منتخب کردہ کالم

تلوار نگلنے والا آدمی…حسنین جمال

تلوار نگلنے والا آدمی...حسنین جمال

تلوار نگلنے والا آدمی…حسنین جمال

میں اسے دروازے کے پیچھے سے چھپ کے دیکھا کرتا تھا۔ وہ مجھے بہت عجیب سا لگتا تھا۔ سر پہ بندھا ہوا بڑا سا کپڑا، لمبا قد، ڈھیلا ڈھالا بغیر کسی رنگ کا لباس، کانوں میں دو بالے، مٹی میں اٹے ہوئے دیسی چمڑے کے بھدے سے جوتے، کندھوں پہ لٹکتا کپڑے کا خوفناک سا تھیلا اور اس کی لال سرخ دونوں آنکھیں۔ میں ٹھیک سے نہیں بتا سکتا کہ وہ تھیلا مجھے زیادہ پریشان کرتا تھا یا اس کی آنکھیں میرے لیے زیادہ خوف کا سبب تھیں۔ اس تھیلے میں سے کبھی بھی کچھ بھی نکل سکتا تھا۔ کرتب دکھاتے ہوئے وہ تھیلا اس کا اسسٹنٹ بن جاتا تھا۔ ایک مرتبہ تو ایسا ہوا کہ جب بھرے چوراہے میں کرتب دکھانے کے بعد وہ لوگوں سے انعام سمیٹ کے جانے لگا اور تھیلا بھول گیا تو وہ تھیلا اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو اپنی زبان میں تھیلے سے کچھ کہا۔ شاید اس نے یہ کہا تھا کہ تمہیں یوں ہمارے راز کھولنے نہیں چاہئیں۔ ہو سکتا ہے یہ صرف میرا خیال ہو لیکن وہ تھیلے پہ ٹھیک ٹھاک غصے میں تھا۔ وہی نظریں تھیلے سے گھوم کر آئیں تو میں اس وقت سامنے کھڑا تھا۔ اس وقت اس کی آنکھیں لال کی بجائے کسی اور ہی رنگ کی نظر آئی تھیں۔ کسی دیوانے کی آنکھیں، کسی ایسے شخص کی آنکھیں جو کسی وقت بھی کوئی نقصان کر سکتا تھا۔ ٹھیک سے کہوں تو اس کے بارے میں یہ میری پہلی اور آخری سوچ تھی۔ اس کے بعد وہ باہر گلی میں بھی کرتب دکھانے آتا تو میں دروازے کے سوراخوں میں سے اسے دیکھا کرتا تھا۔
وہ بہت سے کرتب دکھاتا تھا۔ چمکیلے رنگ کی دو گیندیں اس تھیلے میں سے نکالتا اور ہوا میں اڑا دیتا۔ چمکتی ہوئی وہ دونوں گیندیں اوپر جاتی رہتیں۔ بہت اوپر، مزید اوپر، اس سے بھی اوپر، پھر وہ ہم سب کی نظروں سے غائب ہو جاتیں۔ اتنی دیر میں اس کی نئی بازی تیار ہو جاتی۔ وہ اپنی آستین میں کاغذ کا ایک ٹکڑا موڑ توڑ کے رکھ لیتا۔ اس پہ ہاتھ پھیرتا ہوا اپنے منتر پڑھتا رہتا۔ تقریباً دو منٹ کے بعد وہ اپنی آستین جھٹکتا تو اس میں سے قوس قزح کے رنگوں والا ایک کبوتر نکلتا اور آسمان کی طرف اڑتا چلا جاتا۔ اس کے بعد اور بہت سے کرتب ہوتے۔ لوگ آہستہ آہستہ اس کے گرد اکٹھے ہوتے چلے جاتے۔ جو ایک مرتبہ آ جاتا اس کے لیے کہیں اور جانا مشکل ہوا کرتا تھا۔ لوگ پیسے پھینکتے رہتے اور اس کے تماشے جاری رہتے۔ وہ بازی گر اپنے تھیلے میں اس قدر کرتب سمیٹے تھا کہ اگر مسلسل اسے اپنا کام کرنا پڑتا تو شاید ایک مہینہ بھی اس کے سارے کرتبوں کے لیے کم پڑتا۔ جب اسے لگتا کہ اس کے پاس ڈھیر سارے پیسے اکٹھے ہو گئے ہیں تو وہ اپنا تھیلا اٹھاتا اور نامعلوم وقت کے لیے غائب ہو جاتا۔ لیکن جانے سے پہلے وہ اپنا آخری کرتب ضرور کیا کرتا تھا۔ اس کا وہ کمال اتنا مشہور ہو چکا تھا کہ بچے اپنی ماؤں کو گھر جا کے بتاتے اور وہ چھتوں پہ کھڑے ہو کے اسے دیکھا کرتی تھی۔ وہ اپنے تھیلے سے ایک لمبی سی تلوار نکالتا، قریب موجود کسی دیوار پہ چڑھتا اور تلوار اپنے حلق میں ڈال کر آہستہ آہستہ اندر اتار لیتا۔ اتنی کہ صرف اس کا دستہ باہر رہ جاتا تھا۔
سارے تماشہ دیکھنے والے آس پاس کھڑے ہوتے۔ وہ تلوار حلق میں ڈالنے کے بعد نیچے دیکھے بغیر دیوار پہ چلنا شروع کر دیتا۔ مجھے اس لیے بھی اس سے خوف آتا تھا۔ جو آدمی پیسوں کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہو اس سے ڈر لگنا شاید ایک فطری بات ہو گی۔ تو وہ دیوار پہ چلتا رہتا اور جب دیوار ختم ہوتی تو بغیر مڑے اسی دیوار پہ الٹے قدموں چلتا واپس آ جاتا۔ سب کے علم میں ہوتا کہ یہ اس کا آخری کرتب ہو گا۔ لوگ پیسے پھینک کر جانے لگ جاتے۔ وہ سر جھکائے سب چیزیں تھیلے میں ڈالتا رہتا اور سامان سمیٹ کے اٹھ کھڑا ہوتا۔ بہت مرتبہ میرا دل چاہا کہ میں اس سے اس تلوار والے کرتب کا راز پوچھوں لیکن ڈر کے مارے میں بہت کم اس کے سامنے آ پاتا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوتا کہ وہ اب بہت عرصے تک واپس نہیں آئے گا۔
کچھ وقت گزر گیا۔ میں اتنا بڑا ہو گیا کہ بازار تک آ جا سکتا تھا۔ ایک دن مرمت کرنے والوں کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے مجھے اس کی ایک جھلک نظر آئی تو میں الٹے قدموں پلٹ آیا۔ اس کے ہاتھ میں وہی تلوار تھی جو وہ حلق میں ڈال کے نگل لیا کرتا تھا۔ میں اسے دیکھتا رہا۔ اس نے تلوار کے لیے کوئی خاص چکنی شے خریدی، قیمت دی اور نکل کر بستی کی طرف جانے لگا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ جب وہ اس راستے پہ مڑا جہاں کسی دوسرے آدمی کے ملنے کا امکان بہت کم تھا تو میں اس کے برابر ہو کے چلنے لگ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا تو میں نے خوف اور شرمندگی کے انداز میں ہلکا سا منہ کھولا اور ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ وہ رکا، اس نے تلوار نکالی اور خود ہی بتانا شروع کر دیا۔ اس کے لفظوں کا مطلب یہ تھا کہ یہ تلوار ایسے پرزوں کی بنی ہوئی ہے جو ذرا سا دباؤ پڑنے پر اندر کی طرف دھنستے چلے جاتے ہیں۔ لیکن کل یہ تلوار خراب ہو گئی تھی۔ اس کے پاس وہ چکنی شے موجود نہیں تھی اور تلوار اس کے بغیر ٹھیک سے کام نہیں کرتی تھی۔ اس نے تلوار میری طرف بڑھا دی۔ میں نے دوسری ہتھیلی پر اس کی نوک رکھی اور دبایا تو غیر محسوس طریقے سے پوری تلوار کسی سپرنگ کی طرح دبتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہی دستہ رہ گیا جو اس کے حلق کے باہر ہوتا تھا۔ وہ خالص دھات کی تلوار تھی لیکن ایسی کاریگری سے بنی تھی کہ غیر محسوس طریقے سے دبتی چلی جاتی تھی۔ وہ تلوار لے کے واپس چلا گیا۔
اس بار جب وہ آیا تو میں اسے دیکھنے چوک میں دوسرے لوگوں کے ساتھ موجود تھا۔ نئے اور پرانے بہت سے کرتب وہ دکھاتا رہا۔ لوگ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے پیسے نکال نکال کر اس کے پاس پھینکتے جا رہے تھے۔ وہ خاموشی سے اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ جب تلوار والے کرتب کی باری آئی تو مجھے اپنا سارا جسم سرد محسوس ہوا۔ حالانکہ یہ منظر نیا نہیں تھا اور تلوار کا راز اب میں جان چکا تھا لیکن میں شدید بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ وہ دیوار پہ چڑھا، تلوار حلق کے اندر ڈالی، دبی ہوئی آواز میں چیخا اور دونوں ہاتھوں سے گلے کو پکڑنے کی کوشش میں دیوار سے زمین پر آن گرا۔
اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ تلوار زنگ کھا جائے تو کرتب بدل لینا چاہیے۔ وہ پیسے اکٹھے کرنے کے لیے خراب تلوار حلق میں ڈال بیٹھا تھا اور ایسی زنگ کھائی ہوئی تلوار حلق میں ڈالنے کا یہ انجام شاید اس کے گمان میں نہ ہو گا۔ مجھے اب یاد آتا ہے کہ جس وقت وہ تلوار اس نے میرے ہاتھ میں تھمائی تھی تو میں اس کے اندر دبنے والے حصوں کے درمیان زنگ دیکھ سکتا تھا۔ میں نے اسے اشارہ بھی کیا تھا لیکن وہ میری بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بازی گر کو اپنی مہارت پہ یقین تھا۔ تلوار مگر بے جان اور کم عقل چیز تھی۔
ایسی کئی تلواریں داخلی اور خارجی راستوں پہ میرے آس پاس حلق میں داخل کی جاتی ہیں۔ میں ایک قصہ گو ہوں۔ اس واقعے کے بعد سے میں جب بھی زنگ دیکھتا ہوں تو فوراً کرتب کرنے والوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ انہیں ہر بار اپنی مہارت کا یقین ہوتا ہے۔ مجھے ہر مرتبہ اپنی بات نہ سنے جانے کا علم ہوتا ہے۔ ہر ایک مرتا نہیں ہے، کوئی بازی گر زخمی ہوتا ہے، کوئی آئندہ کے لیے بستی کے لوگوں میں بدنام ہو جاتا ہے، کسی کو لوگ پیسے دینے کم کر دیتے ہیں لیکن کوئی ایک بازی گر بھی اسے یاد کر کے سبق نہیں لیتا جو میرے سامنے دیوار سے گر کے مر گیا تھا۔ زنگ آلود تلواریں پھینکنے پہ کوئی تیار نہیں ہوتا۔ نئی تلواریں شاید اب بننا بند ہو گئیں۔ یا شاید نیا کرتب بھی کوئی باقی نہیں بچا۔ کل ملا کر مندا ہی مندا ہے۔