منتخب کردہ کالم

بھیجے کے دوغیر سائنسی تجزیئے…امر جلیل

بھیجے کے دوغیر سائنسی تجزیئے

بھیجے کے دوغیر سائنسی تجزیئے…امر جلیل

اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بجائے آج ہم براہ راست بھیجے کی باتیں کرتے ہیں۔ بھیجا دماغ Brain یعنی ہمارا اپنا کنٹرول سینٹر۔ ہمارا اپنا تھنک ٹینک ۔ ہمارا اپنا پینٹاگون۔ ہمارا مرکز۔ مرکز ٹھیک ہوگا تو سب کچھ ٹھیک ہوگا ۔ ورنہ کچھ بھی آپ کے اختیار میں نہیں ہوگا ۔کچھ بھی آپ کے قابو میں نہیں ہوگا ۔ آپ دوستی کا ہاتھ کسی کی طرف بڑھائیں گے ، ہاتھ کسی اور ہاتھ کے ساتھ مصافحہ کرلےگا آپ گھر سے ارادہ کرکے نکلیں گے گرومندر جانے کا ۔ مگر جا نکلیں گے رام سوامی۔ آپ راگ بھیروں میں گانا گانا چاہیں گے ۔ مگر آپ راگ درباری میں گانا گانے بیٹھ جائیں گے ۔ آپ کھا رہے ہونگے گلی سڑی ناشپاتی۔ مگر آپ محسوس کریں گے کہ آپ تازہ سیب نوش فرما رہے ہیں۔آپ کھجانا سر چاہیں گے۔ مگر آپ پائوں کھجانے لگ جائیں گے ۔ مرکز میں جب گڑ بڑ ہوتی ہے، میرا مطلب ہے بھیجے میں جب گڑ بڑ ہوتی ہے، تب زندگی میں سب کچھ گڑبڑ ہوجاتا ہے۔ مت سوچئے کہ ہمارے وجود میں تمام اعضا سے اہم ہمارا دل ہے۔ دل اگر کام کرنا چھوڑ دے تو ڈاکٹر صاحبان ہمارے مرنے کا باضابطہ اعلان نہیں کرتے۔ جب ہمارا دماغ یعنی بھیجا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے تب ہماری موت واقع ہوتی ہے۔ تب ڈاکٹر صاحبان ہمارے مرنے کا باضابطہ اعلان کرتے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں بھیجے کے بارے میں دوغیر سائنسی تجزیوں کی طرف

۔
عام طور پر کہا جاتا ہے، مانا جاتا ہے، اور سمجھا جاتا ہے کہ ایک نوائیدہ بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تب اس کے سر میں بہت ہی چھوٹا سا، منا سا بھیجا ہوتا ہے چلیے تھوڑی دیر کے لیے ہم اس رائے کودرست مان لیتے ہیں۔ بچہ ابھی دنیا میں داخل ہوا ہے۔ وہ بہت چھوٹا ہے۔ اس کے ہاتھ پائوں چھوٹے ہیں۔ اس کا سر بھی چھوٹا ہے۔ اس کے چھوٹے سے سر میں رکھا ہوا اس کا بھیجا بھی چھوٹا ہے۔ یہاں تک اس رائے سےاختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ مگر اصل میں ایسا نہیں ہے۔ آپ بچے کے چھوٹے سے سر میں رکھے ہوئے چھوٹے سے بھیجے کے سائز پر مت جائیں۔ گندم کے ایک کلو حجم سے روئی یا کپاس کا ایک کلو حجم بے انتہابڑا دکھائی دیتا ہے۔ ایٹم اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ مشکل سے دکھائی دیتا ہے۔ مگر ایٹم کی تخلیقی اور تخریبی طاقت اس قدر زیادہ ہوتی ہے جس کا اندازہ ہم عام آدمی نہیں لگا سکتے۔ مانا کہ ایک بچے کے سر میں رکھا ہوا بھیجا بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ مگر اس چھوٹے سے بھیجے کی فعالیت اور وسعت بہت بڑی ہوتی ہے۔ اس لیے غیر سائنسی تجزیے اور انکشاف کے مطابق نوازئیدہ کا بھیجا اصل میں بہت بڑا ہوتا ہے۔ ننھے سے سر میں رکھے ہوا ننھا سا بھیجا بڑا اس لیے ہوتا ہے کہ ننھے منے بھیجے میں لالچ نہیں ہوتا ۔ حسد نہیں ہوتا ۔ بغض نہیں ہوتا کسی سے نفرت نہیں ہوتی۔ کسی سے دشمنی نہیں ہوتی ۔ اس طرح ننھے منے بھیجے میں منفی کیفیتوں کی جگہ بالکل خالی پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے بچے کا بھیجا بہت بڑا ہوتا ہے مگر ہم محسوس نہیں کر سکتے۔ بچہ جیسے جیسے بڑا ہونے لگتا ہے ویسے ویسے اس کا بڑا بھیجا چھوٹا ہونے لگتا ہے۔ نفرتیں، حسد، لالچ، بغض، دشمنی اور عداوت کی منفی قوتیں اس کے بھیجے میں جگہ بنانے لگتی ہیں۔ اس نوعیت کی منفی قوتیں آتش فشاں کے لاوے کی طرح ہوتی ہیں۔ بہہ نکلتی ہیں۔ اور دماغ میں پھلنے پھولنے اور پنپنے والی مثبت قوتوں کو جلانے لگتی ہیں۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے ویسے ویسے اس کے بھیجے میں محبتوں، چاہتوں، ہمدردیوں، ایثار، قربانی ،نیکی، وابستگی اور لازوال رشتوں کی ہنستی بستی بستیاں خاکستر ہونے لگتی ہیں۔ اس کا بھیجا چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔ لڑکپن، عالم بلوغت، جوانی ، ادھیڑپن، اور بڑھاپے تک آتے آتے انسان کا بھیجا حجم میں گھٹتے گھٹتے رائی کے دانے کے برابر رہ جاتا ہے۔ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہم خرانٹ اور بڈھے کھوسٹوں کے سر میں گندااور چھوٹا بھیجا کیوں ہوتا ہے۔ اور اس کے برعکس چھوٹے بچوں کے چھوٹے سر میں بڑا بھیجا کیوں ہوتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ بات کی تہہ تک پہنچ گئے ہونگے۔ اب آپ بھیجے کے بارے میں دوسرا غیر سائنسی تجزیہ یا انکشاف سنیے۔
دوسرے غیر سائنسی تجزیے کے مطابق نوزائیدہ کا بھیجا صاف سلیٹ کی طرح ہوتا ہے جس پر کچھ لکھا ہوا نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے والدین اور گھر کے ماحول کی عبارتیں صاف سلیٹ پر آویزاں ہوتی ہیں۔ پیدائش کے بعد ملنے والے ماحول میں بچہ پنپنے لگتا ۔ اسی رنگ ڈھنگ میں ڈھلتا جاتا ہے۔ جیسے ہی بچہ پرائمری اسکول جانے لگتا ہے، گھر کے داخلی اثرات کے ساتھ ساتھ وہ گھر سے باہر خارجی اثرات سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس طرح وہ معاشرے سے متعارف ہوتا ہے۔ آگے چل کر وہ معاشرے کا حصہ بنتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کے مطابق معاشرے میں اپنے لیے جگہ بناتا ہے۔ اس تجزیہ سے عام طور پر اخذ کیا جاتا ہے کہ بچے کے چھوٹے سے سر میں چھوٹا سا بھیجا بغیر کسی شناخت کے پڑا رہتا ہے۔ اسے پہلی شناخت ملتی ہے اپنے والدین سے ۔ اس کے بعد گھرکے ماحول سے ۔ اور معاشرے میں وہ اپنی شناخت سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
ایک برعکس تجزیہ کے مطابق ایک نوزائیدہ کا بھیجا صاف سلیٹ نہیں ہوتا۔ اگر ہم اسمارٹ فون اور کمپیوٹر کی اصطلاح میں بات کریں توہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک نوزائیدہFully loadedاس دنیا میں آتا ہے۔ اگر آپ مشاہدہ کرنے بیٹھیں تو حیران رہ جائیں گے ۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ نوزائیدہ مسکراتا کیوں ہے؟ ہم لطیفہ سن کر مسکراتے ہیں۔ مزاحیہ منظر دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ ایک ننھا منا بچہ نیند میں کیوں مسکراتا ہے؟ پریوں اور فرشتوں والی بات عجیب لگتی ہے۔ نوزائیدہ جب چار پانچ ماہ کا ہوتا ہے۔ اور لوگوں کو پہچاننے لگتا ہے تب وہ کیوں کچھ لوگوں سے گھبراتا ہے۔ ان کو دیکھ کرروتا ہے؟ اور کچھ لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور بانہیں پھیلا کر ان کی گود میں چلا جاتا ہے ۔ کیوں؟بچے کے کسی کو دیکھ کر رونا گھبرانا اور کسی کو دیکھ کر خوش ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ایک بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے، وہ اپنے ساتھ بنیادی انسانی جبلتیں لےکر آتا ہے۔ پسند ناپسند جبلت کے دائرےمیں آتی ہیں۔ غم اور خوشی۔ سزا اور جزا کی کیفیتیں بچے کے منے سے بھیجے میں موجود ہوتی ہیں۔ بچہ پائوں پائوں چلنے سے پہلے کھل کر اپنی جبلتی instinctualکیفیتوں کا برملا اظہار کرنے لگتا ہے۔ ہم دنیا میں فلی لوڈیڈ آتے ہیں ذہنی طور پر لدالد ہوتے ہیں۔ مگر ملکی اور معاشرتی حالات کے ہاتھوں ذہنی طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں۔ اور رہی سہی کسر ماموں پوری کردیتے ہیں۔