منتخب کردہ کالم

بیگم کلثوم بنام مریم نواز…سہیل وڑائچ

بیگم کلثوم بنام مریم نواز

بیگم کلثوم بنام مریم نواز…سہیل وڑائچ

بستر علالت سے پارک لین، لندن
پیاری بیٹی گڑیا!!
السلام علیکم۔ آج میری طبیعت کچھ تھوڑی دیر کے لئے بہتر ہوئی تو خیال آیا کہ آپ لوگوں کو خط لکھا جائے۔ تم سے زیادہ کون واقف ہے کہ مجھے اردو ادب سے گہری دلچسپی رہی ہے اور مجھے مطالعہ کا بھی ہمیشہ سے ہی شوق رہا ہے، بس اپنے اسی شوق کو پورا کرنے کے لئے کبھی کبھار لکھتی بھی رہتی ہوں۔ کئی بار تمہیں بھی تو ایسے فقرے لکھ کر بھیجتی ہوں جو تم جلسوں میں جوش و خروش سے بولتی ہو تو حاضرین میں ولولہ سا دوڑ جاتا ہے۔ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی اصطلاح بھی میری ہی تھی جو اب زبان زد عام ہو گئی ہے۔
دیکھو گڑیا! تم میری بیٹی نہیں بیٹا ہو جس طرح بہادری سے تم اپنے والد کا مقدمہ لڑ رہی ہو اس سے میرا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے۔ تم مجھے ہمیشہ کہتی رہتی ہو کہ میرا سیاسی تجزیہ اور مستقبل کے بارے میں اندازے ہمیشہ درست ثابت ہوتے ہیں مگر آج کل تمہارا بھائی حسین نواز بڑا اسمارٹ ہو گیا ہے، داڑھی کی ایسے طریقے سے تراش خراش کروائی ہے کہ بہت ہی خوبصورت لگ رہا ہے۔ اس کی گفتگو میں دانائی آ گئی ہے اور کبھی کبھی تو اس کی گفتگو روحانی بھی ہو جاتی ہے۔

ابھی کل ہی مجھے کہہ رہا تھا کہ امی میں تو شروع ہی سے کہتا تھا کہ چودھری آف چکری ہمارا دوست نہیں دشمن ہے ایک بار بہت پہلے میں نے اسے سانپ قرار دیا تھا اب بھی وہ وہی ہے۔ میں کہتی ہوں کہ اسے ہمارے خاندان سے کوئی خاص بیر ہے اسی نے حسن اور حسین نواز کے سیاست میں آنے کی مخالفت کی، سمجھ نہیں آتی اسے ہم سے کیا مسئلہ ہے۔ اب بھی وہ چاہتا ہے کہ میاں صاحب اور تمہیں ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دیا جائے۔ وہ بالخصوص تمہاری مخالفت اس لئے کرتا ہے کہ وہ دراصل میاں نواز شریف کا مخالف ہے۔ اب یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ وہ میاں نواز شریف کا چھپا ہوا دشمن ہے جس کو اس کی انا اور حسد نے خبطی بنا رکھا ہے۔
گڑیا بیٹی!!
میں تم پر بہت خوش ہوں کہ تم آج کل ماں بن کر میاں صاحب کی خدمت کر رہی ہو۔ ان کی صحت اور دوا کا تو خیال رکھتی ہو ان کی پسند کے کھانوں کا بھی تمہی اہتمام کرتی ہو۔ مجھے یہ سن کر بھی خوشی ہوتی ہے کہ میاں صاحب اپنی والدہ شمیم کو اپنے گھر میں لے آئے ہیں اور وہ ان کے ساتھ والے کمرے میں رہ رہی ہیں، دونوں ماں بیٹا صبح کا ناشتہ اکٹھے کرتے ہیں۔ میاں صاحب خود والدہ کی خدمت کرتے اور ان سے مشورے کرتے ہیں خدا سب مائوں کو ایسے خدمت گزار بیٹے دے۔ ویسے تو حسین اور حسن بھی میری خدمت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے مگر میاں صاحب نے جس طرح والد کی خدمت کی تھی وہ بے مثال تھی۔
مجھے اندازہ ہے کہ میاں صاحب آج کل بہت دبائو میں ہیں، میں نے کبھی انہیں اتنے غصے اور پریشانی میں نہیں دیکھا جتنا مسلم لیگ ن کی صدارت شہباز شریف کے حوالے کرتے ہوئے ،وہ تھے۔ تمہیں پتہ ہے کہ شہباز شریف میرا بڑا تابع فرمان ہے لیکن اس کی سیاسی سمت کو ٹھیک رکھنے کے لئے اس پر دبائو رکھنا ضروری ہے۔ جب تک بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف زندہ تھے وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ سب نواز کے فیصلوں کی پابندی کریں۔ اب صرف آنٹی شمیم ہیں جو یہ کردار ادا کر سکتی ہیں مگر ان کا رجحان ہمیشہ سے حمزہ کی طرف بہت زیادہ ہے۔ اس حوالے سے تمہیں اپنی جگہ بنانے کے لئے دادی کا دل بھی جیتنا ہو گا۔ ہاں یاد آیا صفدر آج کل بہت جذباتی ہو رہا ہے اسے ذرا سمجھایا کرو کہ وہ سوچ سمجھ کر بولا کرے اور بولنے سے پہلے مشورہ کر لیا کرے ،یہ نہ ہو کہ کسی بڑی مشکل میں پھنس جائے۔
کل تمہارے انکل اور اسما بیٹی کے سسر اسحاق ڈار میری خیریت معلوم کرنے آئے تھے، بڑے پریشان تھے، کہہ رہے تھے کہ کوئی بھی میرے حق میں نہیں بول رہا۔ شکایت کر رہے تھے کہ میاں شہباز بھی صرف اپنے بھائی کی بات کرتے ہیں میرا نام تک نہیں لیتے۔ میاں صاحب کو کہو کہ شہباز کو سمجھائیں کہ ہمارا ڈار صاحب سے کتنا قریبی رشتہ ہے۔ ہم انہیں چھوڑ نہیں سکتے اس لئے راولپنڈی میں بات کرتے ہوئے ڈار صاحب کا بھی خیال رکھا کریں۔ ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں ان کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
ہاں یاد آیا ایک ضروری بات کرنی تھی کل تمہارے دادا میاں شریف میرے خواب میں آئے تھے خاندان کی مشکلات پر پریشان تھے، کہنے لگے مریم اور نواز بہت اچھی لڑائی لڑ رہے ہیں، دونوں بڑے دلیر ہیں مگر ساتھ ہی کہا کہ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ جس طرح 2000میں سارا خاندان جدہ چلا گیا تھا اس سے سب کی جان بچ گئی تھی، اب بھی ایسے ہی معاہدے کی ضرورت ہے۔ میں نے انہیں عرض کی کہ اب وہ حالات نہیں۔ نہ تو سعودی عرب میں شاہ عبداللہ جیسا ہمارا دوست موجود ہے اور نہ ہی پاکستان میں مشرف جیسا سربراہ ہے جو ہمیں آسانی سے نکلنے دے۔ میں نے بڑے میاں صاحب کو کہا کہ اب معاہدہ کرنے سے ہماری سیاست کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ کہنے لگے شہباز سیاست کرے فی الحال نواز کو وہاں سے نکلوائو، کچھ لوگ اس کے جانی دشمن بن گئے ہیں۔ میں نے بتایا کہ نواز شریف کا بیانیہ بہت مقبول ہو رہا ہے ضمنی انتخابات جیت رہے ہیں، بڑے بڑے جلسے ہو رہے ہیں، تمہارے دادا نے ہنس کر کہا لڑائی اور مسلسل لڑائی، یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ لڑائی کے بعد وقفہ اور پھر لڑائی ہونی چاہئے مسلسل لڑائی سے نقصان ہو سکتا ہے۔ میں نے بڑے میاں صاحب سے کہا کہ میں یہ پیغام آپ کے بیٹے اور پوتی کو پہنچا دوں گی باقی فیصلہ تو باپ بیٹی نے کرنا ہے کہ وہ وہاں کے حالات کو سب سے بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔
گڑیا!!
ایک اور بات تمہیں سمجھانی تھی کہ اتفاق خاندان کی اندرونی سیاست میں میں نے کبھی حصہ نہیں لیا اب بھی وہی پالیسی جاری رکھنی چاہئے مگر ان سے ملنا جلنا بڑھانا چاہئے، ان کی شادی بیاہوں کی تقریبات اور دکھ سکھ میں برابر شریک ہونا چاہئے یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اتفاق خاندان میں سے ہی کوئی ہمارے خلاف کھڑا نہ ہو جائے۔ میاں معراج اور میاج سراج خاندان پہلے سے ہی ناراض ہیں براہ کرم میاں نواز شریف کو کہو کہ ان خاندانوں کے درمیان کوئی مسئلہ زیر تصفیہ ہے تو اسے نمٹائیں تاکہ ان میں سے کوئی ہمارے خلاف استعمال نہ ہو۔
دل تو بہت چاہتا ہے کہ میری بیماری کے ان دنوں میں میری گڑیا بیٹی میرے پاس ہوتی، جنید اور ماہ نور سے بھی دل اداس رہتا ہے مگر مجھے یہ بھی احساس ہے کہ تم لوگ کتنے مجبور ہو اور ہر روز پیشیاں بھگتنے کے لئے عدالتوں میں حاضری دیتے ہو۔ میری ہر دم دعا ہے کہ اللہ ہمارے خاندان کی مشکلیں جلد آسان کرے۔
آج ہی شہباز میری طبیعت دریافت کرنے آیا تھا مجھے کہہ رہا تھا ’’نواز صاحب اور مریم بیٹی کا انداز بہت جارحانہ ہے اگر مجھے موقع دیں باہر چلے آئیں تو میں معاملات ٹھنڈے کر سکتا ہوں‘‘ میں نے جواباً کہا ’’شہباز، نواز نے تمہیں سب کچھ دے دیا ہے اب تمہاری ذمہ داری ہے کہ کوئی راستہ نکالو لیکن ایسا راستہ نہ نکالنا کہ سیاست اور ہماری کمائی سبھی کچھ جاتا رہے۔ میں نے یہ بھی کہہ دیا کہ میرے بیٹے سیاست میں آنا نہیں چاہتے مگر مریم نے جتنی جدوجہد کی ہے اور کر رہی ہے اسے پارٹی اور حکومت کا اہم عہدہ ملنا چاہئے۔ شہباز کہنے لگا فوری ضرورت تو اس بات کی ہے کہ قانونی اور عدالتی معاملات سے کیسے نکلا جائے۔ میں نے مسکراتے مسکراتے کہہ دیا بالکل اسی طرح جیسے تم حدیبیہ سے نکلے ہو یا جس طرح ماڈل ٹائون قتل کیس کو ڈیل کیا گیا۔ شہباز نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ بھائی صاحب اور مریم سے کہیں کہ وہ بھی تو تعاون کریں۔
تمہاری بیمار ماں۔ کلثوم نواز