منتخب کردہ کالم

تیسرا آپشن …جاوید چودھری

تیسرا آپشن …جاوید چودھری

میاں نواز شریف کے پاس اب تین آپشن ہیں۔

پہلا آپشن‘یہ قانونی اور سیاسی جنگ لڑیں‘ کرسی پر جمے رہیں‘ جے آئی ٹی کی رپورٹ کونامکمل اور جانبدار قرار دیں‘ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کریں‘ ملک کا ہر بڑا وکیل پینل میں شامل کریں اور معاملے کو ایک دو ماہ تک گھسیٹ لیں‘ میاں نواز شریف کی پٹیشن ایک دو ہفتے یا حد ایک مہینے میں مسترد ہو جائے اور سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو سچ مان کر کیس نیب میں بھجوا دے‘ نیب ریفرنس تیار کرے اور احتساب عدالت میں کیس شروع ہو جائے‘ میاں صاحب وہاں بھی وکیلوں کا پورا بریگیڈ کھڑا کر دیں‘ یہ نیب سے کریمنل پروسیجر کوڈ (سی پی سی) کی دفعہ 205 اور 540 اے کے تحت استثنیٰ حاصل کریں اور حکومت کرتے رہیں‘ ہماری تازہ ترین تاریخ میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اس استثنیٰ کی مثالیں موجود ہیں‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف دونوں کے خلاف نیب کے ریفرنس تھے۔

یہ دونوں وزیراعظم بھی رہے اور نیب کے مقدمے بھی بھگتتے رہے‘ یوسف رضا گیلانی کی تفتیش تک وزیراعظم ہاؤس میں ہوئی تھی‘ ملک ریاض چیئرمین نیب فصیح بخاری ‘ پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا اور نیب کی ٹیم کو وزیراعظم ہاؤس لے کر گئے تھے اور یوسف رضا گیلانی نے ناشتے کی میز پر ابلے ہوئے انڈوں سے سفیدی نکالتے ہوئے نیب کے سوالوں کے جواب دیے تھے‘ راجہ پرویز اشرف نے بھی حکومت فرماتے ہوئے نیب کی کارروائیاں بھگتی تھیں‘ یہ ایک طرف وزیراعظم بھی تھے اور دوسری طرف ان کا نام ای سی ایل پر بھی تھا‘ میاں نواز شریف بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ یہ وزیراعظم بھی رہیں‘ نیب کے کیس بھی چلتے رہیں‘ خاندان احتساب عدالتوں میں پیش ہوتا رہے اور یہ جیسے تیسے حکومت کو سینیٹ کے الیکشنوں تک کھینچ کر لے جائیں‘ سینیٹ کے الیکشن بھی ہو جائیں‘ پاکستان مسلم لیگ ن سینیٹ میں اکثریت بھی حاصل کر لے اور یہ چیئرمین شپ پر پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے ساتھ بارگیننگ بھی کریں اور حکومت بجلی کے منصوبے بھی مکمل کرلے‘ گیس بھی پوری کر لے‘ پاک چین اقتصادی راہداری بھی ایکٹو ہو جائے اور پانچ سال بھی پورے ہو جائیں۔

یہ آپشن میاں نواز شریف کو سوٹ کرتا ہے لیکن یہ انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے‘ میاں نواز شریف کی ’’ڈس کوالی فکیشن‘‘ میں اب زیادہ گنجائش نہیں بچی‘ یہ جولائی کا مہینہ بمشکل نکالیں گے‘ یہ حقیقتاً پانامہ کے ایشو پر بری طرح پھنس چکے ہیں اور انھیں پھنسانے میں غیروں سے زیادہ اپنوں نے کردار ادا کیا‘ میاں نواز شریف جس دن واقعات کی ٹیپ ’’ری وائینڈ‘‘ کریں گے‘ یہ اس دن اپنے اصل دشمنوں تک پہنچ جائیں گے‘ یہ یاد کریں شریف فیملی کو کس نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا‘ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے میاں نواز شریف سے ’’یہ ہیں وہ ذرایع اور میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کروں گا‘‘ جیسی تقریریں کروائی تھیں‘ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے انھیں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ سے استثنیٰ لینے سے روکا تھا‘ وہ کون لوگ تھے جو انھیں ’’کلین چٹ‘‘ کی یقین دہانی کراتے رہے تھے‘ وہ کون تھے جنہوں نے انھیں جے آئی ٹی کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا‘ وہ کون تھے جنہوں نے انھیں دو ایجنسیوں کے نمایندوں کو جے آئی ٹی میں برداشت کرنے کا مشورہ دیا تھا‘ وہ کون لوگ تھے جو وزیراعظم ہاؤس کی ’’فیملی سائیڈ‘‘ میں وزیراعظم سے ملاقات کرتے تھے اور انھیں یہ یقین دلاتے تھے ’’معاملہ ہمارے کنٹرول میں ہے۔

آپ فکر نہ کریں‘‘ اور وہ کون لوگ تھے جو انھیں آخری وقت تک نہال ہاشمی جیسی حماقت سے روکتے رہے‘ میاں نواز شریف جس دن یہ ٹیپ ’’ری وائینڈ‘‘ کریں گے یہ اس دن دوستوں کے بھیس میں چھپے دشمنوں تک پہنچ جائیں گے‘یہ اس دن جان لیں گے یہ سب ان کے نئے رشتے داروں کا کیا دھرا ہے‘ یہ نئے رشتے دار اربوں روپے بھی سمیٹ گئے اور شریف فیملی کو پھنسا بھی گئے‘ میاں نواز شریف جس دن اس حقیقت تک پہنچ جائیں گے یہ اس دن اس پہلے آپشن کی سنگینی سے بھی واقف ہو جائیں گے‘ یہ اس دن جان لیں گے سینیٹ کے الیکشن اور جولائی کے درمیان آٹھ ماہ ہیں‘ یہ آٹھ مہینے ان کے لیے آسان نہیں ہوں گے‘ ان آٹھ مہینوں کے درمیان ان کی عزت کی گٹھڑی روز کھلے گی‘ یہ نواز شریف سے پانامہ شریف بھی بنا دیے جائیں گے‘ یہ اثاثوں سے بھی محروم ہوجائیں گے‘ ان کے بچوں کے خلاف فیصلے بھی ہوں گے‘ خاندان کی داڑیں بھی کھل کر سامنے آ جائیں گی‘ طلال چوہدری‘ آصف کرمانی اور خواجہ سعد رفیق بھی ڈس کوالی فائی ہوں گے‘ رانا ثناء اللہ‘ عابد شیر علی اور دانیال عزیز بھی توہین عدالت میں طلب کیے جائیں گے اور میاں نواز شریف کا ہر وہ ساتھی جو شریف فیملی کی حمایت میں سامنے آئے گا وہ پرویز رشید‘ مشاہد اللہ اور طارق فاطمی بنا دیا جائے گا۔

وعدہ معاف گواہ بھی سامنے آئیں گے‘ وکٹیں بھی اڑیں گے‘ عمران خان بھی سڑکوں پر آئیں گے اور آخر میں میاں نواز شریف ڈس کوالی فائی بھی ہو جائیں گے‘ میاں نواز شریف کو اب صرف ان کی قسمت ہی بچا سکتی ہے‘ یہ قسمت کے دھنی ہیں لیکن کیا قسمت اس بار بھی ان کا ساتھ دے گی‘ یہ پانامہ سے بڑا سوالیہ نشان ہے چنانچہ قسمت نے یاوری نہ کی‘ کوئی معجزہ نہ ہوا تو میاں نواز شریف 2018ء کا الیکشن نہیں لڑ سکیں گے‘ یہ پورا زور لگا کر‘ یہ روز بدنامی کے کانٹے چن کرشاید پانچ سال پورے کر جائیں لیکن یہ طے ہے اگر کوئی معجزہ نہ ہوا‘ اگر پاک بھارت جنگ نہ چھڑی‘ اگر چین‘ امریکا نواز شریف کی مدد کے لیے آگے نہ بڑھے‘ اگر گلف میں لڑائی شروع نہ ہوئی اور اگر ملک کے دو تین اہم لوگوں کو ہارٹ اٹیک نہ ہوا تو میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکیں گے‘ ان کے کیریئر کا 2017ء میں ’’دی اینڈ‘‘ ہو جائے گا‘ یہ خواہ وزیراعظم ہاؤس کی نحوست سے بچنے کے لیے پنجاب ہاؤس ہی کیوں نہ شفٹ ہو جائیں یہ ’’ڈس کوالی فکیشن‘‘ سے نہیں بچ سکیں گے‘ یہ معاملے کو جتنا چاہیں کھینچ لیں مگر آخری فیصلہ بہرحال ان کے خلاف ہو گا۔

ہم اب دوسرے آپشن کی طرف آتے ہیں‘ میاں نواز شریف جمہوریت‘ سسٹم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں‘ اپنے زیرتکمیل منصوبے کانفرنس کے شرکاء کے سامنے رکھیں‘ سیاسی جماعتوں سے مہلت لیں‘ یہ منصوبے مکمل کریں‘ چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہ بننے کا اعلان کریں‘ اسمبلیاں توڑیں اور نئے الیکشنوں کا اعلان کر دیں‘ دسمبر میں الیکشن ہو جائیں‘ پاکستان مسلم لیگ ن اکثریت حاصل کر لے تو یہ شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال اور خواجہ آصف جیسے کسی پڑھے لکھے اور تجربہ کار سیاستدان کو وزیراعظم منتخب کرا لیں اور یہ خود رائے ونڈ میں بیٹھ کر پارٹی چلائیں‘ یہ بھی بچ جائیں گے‘ فیملی بھی بچ جائے گی‘ پارٹی بھی بچ جائے گی‘ جمہوریت بھی بچ جائے گی اور ملک بھی بچ جائے گا‘ یہ آپشن پہلے آپشن سے ہزار گنا بہتر ہے‘ آپ تین بار ملک کے وزیراعظم بن گئے‘ آپ نے زندگی کا آدھا حصہ ’’لائم لائیٹ‘‘ میں گزار لیا‘ آپ اب آبرومندانہ طریقے سے سائیڈ پر ہو جائیں‘ آپ نئے لوگوں کو راستہ دیں۔

آپ سسٹم کو چلنے دیں‘ آپ راستے میں رکاوٹ نہ بنیں‘ کیا عزت خراب کر کے جانا ضروری ہے‘ کیا ملکی تاریخ میں کوئی ایسا وزیراعظم نہیں آئے گا جو عدالتی یا فوجی حکم کے بغیر عزت کے ساتھ گھر چلا جائے یا جو جمہوریت‘ رول آف لاء‘ سسٹم اور ملک کے لیے اپنی انا کی قربانی دے دے؟ کیا ملک ہر بار ’’ٹرمائل‘‘ کا شکار ہو گا اور کیا ہر بار لڑائی ضروری ہے؟ میاں نواز شریف ان سوالوں کا جواب تلاش کریں گے تو یہ مناسب حل پر آ جائیں گے‘ ملک میں واقعی سازشیں ہو رہی ہیں لیکن سازشوں کا ہدف جمہوریت یا میاں نواز شریف نہیں ہیں‘ یہ سازشیں فوج اور ملک کے خلاف ہیں‘ سازش کے تحت پہلے نیٹو کو افغانستان بٹھایا گیا‘ پھر سی آئی اے کو جنرل مشرف کے ذریعے پاکستان میں داخل کیا گیا‘ پھر جنرل مشرف سے نواب اکبر بگٹی اور لال مسجد آپریشن جیسی غلطیاں کرائی گئیں‘ پھر بلوچستان لبریشن آرمی کو ٹریننگ اور فنڈ دیے گئے۔

پھر تحریک طالبان پاکستان بنوائی گئی‘ پھر ان دونوں کو افغانستان میں پناہ‘ رقم اور ٹریننگ کیمپ دیے گئے‘ پھر پاک آرمی کو ضرب عضب اور ردالفساد کی شکل میں پورے ملک میں پھیلا دیا گیا اور اب ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور جمہوری حکومت کو فوج کے سامنے کھڑا کیا جا رہا ہے‘ یہ لڑائی کہاں تک جائے گی اور لڑائی کا نتیجہ کیا نکلے گا؟یہ اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے‘ فوج ملک کا واحد ڈیفنس ہے‘ یہ ڈیفنس ختم ہو گیا تو ملک نہیں بچ سکے گا‘ ہم یوگو سلاویہ کی طرح چھ ملکوں میں تقسیم ہو جائیں گے یا پھرکرد بن کر سو سال تک چار ملکوں کے جوتے کھائیں گے‘ ہم کہاں جائیں گے چنانچہ عقل مندی کا تقاضا ہے آپ باعزت طریقے سے راستے سے ہٹ جائیں‘ نئے مینڈیٹ کی تازہ ہوا آنے دیں اور ملک کو چلنے دیں‘ آپ ڈٹے رہے‘ آپ لڑتے رہے تو آپ کے ساتھ ساتھ یہ پورا سسٹم بھی جائے گا اور اگر سسٹم چلا گیا تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا‘ کیا میاں نواز شریف یہ چاہتے ہیں! یہ اگر یہ نہیں چاہتے تو یہ ’’اسٹیپ ڈاؤن‘‘ ہوں‘ نئے الیکشن کرائیں اور وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے الگ ہو جائیں‘ ملک اور جمہوریت دونوں مضبوط ہو جائیں گے اور تیسرااور آخری آپشن۔

میاں نواز شریف اپنی جگہ کوئی نیا وزیراعظم لے آئیں‘ وزیراعظم پانچ سال پورے کرے اور یہ شہر شہر‘ گاؤں گاؤں جا کراپنا کیس لڑیں‘ میرا خیال ہے میاں نواز شریف تیسرے آپشن کی طرف جائیں گے‘ حکومت پانچ سال پورے کرے گی لیکن میاں نواز شریف وزیراعظم نہیں رہیں گے۔