منتخب کردہ کالم

بھٹکتی تعبیریں…نذیر ناجی

گزشتہ دنوںچین میں جی ٹوئنٹی کانفرنس میں مودی صاحب نے اپنی تقریر میں پاکستان کو دہشت گردی کی سرکاری طور پر اعانت کرنے کے لئے نشانہ بنایا ہے۔لائوس میں انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں ایک ملک(پاکستان) ایسا ہے”جس کا کاروبار صرف دہشت گردی ایکسپورٹ کرنا ہے اور اب اسے روکنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔ایک دہشت گردی مودی صاحب ‘ مقبوضہ کشمیر میں بھی کر رہے ہیں۔مجھے اس پاکستانی دہشت گردی کی تفصیل معلوم نہیں‘ جو بقول مودی صاحب‘وہ بیرونی ملکوں میں کر رہا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر پر قابض ایک بیرونی ملک کی طرف سے جو دہشت گردی ہو رہی ہے ‘ مودی صاحب سے کبھی سامنا ہو تو ان سے ضرور دریافت کرنا چاہئے کہ اسے روکنے کے لئے کیا تدبیر کی جائے؟ بھارت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کشمیر میں اس کی حیثیت ایک غاصب اور دہشت گرد ملک کی ہے‘ جس نے ایک کروڑ سے زائد کشمیریوں کو بندوق کے زور پہ غلام بنا رکھا ہے اور جب بھی وہاں کے نہتے عوام‘ ظلم و جبر سے نجات حاصل کرنے کے لئے مطالبے کرتے ہیں تو غاصب افواج ان پر ظلم ڈھانے کی انتہا کر دیتی ہے۔اب دو مہینوں سے زیادہ وہاں کرفیو نافذہے۔ مظلوم عوام کو عورتوں اور بچو ں کے ساتھ قید کی جو زندگی گزارنا پڑ رہی ہے‘ اس کے بارے میں نہ تو خودمودی صاحب نے کوئی بیان دیا اور نہ وہاں ظلم ڈھانے والی مسلح افواج کے خلاف کوئی آواز اٹھائی ہے؛ حالانکہ مودی صاحب نے خود کہا ہے کہ جو بیرونی ملک‘ کسی آزاد قوم کی حدود میں داخل ہوکر ان پر ظلم ڈھائے‘ اسے دہشت گرد قرار دے دینا چاہئے۔غالباً پاکستان کو دہشت گرد قراردینے کے بھارتی مطالبے کے دائرے میں بھارت بھی یقیناً آتا ہے۔ مودی صاحب اس کا نام کیوں نہیں لیتے؟
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے‘ ہم نے کسی بھی ملک کے علاقے پر کوئی قبضہ نہیں کیا۔بھارت کی طرح مسلح افواج کو بھی نہتے عوام پر مسلط نہیں کیا‘ نہ انہیں کرفیو میں عورتوں اور بچوں سمیت جبری قید کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ہمارے وزیراعظم صاحب اورمودی صاحب کی ٹھیک ٹھاک دوستی ہے۔ ان کی باہمی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ہمارے عوام ہر ملاقات کے بعد‘ یہ امید لگاتے ہیں کہ پاکستانی وزیراعظم‘ مودی صاحب کو مقبوضہ کشمیری عوام پر ہونے والی بیرونی دہشت گردی کی یاد تو ضرور دلاتے ہوں گے۔ان دنوں چونکہ مودی صاحب بیرونی دہشت گردی کی مخالفت میں بیانات دے رہے ہیں‘ مناسب رہے گا کہ انہی کے خیالات کی روشنی میں‘پاکستانی وزیراعظم اپنے دوست کو یاد دلائیں کہ جس عمل کو وہ پاکستان سے منسوب کر کے‘ اس کی مذمت کرتے ہیں‘ خود مودی صاحب بھی اس عمل کی مخالفت کریں تاکہ دونوں دوست مل کر‘ بیرونی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائیں۔
مودی صاحب کی حکومت کو شکایت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان‘ وہاں کی سیکولر جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر‘ مذہبی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مودی صاحب کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ بھارت کے اندر‘ مودی صاحب کی جماعت بھی مذہبی حکومت قائم کرنے کی دعویدار ہے۔ ابھی تک وہ سیکولر بھارت میں ہندوئوں کی مذہبی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔لیکن مقبوضہ کشمیر سے شکایت ہے کہ غلامی کے خلاف جدوجہد کرنے والے کشمیری مسلمان‘ اپنی ریاست میں مذہبی حکومت کیوں قائم کرنا چاہتے ہیں؟ بھارتی اخبارات میں جمعے کو سرکاری ذرائع کے حوالے سے کشمیر کے بارے میں جو خبریں شائع ہوئی ہیں‘ ان سے اشارہ ملتا ہے کہ مرکزی حکومت‘ کن خطوط پر سوچ رہی ہے؟” ہندوستان ٹائمز‘‘ کے مطابق سرکاری ذرائع کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ”حکومت علیحدگی پسندوں سے بات چیت نہیں کرے گی کیونکہ وہ پہلے ہی تشدد کے ذریعے‘ ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں کا قلع قمع کرنا چاہتی ہے‘‘یعنی وہ مسلمانوں کی تحریک آزادی کو کچلنے پر بضد ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی حکومت کا اپنا ایک وفد‘ آزادی پسند کشمیری عوام کے نمائندوں سے مذاکرات کے لئے مقبوضہ کشمیر گیا تھا۔بھارت کے ایک وفاقی وزیر‘ جتیندر سنگھ نے باضابطہ یہ بات کہی کہ” تمام سٹیک ہولڈرز(فریقین) سے بات چیت کے راستے کھلے ہیں‘‘۔ کشمیر میں قابض بھارتی افواج کے ساتھ‘ ایک مقابلے میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد‘تحریک آزادی میں جو شدت آئی تھی‘ اس میں اب تک اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔اس تحریک میں80 سے زیادہ مسلمان شہادتیں دے چکے ہیں۔شہادتوں کا یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے اور اس میں ہزاروں مسلمان قربانیں دے چکے ہیں۔اس کے باوجود‘ بھارتی حکمرانوں کو شکایت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد میںپاکستان کا ہاتھ ہے۔ یہ دعویٰ تو حکومت کی طرف سے پہلے بھی کئی بار کیا جا چکا ہے لیکن مودی کی حکومت کا یہ موقف ہے کہ ” وادی کے مسلمانوں میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اور تصوف سے ہٹ کر مسلمان ”وہابی اسلام‘‘ کا رخ کر رہے ہیں‘‘۔ ٹائمز آف انڈیا نے لکھا ہے کہ” حکومت سخت موقف اختیار کرے گی۔ جموںو کشمیر میں وہابی مذہبی حکومت کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ ‘ ۔ کل جماعتی وفد میں شامل بہت سے مسلمان اراکین نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حالات پر قابو پانے کے لئے ‘تمام فریقین سے بات چیت کرے حالانکہ حریت وفد کے رہنمائوں نے سری نگرمیں ان کے ساتھ ملنے سے انکار کر دیا تھا۔معاصر اخبار نے دعویٰ کیا ہے” اس بات میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ حکومت جہادیوں سے نمٹنے کے لئے‘ طاقت کا استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گی‘‘۔جہادیوں کے خوف سے کانپتی مودی حکومت کو ابھی تک تسلی نہیں ہو رہی۔ ان کی پیشرو حکومتوں نے کئی عشروں سے مقبوضہ کشمیر سے مسلح افواج کی تعداد میں مسلسل اضافہ شروع کر رکھا ہے۔ مودی کی حکومت قائم ہونے تک وہاں سات لاکھ سے زیادہ بھارتی افواج‘ جدید اسلحہ و ساز و سامان سے لیس‘ نہتے مجاہدین کو ختم کرنے میں لگی ہوئی ہے لیکن بھارت کی قابض افواج ہے کہ ان کا خوف کم ہونے میں نہیں آرہا۔ان کے کمانڈر مسلسل مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ انہیں مزید طاقت مہیا کی جائے۔ اگر یہی رفتا ر رہی تو مجاہدین کی جدو جہد تیز ہوتی جائے گی اور سوا ارب کی آبادی والے بھارت میں فوج کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔ کہیں مودی صاحب کو یہی خوف تو نہیں کہ اگر بھارت کو اسی طرح مجاہدین کا مقابلہ کرنے کے لئے‘ مسلسل مسلح افواج بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھنا پڑا تو کچھ کا کچھ ہو سکتا ہے۔
اس کچھ کا کچھ میں‘ بہت کچھ ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج میں مسلسل اضافے سے ایک نہ ایک دن تنگ آکر‘ آزادکشمیر کے مسلمان بھی‘ غضب ناک ہو کر اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لئے پہنچ جائیں گے اور ان کا ساتھ دینے کے لئے پاکستانی عوام‘ لائن آف کنٹرول کے پار جانے لگیں گے۔ ظاہر ہے کہ بھارتی فوج کے ظلم اور تشدد کو دیکھ کر‘ بھارتی مسلمان میدان میں اتریں گے۔ دوسری طرف سے بنگلہ دیش کے مسلمانوں کا جذبہ ایمانی بیدار ہو گا۔ وسطی ایشیا سے کشمیر کے میدان جنگ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگے گی اور پھر شرق اوسط کے کلمہ گو‘ میدان جنگ میں اتر آئیں گے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے‘ اگر مسلمانوں کی فرقہ بندی اور ان کے مذہب میں باہمی نفرتیں پھیلانے والے عناصر ختم ہوجائیں۔لیکن یہی تو مصیبت ہے کہ یہ عناصر صدیوں سے مسلمانوں کو متحد اور منظم نہیں ہونے دیتے۔ اسی کافائدہ ہمارے دشمن اٹھا رہے ہیں اور نجانے کب تک اٹھاتے رہیں گے؟ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ ہمارے وزیراعظم‘ اپنے خاندان کی زکوٰۃ خیرات کس کو دیتے ہیں ؟