منتخب کردہ کالم

تحریک انصاف کاکمزور مورچہ….رئوف طاہر

موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیلئے‘ چائے کی پیالی پر طوفان اٹھانے کا یہ اہتمام پی ٹی آئی کی ڈاکٹر زرقا نے سرور روڈ لاہور کینٹ میں اپنے گھر پر کیا تھا۔ ان کا ایس ایم ایس موصول ہوا تو پہلا خیال یہ تھا کہ ”خط‘‘ غلط پتے پر آ گیا ہے۔ پاکستان میں پولیٹیکل پولرائزیشن بہت گہری ہو چکی ہے۔( ایک دور میں یہ معاملہ بھٹو والی پیپلز پارٹی اور اس کے مخالفین میں تھا) موجودہ پولرائزیشن کا کریڈٹ خان کو جاتا ہے‘ میڈیا اور اس کے وابستگان کی ایک تعداد بھی حبس کا شکار ہو چکی ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا ؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
ہم جرنلسٹ ہونے کے ساتھ اس ملک کے باشعور ووٹر بھی ہیں۔ سول ملٹری ریلیشن شپ کے حوالے سے مبنی برآئین موقف کے ساتھ پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے ایشین ٹائیگر بنانے کے خواب اورا س جانب بساط بھر پیش رفت کے باعث نواز شریف اپنے پہلے دورِ وزارت عظمیٰ سے ہماری اولین پسند چلے آ رہے ہیں۔ ہم ”رپورٹنگ‘‘ کرتے تھے تو اپنی سیاسی پسند ناپسند سے بالاتر ہو کر مکمل غیر جانبداری کا خیال رکھتے لیکن ”تجزیہ‘‘ تو آپ کا اپنا ہوتا ہے۔ اس میں آپ ”غیر جانبدار‘‘ کیسے ہو سکتے ہیں؟ سیاسی پولرائزیشن شدید تر ہو تو ”غیر جانبداری‘‘ مشکل تر ہو جاتی ہے۔ مہربان دوست ہمیں برسوں سے میاں صاحب کے کھاتے میں ڈالے ہوئے ہیں اور سچ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ہم نے بھی کسی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جماعت اسلامی میں سید مودودیؒ کے جانشین جناب میاں طفیل محمد یاد آئے۔
کہنے والے انہیں جنرل ضیاء الحق کا ماموں کہتے۔ ایک انٹرویو میں ہم نے میاں صاحب سے ماموں بھانجے کے اس رشتے کے متعلق پوچھا‘ تو کہنے لگے‘ ضیاء الحق بھی جالندھر کے تھے‘ پارٹیشن سے پہلے ہمارا تعلق بھی جالندھر سے تھا‘ وہ بھی ارائیں تھے‘ میں بھی ارائیں برادری سے ہوں۔ شاید اس لیے مخالفین نے ماموں بھانجے والی کہانی گھڑ لی۔ ”لیکن آپ نے اس کی تردید کیوں نہ کی؟‘‘ ”میں نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی اور یہ سوچ کر چپ ہو رہا کہ ماموں تو ماموں ہی سہی‘‘۔
ہم اکتوبر 1998ء میں جدہ سدھار گئے تھے۔ یہ میاں صاحب کی دوسری وزارت عظمیٰ کا دور تھا اور ان سے ہمارا تعلق وہی تھا جو ایک بیٹ رپورٹر کا اپنی ”بیٹ‘‘ سے ہوتا ہے۔ سوا دو سال بعد وہ بھی (جلاوطن ہو کر) جدہ آ گئے۔ سرور پیلس آنا جانا ہوا تو یہ تعلق ”ذاتی‘‘ بھی ہو گیا۔ نومبر 2007 میں میاں صاحب وطن لوٹ آئے اور ہماری واپسی ان کے سوا دو سال بعد ہوئی۔ لیکن میاں صاحب کو اس ذاتی تعلق کا احساس ہمیشہ رہا۔
ستمبر2013ء میں میری اہلیہ کے عارضہ جگر کا اچانک انکشاف ہوا۔ تب یہ تیسرے (آخری) درجے میں داخل ہو چکا تھا۔ پرائم منسٹر ہائوس سے ہر تیسرے چوتھے روز خیریت دریافت کرنے کیلئے کال آئی۔ وہ بیرون ملک جگر کی پیوندکاری کیلئے ہر ممکن ”تعاون‘‘ کی پیشکش کرتے لیکن دیر ہو چکی تھی۔ اسے آخری رخصتی کی جلدی تھی اور صرف ڈیڑھ ماہ بعد وہ گھڑی آ گئی۔ تدفین کے اگلے روز میاں صاحب‘ بیگم صاحبہ کے ساتھ تشریف لائے اور دیر تک بچوں کی دلجوئی کرتے رہے۔ ان کی ذاتی شفقتوں کے باعث اس بات کی کیا اہمیت کہ چار سال کی وزارت عظمیٰ کے دوران۔ان سے ہماری چار ملاقاتیں ہی ہو پائیں۔ ظاہر ہے‘ اقتدار کی ضروریات‘ مصروفیات اور ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ حالیہ جی ٹی روڈ مارچ سے ایک روز قبل‘ پنجاب ہائوس اسلام آباد کی ملاقات میں الوداعی مصافحے پر ان کا کہنا تھا‘ لاہور میں ملاقاتیں ہوں گی۔ ہم یہ بات کہتے کہتے رہ گئے کہ لاہور میں ملاقاتوں کیلئے ہم نے آپ کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کی خواہش تو کبھی نہیں کی تھی۔
ڈاکٹر زرقا کی طرف سے چائے کی پیالی پر تبادلۂ خیال کی دعوت سے شروع ہونے والی بات کسی اور طرف نکل گئی۔کنفرمیشن کے لئے ان کی کال پر ہمیں یقین ہوا کہ ”خط‘‘ صحیح پتے پر پہنچا تھا‘ مکتوبِ الیہ ہمیں تھے اور اس کے پس پردہ کہانی ہمیں یار طرح دار فاروق عالم انصاری سے معلوم ہوئی۔ یہ بابر اعوان تھے جو پچھلے دنوں تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں پرنٹ میڈیا کا ذکر لے بیٹھے اور تبدیلی کے قافلہ سالار کو بتایا کہ ہمارا پرنٹ میڈیا کا مورچہ بہت کمزور ہے اور یہ کہ تحریک انصاف کی قیادت کا اردو کالم نگاروں سے رابطہ بہت کم ہے۔ ڈاکٹر زرقا پی ٹی آئی پنجاب کی ایڈیشنل سیکرٹری انفارمیشن ہیں اور ان کے ہاں یہ دعوت لاہور میں اِسی مورچے کو مضبوط کرنے کی سعیٔ اول تھی۔ کچھ ناگزیر مصروفیات کے باعث ہم اس میں شرکت سے محروم رہے۔ لیکن فاروق اعظم انصاری کی زبانی جو کہانی معلوم ہوئی‘ اس کے مطابق بنی گالہ سے جناب نعیم الحق بھی اس دعوت میں تشریف لائے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ ملک بھر میں‘ عمران خان کے بعد وہ پی ٹی آئی کے اکیلے بانی رکن رہ گئے ہیں‘ دو تین اور بھی ہیں لیکن وہ بیرون ملک جا آباد ہوئے۔ تو کیا جناب حامد خان بھی جو تحریک انصاف کے برے دنوں میں (اور یہ برے دن برسوں پر محیط تھے) سینئر نائب صدر ہے‘ پارٹی کے بنیادی رکن نہیں؟ اکبر ایس بابر بھی پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں تھے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والا یہ ضدی پشتون ایک عرصے تک پارٹی کا سیکرٹری اطلاعات رہا۔
تب خان زمان پارک لاہور میں رہتا تھا اور اکبر اسلام آباد میں۔ خان اسلام آباد آتا تو اکبر کی پرانے ماڈل کی کار اس کی آمدروفت کا ذریعہ ہوتی۔ اب اڑھائی تین سال سے اکبر اس کی جان کو اٹکا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس میں وہ پٹیشنرہے۔ خان پیش ہونے اور اکبر حوصلہ ہارنے کو تیار نہیں۔
پی ٹی آئی میں تو نعیم الحق کی صورت میں ایک بانی رکن موجود ہے‘ لیکن خان کے ”سیاسی کزن‘‘ کو تو شاید یہ نعمت بھی میسر نہیں۔ شریف فیملی سے علیحدگی کے بعد علامہ صاحب نے (جی ہاں! تب وہ ”علامہ‘‘ ہی تھے۔ پروفیسر‘ ڈاکٹر اور شیخ الاسلام تو وہ بعد میں بنے) ”مصطفوی انقلاب‘‘ کیلئے پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھی‘ تو ان کے دست حق پرست پر بیعت کرنے والوں اوول کے ہیرو اور پاکستانی کرکٹ کے لافانی کردار فضل محمود (مرحوم) اور ؎
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے
جیسی حمد اور عظیم الشان نعتوں کے خالق مظفر وارثی تھے۔ علامہ صاحب کے ان ہمسفروں میں سے شاید کوئی بھی نہیں جو چند گام سے زیادہ ان کے ساتھ چل سکا ہو۔ مظفر وارثی نے تو علامہ صاحب کی رفاقت کے دنوں کی روداد قلمبند بھی کر دی تھی۔ معاملات‘ مشاہدات اور واقعات کی تلخ کہانی