اقدامات اٹھائے جائیں ۔ تاکہ صرف غریب عوام ہی ان منصوبوں سے مستفید ہو سکیں۔ موجودہ حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ صحت کے پروگرام میں توسع کے ساتھ ساتھ شفافیت کو تر جیح دی جائے گی۔جس سے نا صرف عوام النا س کو فائدہ ہوگا بلکہ خود حکومتی جماعت کے لیے ایسے اقدامات آئندہ آنے والے انتخابات میں فائدہ مند ثابت ہونگے۔