منتخب کردہ کالم

تعلیمی نظریات: تفہیم ِ نو کی ضرورت….شاہد صدیقی

پی ایس ایل فائنل اور کراچی!.

تعلیمی نظریات: تفہیم ِ نو کی ضرورت….شاہد صدیقی

ماضی قریب میں یہ احساس شدت سے اجاگرہوا ہے کہ تعلیم کے تصور کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے سماجی نقطۂ نظر سے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم جو اپنے تئیں سماجی مظاہر ہی میں سے ایک ہے، کا مکمل احاطہ اسی نقطۂ نظر سے ممکن ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ تعلیمی کاوشیں اکیلے میں نہیں کی جاتیں بلکہ یہ نہ صرف نظریات سے متاثر ہیں بلکہ اکثراوقات نظریات ہی ان کی بنیاد ہوتے ہیں۔ تعلیمی عملیات (Educational Practices) کے تجزیے کے لیے تعلیم اور نظریات کے تعلق کو سمجھنا بھی ضروری ہے اور یہ بھی کہ نظریات تعلیم کے تصور اور عمل میں کیا حیثیت رکھتے ہیں؟
سماجی عملیات میں نظریے کی اہمیت کا مزید تجزیہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ لفظ نظریہ(Ideology) کو کھول کر بیان کیا جائے۔ ماضی میں اس لفظ کو منفی معنی میں سمجھا اور بیان کیا جاتا رہا لیکن اب اسے فلاسفی کا نعم البدل ایک لفظ گردانا جاتا ہے۔ نظریے کو سادہ لفظوں میں عقا ئد کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے عقائد جو انفرادی نہیں بلکہ گروہی طور پر اپنائے گئے ہوں۔ ان کا موازنہ معاشرے میں پائی جانے والی انفرادی رائے سے کیا جا سکتا ہے۔ایک تعلیمی نظریہ کسی معاشرے میںبعض اوقات دقیانوسی تصورات کے پروان چڑھنے کا موجب بھی بن سکتا ہے اور یہ تصورات من وعن بھی تسلیم کیے جاسکتے ہیں۔ سماجی ادارے ان تصورات کی حمایت کرتے ہیں اور انھیں مزید مضبوط بناتے ہیں۔ جن نظریات کو سماجی اداروں کی حمایت حاصل ہو جائے وہ مروجہ تصورات بن جاتے ہیںاورمعاشرے کے کمزور اورمحروم طبقات کے ذہنوں کومسخرکرلیتے ہیں۔
معاشرتی اداروں میں تعلیم کاسماجی عمل(Socialization) بہت اہم کردارادا کرتا ہے کیونکہ تعلیمی ادارے مخصوص نظریات کی تشکیل اورتسلسل میںبہت اہم کردارادا کرتے ہیں اور ان نظریات کی بنیاد پر یہ ادارے معاشرے کے بااثر اورممتاز افراد کے مفادات کی نگہبانی کاکام بھی انجام دیتے ہیں۔اگرہم پاکستان میں تعلیم کی تاریخ پرایک نظرڈالیں توہمیں یہ پتاچلے گا کہ کیسے طاقتور حکمرانوں نے تعلیم کے ذریعے مخصوص نظریات کواپنی حمایت کے لیے استعمال کیاہے۔ ایوب خان کے دورحکومت(1958-69)کے دوران سارے کاسارا زورمعاشی ترقی پردیاجاتارہااوریوں معاشرتی ترقی نظرانداز ہوتی رہی۔ ضیاالحق(1977-88)کے عہدمیں تعلیمی اداروں نے ”اسلامائزیشن‘‘ کی اصطلاح کا بھرپور استعمال کیا۔ اسی طرح مشرف کے دور(1999-2008)میں ایک درآمدشدہ اصطلاح”معتدل روشن خیالی‘‘ (Enlightened Moderation) پر زور دیا جاتا رہا۔ کسی بھی حکمران نے لوگوں سے ان کی ترجیحات کے متعلق پوچھنے یا جاننے کی زحمت تک گوارا نہیں کی، اس کے برعکس حکمران اپنی حکومت کی طاقت اوراختیار کے باعث دوسروں کے لیے نظریات قائم کرنے کابھی خودہی فیصلہ کرتے رہے یاباالفاظ دیگروہ ملک کے نظریات کی تشکیل کے خودمختار رہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ ہرطاقتور حکمران نے تعلیم کواستعمال کیااوراس کے ذریعے ایک مخصوص نظریے کی ترویج کی۔ اس سے ہمیں تعلیم کی اہمیت کابھی بخوبی احساس ہوتاہے اوراس کے نظریے کے ساتھ دوطرفہ تعلق کابھی علم ہوتاہے۔
نظریے کی گتھی سلجھانے کے بعدآئیں ذرا پاکستانی تناظر میںا س کے تعلیم کے ساتھ تعلق کودیکھیں۔ ہم اس بات کاتجزیہ تعلیم سے جڑُے مختلف تصورات اورعملیات کی بنیادپرہی کرسکتے ہیں اوریہ جان سکتے ہیں کہ کیسے نظریہ تعلیم سے ایک ربط رکھتاہے۔ علم کوبہت سے بڑے تعلیمی اداروں میں ایک جامد، ساکن، پہلے سے طے شدہ اورپہلے سے موجود قسم کی ایک شے یاقدرسمجھاجاتاہے اورتعلیم کایہ نظریہ ایک مخصوص طرزِتعلیم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس کا واحد مقصد پہلے سے موجود علم کی دوسری نسل تک ترسیل(Transmission) ہے۔ بدقسمتی سے یہ طریقہ تعلیم کسی جدت، تخلیق یامہارت کی حوصلہ افزائی کرنے سے قاصرہے۔ اس طریقۂ تدریس کے مطابق طلبہ محض جامد قسم کے وصول کنندگان ہیں اوراساتذہ ان کے ذہنوں کوبھرے جارہے ہیں۔ سیکھنے کایہ نظریہ محض رٹے اوریادداشت پرزوردیتاہے جسے پائلونریرے نے (Banking Concept of Knowledge)کانام دیاہے۔اس قسم کے تصور کے مطابق طالب علم کا کام پہلے سے موجود جامد قسم کے علم کورٹالگانا ہے اوربغیرسوچے سمجھے جوابی کاپی میں لکھ دینا ہوتا ہے۔ امتحان پاس کرنے کے لیے وہ رٹالگائے گا اورامتحانات میں وہی رٹی رٹائی چیزیں لکھ آئے گا۔
تعلیم کے اس نظریے میں استاد ممتاز ہے اور علم کاسرچشمہ وہی ہے جبکہ شاگرد کاکام صرف وصول کرناہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں بھی یہی مروج ہے۔ ہمارے موجودہ امتحانی نظام غیرمربوط قسم کی زبانی یاد کی گئی چیزوں پرمرکوز ہے اورایسے سوالات سرے سے امتحانی پرچے میںشامل ہی نہیں ہوتے جن کا تعلق حاصل شدہ علم کے اطلاق (Application of Knowledge)سے ہوتاہے۔ یہ چیز ہمیں اس بات کی طرف راغب کرتی ہے کہ ہم اس تعلیمی نظام کی آئیڈیالوجی کاازسرنوجائزہ لیں جس کی بنیاد پرمعاشرے کے طاقتور گروہ مزید طاقتوربن رہے ہیں۔ ہمارے مروجہ تعلیمی نظام میں جس طرح کی تعلیم دی جارہی ہے اس کے مطابق تعلیمی ادارے موجودہ طاقتوربیانیے کے معاون بنے ہوئے ہیں اوریوں امیراورغریب کے درمیان فرق بڑھتاچلارہاہے۔
حال ہی میں تعلیمی طریق ہائے کار میں تبدیلی کا عمل شروع ہوا ہے، لیکن یہ تبدیلی ایک گہرے تجزیے کی متقاضی ہے۔ہمیں فرسودہ تعلیمی نظام کوچیلنج کرناہوگا ،تا کہ ان سے جڑے ہوئے بیانیے اور عمل یعنی طریقہ تدریس اور امتحانات میں بھی تبدیلی لائی جا سکے۔ تعلیم کو نسل در نسل منتقلی (Transmission)کے برعکس سوچ کو پروان چڑھانا ہو گا جس کے لیے ہمیں علم اور تعلیم کا بنیادی تصور بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ہمارا کمرۂ جماعت ایک نئی طرز پر طلبہ اور اساتذہ کے درمیان مکالمے اور علم کی تعمیر کا تصور پیش کر پائے گا۔ اس کے لیے موجودہ امتحانی نظام کو بھی بدلنا ہو گا جو کہ صرف یادداشت کا امتحان لیتا ہے اور طالب علم اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتا ہے۔ ہمیں ایک ایسا نظام چاہیے جہاں طالب علم تخلیقی اور تنقیدی سوچ کا استعمال کرتے ہوئے مختلف صورتوں میں علم کو استعمال کر سکیں۔ کمرہ ٔجماعت، طریقۂ تعلیم اور امتحانی نظام میں تبدیلی کے لیے پہلے تعلیم کے تصور اور مقاصد پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیںٹرانسمیشن(Transmission) کے ماڈل سے ٹرانسفارمیشن(Transformation) کے ماڈل کی طرف جانا ہو گا۔ کیونکہ موجودہ ٹرانسمیشن(Transmission) ماڈل صرف نظریات اور تصورات کی نسل در نسل منتقلی کو ممکن بناتاہے۔تعلیم کو بامعنی بنانے کے لیے ہمیں اب مکمل تبدیلی کے انداز کی طرف رجوع کرنا ہوگا جہاں تعلیم کامقصد سماجی ومعاشی تفاوت کوکم کرنا اورغریبوں اورمحروموں کوطاقتور بناناہوگاتاکہ وہ بھی امراء اوراشرفیہ کی طرح بھرپور زندگی جی سکیں۔