منتخب کردہ کالم

بڑے اداس ہو۔بیوی کے پاس ہو….ارشاد بھٹی

پڑوس

بڑے اداس ہو۔بیوی کے پاس ہو….ارشاد بھٹی
یہ تو سب نے سن ہی رکھا ہوگا کہ’’ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے‘‘ مگر بہت ساروں کو یہ پتا نہیں ہوگا کہ وہ عورت کامیاب شخص کے پیچھے کیوں، کیا کر رہی اور کامیاب شخص کا ردِعمل کیا، لہٰذا چند نمونے ملاحظہ ہوں، ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت، جو ہر لمحے اسے نکھٹو ثابت کرنے میں لگی رہے، ہرکامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت، جو ہر وقت اس کی مت ماری رکھے، ہرکامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت، جو اسے یاد دلاتی رہے کہ تم میرے اور اپنے سسرال کی وجہ سے کامیاب، ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت، جس سے ہر کامیاب شخص بڑا ہوشیار رہے، ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت، پھر بھی وہ شخص کامیاب اور ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت، جسے ہر کامیاب شخص اپنی بیوی سے چھپا کر رکھے، بیویوں سے یاد آیا کہ ایک بیوی نے شوہر سے کہا ’’سنو میں دو گھنٹوں کیلئے باہر جا رہی ہوں، تمہیں کچھ چاہئے‘‘ شوہر بولا ’’نہیں نہیں….. تم جارہی ہو….. یہی کافی ہے‘‘، ایک بیوی نے سبزیاں کاٹتے ہوئے بڑے ہی لاڈ بھرے انداز میں (شادی کے بعد یہی کچنی قسم کا لاڈ رہ جاتا ہے) خاوند سے پوچھا ’’جانو! یہ مرچیں کس موسم میں لگتی ہیں ‘‘ خاوند بولا ’’جانو! ہر موسم میں، بس جب تم بولنے لگ جاؤ‘‘، گو کہ ہمارے ہاں خاوندوں کی اکثریت ایسی سہمی سہمی زندگی گزار رہی کہ بقول شاعر ’’دفتر میں بھی اداس بیٹھے ہو….. گویا بیوی کے پاس بیٹھے ہو‘‘ لیکن کچھ خاوند پھر بھی مزاحمت کر رہے، جیسے ایک خاتون سے پوچھا گیا کہ پہلا خاوند کیوں چھوڑا‘‘ بولی ’’اس کلموہے کا تو نام ہی نہ لو، ہنی مون پر ہم بحری جہاز میں تھے کہ سمندری طوفان کی وجہ سے جب جہاز ڈوبنے لگا تو مجھ سے بولا ’’بے فکر ہو کر چھلانگ لگا دو، بس یہاں سے زمین ایک کلومیٹر ہی دور ہے‘‘ میں نے چھلانگ لگا کر جب پوچھا ’’کس طرف ہے زمین؟‘‘ تو بولا ’’تھلے نوں تھلے نوں (نیچے کی طرف)‘‘ وہ تو شکر ہے کہ ایک تو مجھے تھوڑی بہت تیراکی آتی تھی اوردوسرا چھلانگ لگانے سے پہلے میں نے Facebookپر اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر دیا تھا ورنہ ناحق ماری جاتی، لیکن دوستو! ایسے خاوند تو اب گنتی کے ہی رہ گئے ورنہ بیویات کے سامنے تو ’’محمود وایاز‘‘ ایک ہی صف میں، ایک مرتبہ اپنے علاقے کے وہ بابا جی جنہیں بواسیر سے سیاست تک، معدے کے اپھار سے تصوف تک اور محلے کے عشقوں سے عالم ارواح تک سب کچھ معلوم، اسی بزرگ جہاندیدہ سے پوچھا ’’باباجی بیگم کو کیسے کنٹرول کروں؟‘‘ کان میں ٹنگا سگریٹ سلگا کر اور جلی تیلی سے پہلے بڑے اطمینان سے اپنے ہاتھ کے ناخنوں کی میل نکالنے اور پھر اسی تیلی کو دونوں کانوں میں پھیرنے کے بعد ایک لمبی آہ بھر کر بابا جی بولے’’ پتر نئیں پتا‘‘ ۔
ہمارا ایک دوست جس کی بچپن سے ہی صحت ایسی کہ والدہ اسکول لے جارہی ہوتیں تو سب سمجھتے اسپتال لے جاری ہیں، جس کا خاندان ایسا خوبصورت کہ ایک بار خاندان میں مقابلہ حسن ہوا تو کوئی بھی نہ جیت سکا، جس کا اپنا چہرہ ایسا کہ پہلی نظر میں ہی پتا چل جائے کہ یہ اللہ نے نہیں، پولیس والوں نے بنایا، جو اچھی بات بھی یوں کر ے کہ اچھی نہ لگے، جس کی ریپوٹیشن ایسی کہ سگریٹ خرید کر بھی پیئے تو لوگ یہی سمجھیں مانگ کر پی رہا، جسے میٹرک میں بار بار فیل ہونے پر جب ٹیچر نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ’’شرم کرو تمہاری عمر میں تو قائداعظم نے وکالت بھی پاس کر لی تھی‘‘ تو ایک دن تنگ آکریہ بولا ’’سر آپ کی عمر میں بھی بھٹو صاحب پھانسی چڑھ گئے تھے‘‘ جو کالج دور میں سلطان راہی بننے کے خواب دیکھا کرتا، اس لئے ہر وقت سویا رہتا تاکہ وہ یہ خواب دیکھتا رہے، (شکل واقعی ایسی تھی کہ وہ سلطان راہی کے علاوہ کچھ اور بن بھی نہیں سکتا تھا) جس کا کہنا امریکہ سے ہمیں تب لڑنا چاہئے جب وہ مسلمان ہو جائے، جس کا یہ تجربہ کہ بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھا سب جھوٹ ہو، ورنہ اگر صرف یہ لکھا ہوا کہ’’جلنے والے کا منہ کالا‘‘ درست ہوتا تو اب تک پاکستان ویسٹ انڈیز بن چکا تھا، جس کی پیشین گوئی کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم جیتے یا ہارے مگر کوچ مکی آرتھر ٹیم کی کارکردگی کے معجزے دیکھ دیکھ کر مسلمان ضرور ہو جائے گا اور جس نے اپنی پہلی بیگم سے آخری جھگڑے کی تفصیل کچھ یوں بتائی کہ ’’ہم دونوں 14اگست کو پاکستانی جھنڈا خریدنے مارکیٹ گئے تو بیگم ایک جھنڈا ہاتھ میں پکڑ کر دکاندار سے بولی ’’بھائی اس میں اور Colors بھی دکھاؤ‘‘، ہمارا یہی دوست جو 3ناکام شادیوں کے بعد آجکل ’’میرج کونسلنگ‘‘ کر رہا اسی کا کہنا کہ اچھی بیوی وہ جو خاوند کو تب بھی معاف کر دے جب یہ ثابت بھی ہو جائے کہ غلطی بیوی کی، اسی کا بتانا، اچھا خاوند وہ ’’جو تب کچھ نہ کہہ رہا ہو جب وہ بیوی سے بات کر رہا ہو‘‘ اسی کی منطق ’’جس مرد کے کپڑے میلے اور بٹن ٹوٹے رہنے لگیں اسے دو میں ایک کام فوراً کرلینا چاہئے یا شادی کرلے یا طلاق دیدے‘‘ ، اور ہمارے اسی دوست کا سب کو یہی مشورہ کہ ’’باہمی رضا مندی سے میاں بیوی کو شادی کے شروع کے دنوں میں ہی ’’ بلی‘‘ مار لینی چاہئے تاکہ کم ازکم یہ جھگڑا تو ختم ہو، بلی سے یاد آیا ایک صاحب نے سحری کیلئے دودھ میں جلیبیاں بھگو کر رکھی ہوئی تھیں لیکن جب سحری کے وقت اسے پتا چلا کہ جلیبیاں تو بلی کھا گئی تو یہ دوبارہ لیٹتے ہوئے بولا ’’ہن روزہ وی بلی ای رکھے‘‘۔
دوستو! شادی وہ بندھن کہ جس میں بندھ جانے کے بعد دونوں فریقین کی حالت وہی جو گرمیوں کی دھوپ میں کھڑی موٹرسائیکل پر اچانک بیٹھنے سے ہو، شادی کے بعد جہاں بڑے بڑے سورما مرَدوں کا حال یہ ہو جائے کہ پھر اخبار میں ان کی مرنے کی خبر پڑھ کر ہی پتا چلے کہ موصوف زندہ بھی تھے اور شادی کے بعد جہاں ہر بندے کی زندگی اس بینگن کی طرح کہ جس کا مسلسل بھرتہ بنتا رہے، وہاں شادی کے بعد بعض اوقات خواتین کی حالت بھی ایسی کہ وہ خاوندوں کی سچی جھوٹی کہانیوں اور آئے روز پکڑی جانے والی چوریوں میں یوں زندگی گزار دیں کہ’’میں پیار لکھتی رہی وہ پیاز پڑھتا رہا، ظالم نے محبت کا سالن بنادیا‘‘ اور پھر کئی بیگموں کے خاوند تو اس شیخ صاحب جیسے کہ جن کی بیگم کا جب صبح صبح انتقال ہوا تو یہ آنسو بہاتے سب سے پہلے کچن میں آکر نوکرانی سے بولے’’تمہاری بیگم صاحبہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں، ان کا پراٹھا نہ پکانا‘‘ دوستو! جاتے جاتے مرد حضرات کو ہمارا یہی مشورہ کہ وہ جتنی محنت اپنا ’’سی وی‘‘ بناتے ہوئے کرتے ہیں، اگر اس سے آدھی محنت ’’بیوی‘‘ بناتے وقت کرلیں تو زندگی سکھی ہوجائے اور اپنی خواتین سے یہی گزارش کہ جتنی تحقیق وہ چائے کی’’پتی‘‘ خریدتے ہوئے کرتی ہیں اگر اس سے آدھی جانچ پڑتال وہ ’’پتی‘‘ کی سلیکشن کے وقت کرلیں تو زندگی کافی حد تک خوشگوار ہو جائے اور آخری بات، بلاشبہ یہ درست کہ اپنے ہاں گھر گھر بیوی راج مگر یہ بھی سچ کہ سارے خاوند ہی مظلوم و معصوم نہیں ہوتے بلکہ کبھی کبھار تو کھوج لگانے پر یہاں قاتل بیوی کی کہانی بھی کچھ اس طرح کی نکلے کہ جب وکیل نے پوچھا ’’قتل کی رات آپ کے خاوند کے آخری الفاظ کیا تھے‘‘ تو قاتل بیوی بولی ’’خاوند نے کہا تھا کہ شہناز میری عینک کہاں ہے‘‘ وکیل حیران ہو کر ’’اس بات پہ اتنا غصہ کیوں کہ خاوند ہی قتل کردیا‘‘ بیوی بولی ’’ میرا نام شہناز نہیں رضیہ ہے‘‘۔