منتخب کردہ کالم

تہیۂ طوفاں کئے ہوئے…رؤف طاہر

تہیۂ طوفاں کئے ہوئے…رؤف طاہر

غالب کا وہ شعر جسے اجمل جامی جیسے رواں دواں اینکر کو بھی دُہرانے میں قدرے دِقت محسوس ہوئی، میاں صاحب نے کس روانی اور ”آسانی‘‘ سے پڑھ دیا تھا۔ بدھ کی صبح نیب کورٹ میں پیشی پر اخبار نویسوں کا پہلا سوال رانا مشہود کے گزشتہ روز کے انٹرویو کے حوالے سے تھا۔ میاں صاحب نے مختصر جواب پر اکتفا کیا، ”شہباز شریف (نون لیگ کے صدر کے طور پر) اس کا نوٹس لے چکے ہیں۔‘‘ اخبار نویس بات کو آگے بڑھانا چاہتے تھے، جس پر میاں صاحب کا کہنا تھا: میرا ذہن کسی اور کیفیت میں ہے اور آپ سیاسی سوال پوچھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے، ان کا اشارہ بیگم صاحبہ کی جدائی کے صدمے کی طرف تھا، ایک ایسا صدمہ جو زندگی بھر ساتھ رہے گا؛ البتہ وقت کے ساتھ زندگی بظاہر معمول کی طرف لوٹ آئے گی۔ مشاہد اللہ خان کے بقول، مریم شاید گیارہ، بارہ اکتوبر کو ایک جلسۂ عام سے خطاب کریں۔ تو کیا یہ جلسہ لاہور میں ہو گا، جہاں 14 اکتوبر کو قومی و صوبائی اسمبلی کی دو، دو نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں؟ قومی اسمبلی کے حلقہ 124 میں شاہد خاقان عباسی امیدوار ہیں۔ 25 جولائی کو یہ نشست حمزہ شہباز نے پی ٹی آئی کے نعمان قیصر کے مقابلے میں تقریباً 65 ہزار کی لیڈ سے جیتی تھی… اب یہاں دیوان محی الدین ”قربانی کے بکرے‘‘ ہیں کہ اندھوں کو بھی یہ مقابلہ یک طرفہ نظر آ رہا ہے… این اے 131 میں خواجہ سعد رفیق ہی دوبارہ امید وار ہیں۔ یہاں عمران خان کی لیڈ صرف 680 ووٹوں کی تھی۔ ری کائونٹنگ میں یہ لیڈ نیچے کو آ رہی تھی کہ بابر اعوان حکمِ امتناعی لے آئے۔ خواجہ کا مقابلہ اب ”فاتح افغانستان‘‘ جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحبزادے ہمایوں اختر سے ہے۔ غیر جانبدار مبصرین کے خیال میں (بھی) خواجہ کے لیے یہ مقابلہ، 25 جولائی کی نسبت آسان ہے۔
نیب کورٹ میں پیشی پر اخبار نویسوں کے (مزید) سیاسی سوالات کے ”جواب‘‘ میں میاں صاحب کی زبان پر غالب کا یہ شعر بے ساختہ آ گیا:
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کئے ہوئے
بعض دوستوں کے لیے یہ بات قدرے حیرت کا باعث تھی کہ اپنی ذہنی کیفیت کے اظہار کے لیے میاں صاحب نے غالب کے شعر کا بر وقت اور بر محل انتخاب کیا اور اسے پڑھتے ہوئے کہیں اٹکے، نہ تلفظ کی کوئی غلطی کی۔ یہ حیرت بے سبب نہیں۔ میاں صاحب کے بارے میں ان کے ”کرم فرما‘‘ جو بے پر کی اڑاتے رہے، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کتاب (اور اخبار) سے ان کی رغبت واجبی سے بھی کم ہی ہے‘ اور دلچسپ بات یہ کہ خود میاں صاحب بھی اپنے ”یملا جٹ‘‘ ہونے کے تاثر کی تردید ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ سب کچھ سمجھ رہے ہوتے ہیں اور جانتے بوجھتے بھی نادان اور انجان بنے رہتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے اپنی خود نوشت ”ہاں میں باغی ہوں‘‘ میں لکھا ”مجھے میاں صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان میں برداشت کا مادہ بہت ہے۔ مشکل ترین حالات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ وہ تیز مشاہدے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک خوبی جو بہت کم سیاستدانوں میں پائی جاتی ہے، یہ ہے کہ وہ بہت اچھے سامع ہیں۔ ایک مرتبہ گجرات سے چودھری ظہور الٰہی کی صاحبزادی کی شادی میں شرکت کے بعد ہم لاہور آ رہے تھے۔ گاڑی میاں نواز شریف چلا رہے تھے۔ میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ پچھلی سیٹ پر مجیب الرحمن شامی اور مصطفیٰ صادق (مرحوم) تھے۔ ہم تینوں آپس میں محوِ گفتگو تھے۔ دنیا جہان کے موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ میاں نواز شریف نے لاہور پہنچنے تک ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا‘ لیکن کچھ عرصے بعد انہوں نے اس گفتگو کی جزئیات تک بتا دیں‘‘۔
ہم جدہ میں تھے تو شام کو اپنے دفتر سے فراغت کے بعد سرور پیلس چلے آتے (ایک دو دن ناغہ ہو جاتا، تو میاں صاحب کی طرف سے طلبی ہو جاتی) یہاں شام کو نمازِ مغرب کے بعد ”مہمان خانے‘‘ میں محفل جمتی۔ بڑے میاں صاحب (مرحوم) بھی وہیل چیئر پر تشریف لے آتے… شہباز شریف، عباس شریف، سہیل ضیاء بٹ، کیپٹن صفدر (اور ہم) جیسے مستقل حاضرین کے علاوہ میاں صاحب کے مہمان بھی ہوتے۔ پاکستان اور دنیا کے مختلف ملکوں سے حج، عمرے (یا بزنس) پر سعودی عرب آنے والے میاں صاحب کے سیاسی و غیر سیاسی احباب کے شیڈول میں سرور پیلس آمد بھی شامل ہوتی۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں میں محترمہ بینظیر بھٹو (اور زرداری صاحب) غلام مصطفی جتوئی، میر ظفر اللہ خان جمالی اور بیگم فہمیدہ مرزا کی آمد ہمیں یاد ہے۔ نواب زادہ صاحب بھی اپنی زندگی کے آخری سیاسی مشن پر (لندن میں محترمہ سے ملاقات کے بعد) سرور پیلس تشریف لائے تھے۔ یہ مہمان شام کی نشست میں بھی موجود ہوتے‘ جو عشا کی نماز تک جاری رہتی‘ جس کے بعد پُر تکلف ڈنر کا اہتمام بھی ہوتا۔
شام کی اس نشست کا ایک آئٹم اس روز اخبارات کے اہم کالم (اور اداریوں) کے اقتباسات ہوتے، جنہیں ہمارے دوست چودھری خورشید انور (مرحوم) پڑھ کر سناتے۔ چودھری صاحب 1980ء کی دہائی سے جدہ میں مقیم تھے۔ ادب اور صحافت سے خاص رغبت رکھتے تھے۔ ان کے سسر جناب انوار فیروز (مرحوم) پنڈی/ اسلام آباد کے ممتاز صحافیوں میں شمار ہوتے تھے۔ شعر و شاعری میں بھی ممتاز تھے۔ ہماری بھابھی نورین طلعت عروبہ (خورشید صاحب کی اہلیہ) نے بھی تیس، پینتیس سال جدہ میں گزار دیئے۔ وہ غزل اور نظم بھی خوب کہتی ہیں لیکن نعت گوئی ان کا خاص وصف ہے۔ ان کی صاحبزادی مدیحہ انور واشنگٹن میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔
سرور پیلس کی مجلس ”شامِ غریباں‘‘ میں چودھری خورشید انور کسی کالم/ اداریے کا کوئی اہم نکتہ مِس کر دیتے تو میاں صاحب توجہ دلاتے، اس میں فلاں بات بھی تو ہے (میاں صاحب نے صبح ہی اخبارات کا مطالعہ کر لیا ہوتا تھا) تب سعودی عرب میں انٹرنیٹ آ چکا تھا، جس پر علی الصبح پاکستانی اخبارات ”دستیاب‘‘ ہوتے۔ اس سے پہلے یہ ذمہ داری لاہور کے فرخ شاہ نے لے رکھی تھی‘ جو اہم خبریں اور کالم وغیرہ علی الصبح فیکس کر دیتے۔ (تب) نوجوان فرخ شاہ، شہباز صاحب کے چہیتوں میں شمار ہوتے تھے۔ بعد میں چودھری پرویز الٰہی کے دور میں ڈی جی پی آر ہو گئے۔
میاں صاحب کے ذوقِ ادب میں بڑا کردار بیگم صاحبہ کا بھی ہو گا‘ جو اردو کے ادبِ عالیہ پر خاص دسترس رکھتی تھیں، لیکن خود میاں صاحب بھی بنیادی طور پر ایسے کور ذوق نہ تھے۔ آرٹ میں کلاسک سے وہ خاص دلچسپی رکھتے ہیں… کوئی ہلکی چیز ان سے داد نہیں پاتی۔ یاد آیا، ایک شب ڈنر کے بعد انہوں نے ہمیں رکنے کے لیے کہا۔ بالی ووڈ کی (بلیک اینڈ وائٹ دور کی) شہرۂ آفاق فلم ”مغلِ اعظم‘‘ کا رنگین پرنٹ میاں صاحب کے کسی دوست نے بھجوایا تھا اور وہ چاہتے تھے، ہم بھی اس موقع پر موجود ہوں۔
پنجابی لٹریچر میں میاں محمد صاحبؒ کا کلام بڑے میاں صاحب (مرحوم) کو بطور خاص بہت پسند تھا۔ عبدالرزاق جامی ان کے پسندیدہ ترین نعت خوانوں میں تھے، جن سے وہ میاں محمد صاحبؒ کا کلام بڑے شوق سے سنتے۔ درمیان میں کہیں کہیں حضرت سلطان باہوؒ کی سہ حرفیوں اور بابا بلھے شاہؒ کی کافیوں کے پیوند معانی و مفہوم کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے اور لطف دوبالا ہو جاتا۔ یہ روایت اب بھی جاری ہے۔ جاتی امرا کے ”قبرستان‘‘ میں ہر جمعہ کو نماز سے پہلے محفل میں ایک عجب سماں ہوتا ہے۔ 14 ستمبر کو یہاں ایک اور قبر کا اضافہ ہو گیا۔ گزشتہ جمعے انور رفیع بھی آئے ہوئے تھے۔ حبیب اللہ بھٹی بھی اس کا مستقل حصہ ہیں۔ عبدالرزاق جامی، میاں محمد صاحبؒ کا کلام پڑھ رہے تھے۔ سننے والوں کی دنیائے دل زیر و زبر ہو رہی تھی۔ میاں صاحب کی نظریں اس نئی قبر پر مرکوزر ہیں… کمال آدمی ہے، ضبط کی مثال، بڑے سے بڑے غم کو اندر ہی اندر پی جانے والا۔ ہم اپنی بھیگی پلکوں کے ساتھ اسے دیکھتے رہے۔ غم کے دریا کو قابو میں رکھنے کے لیے، اس نے اتنا سا کیا کہ ایک، دو بار ہونٹ کو دانتوں میں دبا لیا۔ ایک آدھ بار پلکوں کے دروازے سختی سے بند کر لئے۔
لے او یار حوالے رب دے میلے چار دِناں دے
اُس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں گے