منتخب کردہ کالم

تعلیمِ بالغاں کا کلاس روم …وقار خاں

ناں سائیں ناں...ظفر محمود

تعلیمِ بالغاں کا کلاس روم …وقار خاں

شیرو مستانہ: ماسٹر جی !کیوں نہ آج نئے سال کا جشن منایا جائے ؟
ماسٹر : ارے رہنے دے جشن کے شوقین (سر جھکا کر اپنے بوسیدہ کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے بڑ بڑاتا ہے) کیا منائوں میں سالِ نو ابرکؔ…جب وہی سال پھر دوبارا ہے ۔
بگا پٹھان: تم بہت گہری بات کرتا ہے ماسٹر! ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔
ماسٹرصاحب: ابے تیری سمجھ میں تو ابھی الف انار ، ب بکری کا سبق نہیں آیا۔ ہمیشہ الف سے اسٹیبلشمنٹ ، ب سے بھونپواور ط سے طالبان پڑھ دیتے ہو کمبخت ( قہقہہ)
بگا پٹھانـ: (چونک کر) دیکو ماسٹر صیب ! فیقا فون پہ باتیں کرتا ہے ۔
ماسٹر صاحب: (غصے سے ) ہش ہش ، شرم کرفیقے ، کلاس شروع ہو چکی ہے اور تم فون پر باتیں کرر ہے ہو؟
فیقا ٹیڈی: (گھبرا کر موبائل کان سے ہٹاتے ہوئے ) وہ …کیا ہے ماسٹر جی … مس کال تھی ۔
ماسٹر صاحب: ابے مجھے اُلو بناتا ہے گھامڑ، مس کال پہ باتیں کی جاتی ہیں کیا؟
بگا پٹھان: دیکو ماسٹر ! وہ خود بولتا ہے کہ کسی مِس کی کال تھی ۔ یہ کلاس میں لڑکیوں سے باتیں کرتا ہے ۔ اس کو نکالو ماسٹر صیب(قہقہہ)
ماسٹر صاحب: ارے تو چپ کر بگے ۔ اس کی شکایتیں لگانے کے علاوہ بھی تجھے کوئی کام ہے کیا؟
نورا دیوانہ: ماسٹر صاحب ! اصل میں یہ بگا فیقے کو کلاس مانیٹر کی پوسٹ سے ہٹا کر خود اس پر قبضہ جمانا چاہتا ہے ۔
فیقا ٹیڈی: نورے کی بات صحیح ہے ماسٹر جی ! آپ بگے کو سمجھائیں کہ میرا پیچھا چھوڑ دے ۔ آخر میں اس کلاس کا مانیٹر ہوں ۔مجھے کلاس نے اکثریت رائے سے مانیٹر منتخب کیا ہے ۔
ماسٹر صاحب: ارے رہنے دے ۔ مانیٹر تو دیکھو ذرا … چمپو پلٹن ، تاجا حوالدار…(قہقہہ)
بگا پٹھان: ہم کو مانیٹر لگا دو ماسٹر صیب ! ہم سب کو سیدھا کر لے گا۔
ماسٹر صاحب: بس کر دے بگے ۔ پہلے خود سیدھا پاجامہ پہننا تو سیکھ لے، پھر دوسروں کو سیدھا کرنا ( سب بگے کے الٹے پاجامے کو دیکھ کر قہقہہ لگاتے ہیں)
ماسٹر صاحب: (میز پر ڈنڈا مارتے ہوئے )خاموش ہو جائو سب اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا چھوڑ کر علم حاصل کرنے پر توجہ دو۔
جمالا شرمسار: آپ کا مطلب ہے ماسٹر جی کہ ہم اپنا سب سے ضروری کام چھوڑ کر ایک ادنیٰ کام شروع کر دیں(قہقہہ)
ماسٹر صاحب: بیٹا دنیا یہ ادنیٰ کام کر کر کے ہی مریخ کی دھول اڑا رہی ہے اور تم ابھی تک اپنا اعلیٰ اور ضروری کام کرتے زمین پر رینگ رہے ہو (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: اس بات پر کوئی ڈھیٹ کلاس ہی دانت نکال سکتی ہے بھئی۔ خیر چھوڑو ، مجھے تو اپنا کام کرنا ہے ۔ ہاں تو بالغو ! آج پھر ہم حال کے زمانے کے بارے میں پڑھیں گے ۔
شیرو مستانہ: آج پھر حال کا زمانہ؟ (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: ارے تم حال سے نکلو گے تو آگے پڑھیں گے ناں …
خیرو بھاگوان: ہم تو ابھی ماضی سے نہیں نکلے ماسٹر صاحب ! یہ حال کہاں سے آ گیا بیچ میں (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: لعنت ہے تم پر ۔ اچھا خانو ، تم بتائو کہ حال کیا ہے ؟
خانو خاکسار: حال برا ہے ماسٹر صاحب (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: ابے جاہل ، میں نے تمہارا حال نہیں پوچھا ۔ میں حال کے زمانے کی بات کر رہا ہوں ۔
گاما کوچوان: حال کا زمانہ خراب ہے ماسٹر جی (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: شیدے تم حال کے زمانے کا کوئی جملہ بنائو ۔
شیدا جہاز: ضیاء الحق کی چوسنی سے سیاست کرنے والا نہیں بچ سکا(قہقہہ)
شیرو مستانہ: مگر پرویز مشرف کی چوسنی سے سیاست کرنے والا بچ گیا ہے (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: جیسے برتن ، ویسی آوازیں ۔ ابھی تک ڈھنگ کا جملہ بنانا نہیں آیا کم بختوں کو ۔
فیقا ٹیڈی: میرا منہ نہ کھلوائیں ماسٹر صاحب ! میں نے ڈھنگ کا ایک جملہ بھی بول دیا ، تو آپ مجھے کلاس سے نکال دیں گے ۔
ماسٹر صاحب: ابے تیرے نام نہاد ڈھنگ کے جملوں سے میری نوکری خطرے میں پڑ جاتی ہے نجس ، خاموش رہ… اچھا بالغو‘ اب میں ایک جملہ لکھتا ہوں، تم اس میں خالی جگہ پر کرو اور بتائو کہ یہ کون سا زمانہ ہے (اٹھ کر بلیک بورڈ پر بولتے ہوئے جملہ لکھتا ہے ) ہم نے …… توڑ دیا ہے ۔ تم بتائو خیرو ہم نے کیا توڑ دیا ہے ۔
خیرو بھاگوان: عقل سے رشتہ (قہقہہ)
ماسٹر صاحب : دھت تیرے کی۔ ارے کم بخت ، کشکول ( خالی جگہ پر کشکول لکھتے ہوئے ) ہم نے کشکول توڑ دیا ہے (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: خاموش ( دوسرا جملہ بولتے ہوئے لکھتا ہے) دنیا ہمیں …… قوم کی حیثیت سے جانتی ہے ۔ نورے تم خالی جگہ پر کرو۔
نورا دیوانہ: کشکول بردار (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: ارے بے وقوف ، غیرت مند قوم، غیرت مند ۔ میں بتا چکا ہوں کہ کشکول ہم نے توڑ دیا ہے (خالی جگہ پر غیرت مند لکھتے ہوئے ) دنیا ہمیں غیرت مند قوم کی حیثیت سے جانتی ہے ۔
شیدا جہاز: ماسٹر جی ! میں نے آج ٹی وی پر سنا ہے کہ 2017ء میں ہماری حکومت نے تین ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم نے کشکول توڑ دیا (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: تم لوگ بہت ہی بے وقوف ہو ۔
جمالا شرمسار: بے وقوف تو امریکہ ہے ماسٹر جی (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: شاوش اے بھئی ، تمہیں کس نے بتایا؟
جمالا شرمسار: خودٹرمپ نے کہا ہے جی کہ امریکہ احمق ہے ، جس نے پاکستان کو 33 ارب ڈالر دے کر بے وقوفی کی ۔
ماسٹر صاحب: سنو بالغو ! اصل بات یہ ہے کہ امریکہ نے ہماری زمین، سڑکیں، ریلوے اور ہوائی اڈے استعمال کیے اور اب ان کے معاوضے کو بڑھا چڑھا کر امداد قرار دے رہا ہے ۔ یاد رکھو کہ ہم غیور قوم ہیں جو کسی کی بھیک کے سہار ے نہیں جی رہے ۔
نورا دیوانہ: مگر وہ تین ہزار ارب روپے ماسٹر جی …
ماسٹر صاحب: ابے بکواس بند کر جاہل (قہقہہ)
بگا پٹھان: ماسٹر صیب! تم لطیفے سناتا ہے اور اِدھر فیقا چپکے چپکے کُچ کا تاہے ۔
ماسٹر صاحب: کیوں بے ، کھڑا ہو جا فیقے ۔ کیا کھا رہے ہو تم کلاس میں ؟
بگا پٹھان: ماسٹر صیب، یہ کلاس فنڈ سے چوری کر کے روز گول گپے کاتا ہے (قہقہہ)
فیقا ٹیڈی: (آستین سے منہ صاف کرتے ہوئے ) جھوٹ بولتا ہے ماسٹر صاحب ! میں نے کچھ نہیں کھایا۔
ماسٹر صاحب: ابے تو سرِ عام کھا رہا ہے اور اوپر سے جھوٹ بولتا ہے ۔
گاما کوچوان: سرِ عام کھانے میں کوئی حرج نہیں ماسٹر جی ، مگر یہ کم بخت اکیلے کھاتا ہے (قہقہہ)
بگا پٹھان: ماسٹر صیب ! کل اس نے کلاس فنڈ سے اپنے سائیکل کو پنکچر بی لگوایا۔ ہم نے خود دیکا ہے ۔
ماسٹر صاحب: ( فیقے کے ڈیسک کے پاس آ کر گول گپے کا شاپر برآمد کر کے اونچا کرتے ہوئے ) مجھے منی ٹریل دے فیقے ، تیرے پاس گول گپوں اور پنکچر لگوانے کے لیے رقم کہاں سے آئی؟
فیقا ٹیڈی: وہ جی ماسٹر صاحب، مجھے میرے گھر والی نے پیسے دیئے تھے ۔
بگا پٹھان: جھوٹ بولتا ہے ماسٹر صیب ۔ صرف میرے گھر والی مجھے خرچہ کے لیے پیسہ دیتا اے ۔ اس کے گھر والی تو اس کو دوسری دفعہ سالن نئیں دیتا (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: فیقے، تم نکل جائو میری کلاس سے ۔
بگا پٹھان: یہ صادق اور امین نئیں اے۔ اس کو نکالو ماسٹر صیب (قہقہہ)