منتخب کردہ کالم

بھارتی چڑیل اور سرجیکل سٹرائیکس .. کالم ابراہیم راجا

‘اندرا گاندھی کی فطرت مکار کتیا جیسی ہے‘ سابق امریکی صدر نکسن نے مضطرب لہجے میں کہا۔ میز کی دوسری جانب قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر تھے۔ کسنجر نے صدر نکسن کی طرف دیکھا اور بولے: ”بھارتی تو ہیں ہی حرام زادے، وہ جنگ شروع کرنے جا رہے ہیں‘‘… صدر نکسن نے حیرانی سے جواب دیا: ”میں نے اندرا گاندھی کو صاف صاف بتا دیا ہے، اب دیکھتے ہیں وہ کیا کرتی ہے‘‘… کسنجر پھر صدر نکسن سے مخاطب ہوئے: ”اندراگاندھی کتیا کی طرح رویہ اپنائے ہوئے ہے، آپ نے اسے ایک پیچیدہ پیغام پہنچا دیا ہے‘‘… صدر نکسن کا جواب تھا: ”ہاں ہم اس بوڑھی چڑیل کو پہلے ہی سب سمجھا چکے ہیں‘‘

یہ گفتگو پانچ نومبر انیس سو اکہتر کو ایک اجلاس میں ہوئی۔ اُس وقت جب بھارت مشرقی پاکستان میں فوج اتار رہا تھا اور اندرا گاندھی امریکا کے دورے پر تھیں۔ چوبیس نومبر انیس سو اکہتر کو ایک اور اجلاس میں امریکی سیکرٹری خارجہ ولیم راجرز نے بتایا: ”مشرقی پاکستان میں بھارت کی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے، پاکستانی افواج اپنے مرکز سے سیکڑوں کلومیٹر دور لڑ رہی ہیں، انہیں مغربی پاکستان سے فوجی رسد پہنچانا ناممکن ہے، بھارت نے ہمیں خط لکھا ہے کہ ہم اس معاملے میں کچھ نہ کریں اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں نہ لے کر جائیں۔ اندرا گاندھی نہیں چاہتی کہ اقوام متحدہ کے نمائندے مشرقی پاکستان جائیں‘ کیونکہ پاکستان کا موقف بھارت سے کہیں زیادہ منطقی اور درست ہے، وہ ہم سے درخواست کر رہی ہے کہ اس معاملے کو سلامتی کونسل سے دور ہی رکھیں، اگر معاملہ سلامتی کونسل میں گیا تو پاکستان کہے گا کہ اقوام متحدہ اپنے مبصر مشرقی پاکستان کیوں نہیں بھیجتی، اندرا گاندھی اس مطالبے کی مخالفت کرے گی، وہ نہیں چاہتی کہ دنیا میں کوئی بھی دیکھے کہ بھارت مشرقی پاکستان میں کیا کر رہا ہے، یہ معاملہ سلامتی کونسل میں گیا تو بھارت کو بدترین شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘… اسی اجلاس میں صدر نکسن نے کہا: ”اندرا گاندھی ہر صورت پاکستان توڑنا چاہتی ہے، وہ دنیا سے جو بھی کہے لیکن حقیقت یہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں، اس پورے معاملے میں بھارت زیادہ قصوروار ہے‘‘… امریکی سیکرٹری خارجہ ولیم راجرز نے اجلاس کو بتایا: ”میں نے اقوام متحدہ کے ان نمائندوں سے بات کی ہے جو پہلے سے مشرقی پاکستان اور سرحدی علاقوں میں موجود ہیں، وہ سب پریشان ہیں کیونکہ اندرا گاندھی کی حکومت ان سے بالکل تعاون نہیں کر رہی، وہ تسلیم نہیں کر رہی کہ بھارتی فوج پاکستانی علاقوں میں دراندازی کر رہی ہے، اندرا گاندھی نہیں چاہتی کہ وہ اقوام متحدہ کے مبصرین کے ہاتھوں رنگے ہاتھوں پکڑی جائے، اسی لیے یہ بھارتی مجھے بہت برے لگتے ہیں، ان سے مناسب طریقے سے بات کرنا بھی مجھے بہت مشکل لگتا ہے‘‘… اسی اجلاس میں ہنری کسنجر نے بتایا: ”بھارت چاہتا ہے کہ اس خطے میں مغربی پاکستان کی حیثیت محدود کرکے افغانستان جیسی کر دی جائے، دوسری جانب وہ مشرقی پاکستان کو بھوٹان جیسا ملک بنانا چاہتا ہے‘‘… یہ گفتگو کوئی افسانہ نہیں تاریخی حقیقت ہے، اس کی مصدقہ دستاویزات منظر عام پر آ چکیں۔ ان اجلاسوں میں ہونے والی گفتگو سے بھارتی استعمار کی شاطرانہ، گھٹیا اور مکروہ ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مودی سرکار کی درندگی اور جنگی جنون اسی سوچ کا تسلسل ہے۔

بھارتی آسیب کا شکار صرف پاکستان نہیں، دیگر ہمسایہ ملک بھی رہے، 1959ء میں بھارت کھلے عام چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا رہا، اسی سال بھارتی حکومت نے چین میں شورش کے ذمہ دار دلائی لامہ کو پناہ دی۔ 1962ء میں بھارت نے 3225 کلومیٹر طویل ہمالیہ بارڈر پر چین کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کر دی۔ بھارتی حکومت نے چین کے ساتھ سرحد پر جارحیت کے لیے ”فارورڈ پالیسی‘‘ بنائی۔ امریکی نیوی کے لیفٹیننٹ کمانڈر جان برنارڈ کے مطابق یہ بھارت ہی تھا جس نے متنازعہ علاقوں میں فوجی دستے بھیجنے شروع کیے، اسی پالیسی کے باعث بھارت اور چین کا تنازع شدت اختیار کر گیا۔

اس جنگ میں بھارت کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ اور چین نے مغربی بارڈر پر تمام عسکری اہداف حاصل کر لیے۔ بھارتی دراندازی کو طاقت کے زور پر کچل دیا گیا اور بھارتی وزیر اعظم نہرو امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے جنگی طیاروں اور جدید ریڈار فراہم کرنے کی بھیک مانگتے رہ گئے۔

بھارتی جنونیت کا نشانہ سری لنکا بھی بنا۔ 1980ء کے عشرے میں بھارت نے سری لنکا کے دہشت گرد باغی گروہ ”لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام‘‘ کو کھلے عام فوجی امداد دی۔ 1987ء میں جب سری لنکا تامل باغیوں کو شکست دینے کے قریب تھا، اور جافنا کے جزیرے میں ان کا مکمل محاصرہ کر لیا گیا تھا، عین اسی وقت بھارتی فضائیہ نے باغیوں کے لیے خوراک کے پیکٹ پھینکے اور انہیں اسلحہ و گولہ بارود بھی فراہم کیا گیا۔ بھارت کی اس مکاری پر سری لنکن حکومت اور عوام چِلا اٹھے۔ بھڑکتے عوامی جذبات کے پیش نظر، سری لنکن حکومت نے بھارتی فوج کو اپنے علاقوں سے نکلنے کا کہا‘ لیکن بھارتی حکومت نے ڈھٹائی سے انکار کر دیا۔ بھارتی فوج تقریباً32 ماہ سری لنکا میں رہی اور اس کے 1200 اہلکار مارے گئے۔ بھارت کا نیپال کے ساتھ بھی کلاپانی دریا پر دیرینہ تنازعہ چلا آرہا ہے۔ نیپال کے مطابق اس علاقے اور دریا پر بھارت نے 1962ء میں قبضہ کر لیا تھا۔ گزشتہ سال نیپال کے اندرونی سیاسی بحران میں بھی بھارت نے بے شرمی سے مداخلت کی، بھارت کی بارڈر پولیس اور کسٹم فورس نے نیپال کے تمام بارڈرز بند کر دیے، نیپال کو پٹرول کی سپلائی بند ہو گئی، خوراک اور ادویات کی فراہمی روک دی گئی، سکول، کالجز اور دیگر تعلیمی ادارے بند ہو گئے، ہسپتالوں پر تالے لگ گئے، یہاں تک کہ متاثرین زلزلہ کے لیے امدادی سامان کی ترسیل بھی روک دی گئی۔ نیپالی اور عالمی میڈیا نے بھارت کی اس ہٹ دھرمی کو بے رحمانہ اور سفاکانہ چال قرار دیا۔ بھارت نے بنگلہ دیش کو بھی نہیں بخشا، حسینہ واجد کی حکومت اگرچہ بھارت نواز ہے لیکن عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس ایک ہزار سے زائد بنگالیوں کو ہلاک کر چکی ہے۔ عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش کے ساتھ بارڈر پر ”Shoot To Kill‘‘ کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ 2001ء میں بھارتی فوج کے پندرہ اہلکار دراندازی کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے کری گرام میں گھس گئے تھے‘ جنہیں مقامی لوگوں اور بنگالی فوجیوں نے ہلاک کر دیا۔

انہتر برس ہوتے ہیں، بھارتی استعمار خطے میں بالادستی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ہمسایہ ملکوں کو دبانا، دھمکانا اور انہیں کمزور کرنا ہمیشہ بھارت کی ریاستی پالیسی رہی ہے۔ مودی سرکار کی توپوں کا رخ ایک بار پھر پاکستان کی جانب ہے۔ دو روز پہلے سرجیکل سٹرائیکس کا شوشا چھوڑا گیا، ماہرین کے مطابق یہ سرجیکل سٹرائیک کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی ہمسائے کے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ جائے۔ سوچنے سمجھنے والے حیران ہیں کہ احمقوں کی جنت میں رہنے والے مودی آخر اس محاذ آرائی سے کیا حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا وہ پاکستان میں بستے بیس کروڑ انسانوں کو پھونک ڈالنے پر قادر ہیں؟ پاکستان اڑی سیکٹر میں حملے کی تحقیقات کے لیے عالمی سطح کی آزادانہ تحقیقات کی پیش کش کر چکا، مودی سرکار اس پر ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟ بھارت کو پاکستانی سرزمین پر نہیں، دراصل نریندری مودی کے دماغ میں سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہے، وہ دماغ جس میں ہر وقت قتل و غارت اورخون ریزی سمائی رہتی ہے۔