منتخب کردہ کالم

تریاق…ایم ابراہیم خان

تریاق...ایم ابراہیم خان

تریاق…ایم ابراہیم خان

برطانیہ کے معروف روزنامے گارجین کے کالم نگار اولیور برک مین نے اپنی مشہور کتاب ”اینٹی ڈاٹ‘‘ (تریاق) میں مثبت سوچ کا تجزیہ کیا ہے۔ اولیور برک مین ماہر نفسیات ہیں۔ ان کا مشورہ یہ ہے کہ آج کے انسان کو بہتر زندگی بسر کرنے اور مثبت سوچ اپنانے کے لیے قدیم یونان کے یاسیت پسند فلاسفہ اور گوتم بدھ کی سوچ اپنانی چاہیے۔ یعنی یہ کہ دکھ جھیلنے ہی سے سکھ ملتا ہے۔ گوتم بدھ نے اس نکتے پر زور دیا تھا کہ انسان منفی سوچ اور دکھ کو اپنانے کے بعد ہی اسے شکست دینے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔
اولیور برک مین کا کہنا ہے کہ اس دنیا میں منفی اور مثبت دونوں ہی طرح کے معاملات پائے جاتے ہیں۔ قدم قدم پر ہمیں دونوں سے آشنا ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ان میں سے کسی کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے لیے ہر وقت، ہر معاملے میں مثبت رہنا مشکل ہے اور ہر معاملے میں مثبت رہنا دانش کا تقاضا بھی نہیں۔ حالات ہم پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ہم حالات کے مطابق نہ چلیں تو ڈھنگ سے جینا مشکل ہو جائے۔ اولیور برک مین اس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کہ کسی بھی ہدف کے حصول کے مقابلے میں آپ کی روحانی تسکین اور قلبی طمانیت بہت اہم ہے۔ اگر ہم بھرپور زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو اس دنیا کو اس کی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنا پڑے گا۔ گو تم بدھ اور یونان کے یاسیت پسند فلاسفہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ برے لوگوں کو دھتکارنے کے بجائے انہیں قبول کرکے تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ صحیح معنوں میں ہمارے ہوسکیں۔
بیشتر امریکی مصنفین مثبت سوچ پر بہت زور دیتے ہیں۔ جدید علوم و فنون میں پیش رفت نے ایجادات اور اختراعات کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرآسائش اور آرام دہ بنانے والی اشیاء ہماری زندگی کا حصہ ہیں مگر ہمیں سکھ صرف اشیاء سے نہیں مل سکتا۔ یاسیت پسند فلاسفہ نے یہ لکھا ہے کہ سکھ کے پیچھے بھاگنے سے گریز ہی کے نتیجے میں ہمیں سکھ مل پاتا ہے۔ آج کے بیشتر دانشور ہر حال میں مثبت رہنے پر زور دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ منفی سوچ، منفی معاملات اور منفی لوگوں کی طرف سے آنکھ بند کرلیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے معاملات مزید بگڑتے ہیں۔کسی بھی خراب صورت حال کو اگر ٹالنا ہے تو ٹالنے کی راہ پر چلنے کے بجائے حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں مگر کرنا یہی ہے۔ مثبت سوچ رکھنا بہت اچھی بات ہے مگر منفی معاملات سے نمٹنے کا یہ طریقہ درست نہیں کہ انہیں نظر انداز کردیا جائے۔ یونان کے یاسیت پسند فلاسفہ یہی کہتے تھے کہ دکھ اور سکھ دونوں حالتوں میں ذہنی توازن درست رہنا چاہیے۔ منفی خیالات ہی نہیں، کبھی کبھی مثبت خیالات کی بہتات بھی ذہنی توازن بگاڑ دیتی ہے۔ انسان اگر منفی معاملات سے صرف نظر کرے تو محض خرابیوں کو دعوت دیتا ہے۔
یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی بھی واقعہ حتمی نوعیت کا نہیں۔ کسی بھی شخص سے ہمارا تعلق حتمی نوعیت کا نہیں ہوا کرتا۔ جب ہم کسی تعلق کو ہمیشہ کا بندھن سمجھ کر قبول کرتے ہیں تب آخر میں دکھ ملتا ہے۔ دنیا ہر آن بدلتی ہے۔ اس بدلتی ہوئی دنیا کو بدلتے رہنے کی خصوصیت کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے۔
فی زمانہ مثبت سوچ رکھنے کے ساتھ ساتھ مراقبہ بھی بہت مفید ہے۔ جب انسان کسی گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر اپنے آپ میں مگن ہوتا ہے تب وہ منفی خیالات سے دور ہو جاتا ہے اور اس کی ذہنی و روحانی طاقت بڑھتی ہے۔ مراقبہ کرنے سے ذہنی قوت میں اضافے کے ساتھ ساتھ خیالات میں یک سُوئی بھی پیدا ہوتی ہے۔ منفی خیالات سے محفوظ رہنے کے لیے اپنے وجود سے نزدیک ہونا، اپنی قربت میں آنا لازم ہے۔ ایسا کیے بغیر معاملات درست کرنا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ مراقبے سے ذہن کو غیر معمولی سکون ملتا ہے۔
جو دانشور مثبت سوچ کو بہت اہم قرار دیتے ہیں ان کی باتوں کا لوگ غلط مطلب لیتے ہیں۔ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے مگر یہ صلاحیت اسی وقت بروئے کار لائی جاسکتی ہے جب ہدف حقیقت پسندانہ ہو۔ سوچے سمجھے بغیر کوئی بہت بڑا ہدف مقرر کرنے سے عام طور پرناکامی ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم پوری توجہ سے کام کرتے ہیں تب پورا ماحول ہم سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے مگر ایسا اسی وقت ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے جب ہدف حقیقت پسندی کا عکاس ہو۔
تجاذب ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ جب ہم کسی معاملے میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں تب ایسا بہت کچھ واقع ہو رہا ہوتا ہے جو ہمارے کام میں آسانیوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کی طب میں بہت دلچسپی ہو اور اس حوالے سے پڑھا بھی بہت ہو تو لاشعوری طور پروہ ایسے لوگوں سے ملنے لگے گا جو طب میں اسی کی طرح غیر معمولی دلچسپی لیتے ہوں۔ لوگ تجاذب کے قانون یا اصول کا غلط مطلب لیتے ہیں۔ تجاذب کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ کے تمام کام خود بخود اور راتوں رات ہوتے چلے جائیں گے یا مقصد یا ہدف حاصل کرلینے سے سکھ مل ہی جائے گا۔ اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی ہدف کے حصول کی بھرپور کوشش کے دوران دوسرے بہت سے اہم امور کو یکسر نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں کامیابی مل جانے پر بھی ہم سکھی نہیں ہو پائیں گے۔ کوئی بھی کامیابی سکھ اسی وقت دیتی ہے جب شخصیت کے تمام پہلوؤں کو پروان چڑھنے کا موقع ملا ہو۔
اولیور برک مین نے مثبت سوچ کو پروان چڑھانے سے زیادہ زور منفی باتوں سے بچنے پر دیا ہے۔ کسی بھی معاملے میں کوشش کرتے وقت ہمیں ہر طرح کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ اس معاملے میں سائنس دان ہمارے لیے مشعل راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ سائنس دانوں کے نصف سے زائد تجربات ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں مگر وہ ہمت نہیں ہارتے اور ہر ناکامی کے بطن سے کوئی نہ کوئی مفید بات کشیدکر ہی لیتے ہیں۔
اولیور برک مین نے عدم تحفظ پر بھی بحث کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی حالت یاکیفیت مستقل نہیں ہوتی۔ ہمیں ہر طرح کی صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ عدم تحفظ کا احساس کسی نہ کسی حد تک ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ جو لوگ انتہائی مثبت سوچ رکھتے ہیں اُن کے ذہن میں بھی مختلف حوالوں سے تحفظات پائے جاتے ہیں مگر ایسی حالت میں ہتھیار ڈال دینے سے بات نہیں بنتی۔
حقیقی سکون اور سکھ کا مدارکسی کیفیت یا صورتِ حال سے کہیں زیادہ آپ کے خیالات پر ہے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ناکامی کو سمجھتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی سے منفی خیالات اور ناکامی کو مکمل طور پر نکال نہیں سکتے۔ اس لیے لازم ہے کہ انہیں کنٹرول کرنا، قابو میں رکھنا سیکھا جائے۔