منتخب کردہ کالم

برطانیہ میں پاکستانی …ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

برطانیہ میں پاکستانی …ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
میں7ستمبر سے برطانیہ میں ہوں۔ گزشتہ کالم صدیوں سے قائم آکسفورڈ یونیورسٹی سے لکھا تھا۔ آج چند معروضات دنیا کے ایک اور قدیم ترین ساتھ ہی جدید ترین شہر لندن سے۔
لندن تقریبا دو ہزار سال قدیم شہر ہے۔رومیوں نے 43عیسوی میں برطانیہ پر حملہ کرکے وسیع علاقہ فتح کیا تھا۔ دریائے ٹیمز کے کنارے ایک مقام پر انہوں نے پل تعمیر کیا۔ دریا کی گہرائی دیکھتے ہوئے رومیوں نے سوچا کہ یہاں ایک بندر گاہ بھی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ 50عیسوی میں رومیوں نے پل کے ساتھ ایک شہر تعمیر کیا۔ انہوں نے اس نئے شہر کا نام لنڈونیئس (Londonios) رکھا۔ سیلٹک (Celtic)زبان کے اس لفظ کا مطلب ہےThe Place Of the bold one اپنے قیام کے گیارہ سال بعد61عیسوی میں باغیوں کے ہاتھوں آگ لگا دینے سے اس شہر کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ باغیوں کی جلد سرکوبی کے بعد لندن دوبارہ آباد کیا گیا۔ رومن لندن میں شہر کے گرد حفاظتی دیوار بھی بنائی گئی۔ رومیوں نے لندن کو کئی شہری سہولتوں سے آراستہ کر کے ایک جدید شہر بنانے پر بہت زیادہ توجہ دی۔ پانچویں صدی کے شروع میں رومیوں کی برطانیہ سے واپسی کے بعد لندن ایک برطانوی شہر بن گیا۔
برطانوی بادشاہت کے تحت لندن کے مشہور زمانہ اور تاریخی ٹاور آف لندن کی تعمیر 1078میں مکمل ہوئی۔ آزادی اظہار کی ایک بڑی علامت ہائیڈ (Hyde) پارک بھی صدیوں پرانا ہے۔ 1872میں ہائیڈ پارک میں ایک اسپیکر کاؤنٹر بنایا گیا۔ اس مقام پر ہر شخص کو اپنی مرضی کی ہر بات کہنے کی آزادی دی گئی۔شاہی خاندان کی رہائش گاہ بکنگھم پیلس کی تعمیر 1850میں مکمل ہوئی تھی۔ لندن کو دنیا کا مالیاتی دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے۔ بینک آف انگلینڈ اس کی ایک بہت بڑی علامت ہے۔ بینک آف انگلینڈ کا قیام جولائی 1694میں عمل میں آیا۔
برصغیر کے لوگوں کی برطانیہ آمد ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر میں آمدکے بعد ہوئی۔ شروع میں بمبئی، مدراس، بنگال اور بعض دیگر ساحلی علاقوں کے لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کے طور پر برطانیہ آئے۔1932میں برٹش انڈین کی تعداد تقریباََسات ہزار تھی۔ 50اور 60 کی دہائیوں میں برطانیہ میں جنوبی ایشیا سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان دنوںپاکستانی نژادبرطانوی یا پاکستان سے تعلق رکھنے والے پیدائشی برطانوی پاکستانیوں کی تعداد بارہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان میں زیادہ تر کا آبائی تعلق آزاد کشمیر اور پنجاب سے ہے۔ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بھی یہاں آباد ہیں، پاکستان سے آکر برطانیہ میں آباد ہونے کی تعداد روز بروز کم ہورہی ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والے برٹش پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
برطانیہ اپنے سب شہریوں کے لئے مواقع فراہم کرتا ہے۔ بچے کو سولہ سال کی عمر تک تعلیم دلوانا والدین کی قانونی ذمہ داری ہے۔ اسکول کی تعلیم فری ہے اور معیاری ہے۔ برطانوی شہریوں کے لئے روزگار کی ضامن حکومت ہے۔ کسی شخص کے پاس روزگار نہ ہو یا میاں بیوی کی سالانہ آمدنی پچیس ہزار پاؤنڈ سے کم ہو تو حکومت انہیں نقد رقم اور مکان کا کرایہ ادا کرتی ہے۔ میڈیکل ہر ایک کے لئے فری ہے۔ حصول تعلیم کے بعد ہر برطانوی کسی بھی شعبے میں جاسکتا ہے۔
یورپ میں سب سے زیادہ پاکستانی برطانیہ میں آباد ہیں۔ یہاں انہیںقانونی حقوق اور سہولتیں میسر ہیں۔ 50اور60کے عشروں میں برطانیہ آنیوالے پاکستانیوں کی اکثریت نے یہاں آمد کے بعدکچھ اس طرح حصول معاش کا اہتمام کیا کہ جو کام بھی ملے کرلیا جائے۔ پاکستان سے تعلیم حاصل نہ کر پانے یا بہت کم تعلیم ہونے کی وجہ سے برطانیہ آنے والے زیادہ تر پاکستانی کارخانوں، فیکٹریوں اور دیگر اداروں میں بطور مزدور، ہیلپر یا دیگر چھوٹی پوسٹوں پر کام کرتے رہے۔ تعلیم اور ہنر کی کمی کی وجہ سے جاب مارکیٹ میں بڑے اور درمیانی عہدوں کے لئے پاکستانی اپنے لئے کوئی خاص مقام نہ بنا سکے۔ پاکستانیوں کی نسبت بھارتیوں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول اور نمایاں پروفیشنز میں شمولیت پر زیادہ توجہ دی۔
برصغیر کے لوگ جن میں پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی شامل ہیں عموماً اپنے آپ میں مگن رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے علاقوں میں رہائش کو ترجیح دیتے ہیں جہاں آس پاس اپنے ہم زبان و ہم وطنلوگ آباد ہوں۔ ان کا حلقہ احباب بھی زیادہ تر اپنے گاؤں، اپنے شہر یا اپنے ملک کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ گوروں سے میل جول اور سماجی تعلقات تو ایک طرف برطانیہ میں آباد دیگر تارکین وطن مثلاً عرب، ترک، ایرانی، افریقی شہریوں سے ملنا جلنا بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انگریزوں کے ساتھ یا دیگر یورپین کے ساتھ میل جول ہزاروں میں سے شاید کسی ایک پاکستانی کا ہو۔
ایک اہم معاملہ زبان کی اجنبیت کا بھی ہے۔ بھارتی، بنگلہ دیشی اور پاکستانی برطانویوں کی بہت بڑی تعداد یوکے میں دہائیوں سے رہنے کے باوجود انگلش روانی سے نہیں بول سکتی۔اس لینگویج بیریئر نے گھر کے باہر عملی زندگی میں ہی نہیں بلکہ گھر کے اندر بھی کئی مسائل کو جنم دیا۔ تارکین وطن کے اسکول جانے والے بچے انگلینڈ، ویلز یا اسکاٹ لینڈ کے مقامی لہجوںمیں روانی سے انگلش بولنے لگے، ان کے والدین ہندی، بنگالی، پنجابی، پشتو، اردو وغیرہ میں ہی بات کرتے رہے۔ اب ایسا ہوا کہ بچہ گھر میں انگلش میں بات کررہا ہےاور اس کے ماں باپ اسے اپنی مادری زبان میں جواب دے رہے ہیں۔ والدین اپنے بچے کی انگلش میں کی گئی بات کو ایک حد تک سمجھ لیتے ہیں لیکن اسے انگلش میں جواب نہیں دے سکتے۔ بچہ بھی والدین کی بات تھوڑی بہت سمجھ رہا ہے لیکن ان کی زبان میں جواب دینے سے قاصر ہے۔
ترک وطن آسان کام نہیں ہے۔ اس عمل میں کئی مشقتوں اور الجھنوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک ثقافتی ٹکراؤ (Cultural Conflict) بھی ہے۔
برصغیر سے برطانیہ، یورپ یا دیگر مغربی ممالک سے آ کر بسنے والے مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں نے اس ثقافتی ٹکراؤ یا خلیجکو زیادہ محسوس کیا۔ برطانیہ میں ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اوراپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت ہے۔ یہاں مختلف ثقافتوں کے لئے بھی کھلا پن پایا جاتا ہے۔ اپنی زبان میں ابلاغ کے لئے اخبار، ریڈیو، ٹیلی وژن کی اشاعت اور براڈ کاسٹ کی اجازت ہے۔ کئی شہروں کی حکومتیں اپنے شہر کے ملٹی کلچرل امیج کو نمایاں کرنا چاہتی ہیں۔ ہر برطانوی کو مقامی حکومت یا پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کی اجازت ہے۔پاکستانی نژاد سمیت کئی نئے برطانوی مقامی لوگوں کے ووٹ سے شہری حکومت اور پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔ لیکن زبان کی اجنبیت اور سماجی میل جول میں حائل کئی رکاوٹیں اب بھی ہیں۔
میں کئی بار برطانیہ آچکا ہوں۔ میرا پہلا ٹرپ 1989 میں ہوا تھا۔ پاکستانی نژاد کئی برطانیوں میں جس لینگویج بیریئر اور مقامی افراد کے ساتھ میل جول میں جس جھجک کا مشاہدہ میں نے تقریبا تیس سال پہلے کیا تھا وہ آج بھی کم و بیش اسی طرح ہے۔ البتہ تارکین وطن کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں اور یہاں اسکول کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی نسل کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ لندن کی ایک معروف سماجی شخصیت ،مختلف قومیتوں سےوسیع میل جول رکھنے والے محترم محمد علی شاہ نے اس حوالے سے بتایا کہ برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے تارکین وطن کےلڑکے لڑکیاں میڈیکل، اکاؤنٹس، فنانس، انجینئرنگ،قانون، آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں تعلیم حاصل کرکے اب اعلیٰ سطح سے عملی زندگی میں شامل ہورہے ہیں۔ اس تعلیم یافتہ نسل کے لئے برطانیہ میں سماجی میل جول اور معاشرے کی خدمت کے مواقع زیادہ ہیں۔ توقع ہے کہ نئی نسل کے تعلیم یافتہ برٹش پاکستانی اپنے مثبت اور تعمیری کردار کے ذریعے نہ صرف اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن کریں گے بلکہ اپنی قوم کے لئے بھی فخر کا سبب بنیں گے۔