منتخب کردہ کالم

تیمور کے شہر میں: جاوید چوہدری

اور میں بالآخر شہر سبز پہنچ گیا۔

امیر تیمور کے اس شہر سبز میں جس کے بارے میں وہ اعلان کیا کرتا تھا ’’جاؤ شہر دیکھنا ہے تو میرے شہر کو دیکھو‘‘۔ تیمور نے علماء کرام اور ہنر مندوں کو عام معافی دے رکھی تھی‘ وہ مفتوح شہریوں کی کھوپڑیوں کا مینار بناتا تھا‘ عورتیں لشکریوں میں تقسیم کر دیتا تھا‘ بچے غلام بنا لیتا تھا اور پھر شہر کو آگ لگا دیتا تھا‘ تیمور اس جلتے ہوئے شہر کی روشنی میں مقامی علماء کے ساتھ مناظرہ کرتا تھا‘ یہ مناظرہ کئی دنوں تک جاری رہتا تھا‘ وہ جب تھک جاتا تھا تو وہ ان تمام علماء اور ہنرمندوں کو شہر سبز بھجوا دیتا تھا‘ وہ ان لوگوں کو شہر سبز میں گھر بھی بنا کر دیتا تھا اور ان کا زندگی بھر کے لیے وظیفہ بھی طے کر دیتا تھا‘ وہ اپنے شہر کو دنیا کا نابغہ روزگار شہر بنانا چاہتا تھا اور اس نے یہ کر کے بھی دکھایا‘ وہ شہر‘ شہر نہیں تھا جادوگری تھا اور اس جادوگری کا معمار امیر تیمور تھا۔

امیر تیمور 9 اپریل 1336ء کو شہر سبز سے 13 کلو میٹر دور برلاس قبیلے میں پیدا ہوا‘ والد محمد تراکئی درمیانے درجے کا زمیندار تھا‘ اللہ تعالیٰ نے تیمور کو حیران کن صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا‘وہ غیر معمولی یادداشت کا مالک تھا‘ وہ بیک وقت دونوں ہاتھوں سے کام کرسکتا تھا‘ وہ آلات حرب سے کھلونوں کی طرح کھیلتا تھا اور وہ آنکھیں باندھ کر گھوڑ سواری اور تیر اندازی بھی کرسکتا تھا‘ تیمور کی سلطنت سینٹرل ایشیا‘ روس‘ ترکی‘ عراق‘ شام‘ اردن‘ ایران‘ افغانستان اور ہندوستان تک پھیلی تھی‘ وہ دنیا کے سنگ دل ترین لوگوں میں بھی شمار ہوتا تھا‘ انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانا اور شہروں کو راکھ بنا دینا اس کا محبوب مشغلہ تھا لیکن وہ ساتھ ہی ساتھ شہر سبز کے نام سے دنیا کا خوبصورت ترین شہر بھی آباد کر رہا تھا‘ یہ شہر قرشی سے سو کلو میٹر کے فاصلے پر برف پوش پہاڑیوں کے قریب واقع تھا‘ شہر میں درجنوں کاروان سراہیں‘ بازار‘ حمام اور قہوہ خانے تھے۔

وہاں کتب خانے اور مدارس بھی تھے اور چھوٹی سی ملٹری اکیڈمی بھی‘ تیمور کا دارالحکومت سمر قند تھا لیکن وہ اپنا زیادہ وقت شہر سبز میں گزارتا تھا‘ اس نے یہاں اپنے لیے سفید محل بنوا رکھا تھا‘ یہ محل 70 میٹر اونچا تھا‘ پورا شہر محل کے جھروکوں سے نظر آتا تھا‘ آخری منزل پر سوئمنگ پول تھا‘ پول کے لیے پانی پہاڑوں سے آتا تھا اور کشش ثقل کے ذریعے آخری منزل تک پہنچایاجاتا تھا‘ محل کی دیواروں‘ چھتوں اور گنبدوں میں سونے سے آیات‘ احادیث اور شعر لکھے گئے تھے‘ ستونوں میں جواہرات ٹنگے تھے‘ پردے اطلس اور کم خواب کے تھے اور دروازے اور چوکھٹیں صندل کی لکڑی کی تھیں‘ میں نے درجنوں مرتبہ امیر تیمور کی بائیو گرافی پڑھی‘ میں نے اس میں جگہ جگہ شہر سبز کا ذکر دیکھا اور اس ذکر نے اس شہر کے ساتھ میری انسیت کا رشتہ قائم کر دیا۔

میں یہ شہر دیکھنا چاہتا تھا لیکن ہر مرتبہ فاصلہ درمیان میں حائل ہو جاتا تھا لیکن میں نے اس مرتبہ مصمم ارادہ کر رکھا تھا‘ میں ٹرین کے چار گھنٹے کے سفر کے بعد دوپہر کے وقت قرشی پہنچا‘ ڈیڑھ گھنٹہ کار میں سفر کیا اور بالآخر شہر سبز پہنچ گیا۔یہ شہر بھی ازبکستان کے دیگر شہروں کی طرح وقت کے ہاتھوں برباد ہو چکا تھا لیکن ازبکستان کے مرحوم صدر اسلام کریموف کے جذبے کو داد دینا پڑے گی‘ صدر اسلام کریموف ازبکستان کے تیمور ثانی ہیں‘ انھوں نے ملک کے چپے چپے سے تاریخ کھود کر نکالی‘ اسے ماضی کی شان کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا اور دنیا کے سامنے پیش کر دیا‘ آپ تاشقند کے امام خست سے لے کر سمر قند کے مدارس‘ مزارات اور درگاہوں کو دیکھئے اور اس کے بعد بخارہ‘ خیوا‘ وادی فرغانہ اور شہر سبز کو دیکھئے‘ آپ کو ہر جگہ تاریخ اپنے اصل رنگوں میں سانس لیتی ملے گی‘ اسلام کریموف مسلمانوں کا ایک ایسا محسن تھا جس نے عالم اسلام کو اس کی تاریخ واپس لوٹا دی لہٰذا میں ان کو تیمور ثانی سمجھتا ہوں‘ یہ 25سال ازبکستان کے صدر رہے‘ 25سالوں میں والد بھی اولاد کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں لیکن لوگ اس طویل اقتدار کے باوجود اسلام کریموف سے محبت کرتے تھے‘ یہ انھیں اپنا محسن‘ اپنا قائد سمجھتے تھے اور یہ محبت ان کے انتقال کے بعد بھی قائم ہے‘ اسلام کریموف نے شہر سبز کے کھنڈرات کو بھی دوبارہ شہر کی شکل دی۔

شہر کی پہلی عمارت تیمور کے پوتے مرزا الغ بیگ کی مسجد اور مدرسہ ہے‘ مسجد کی شان و شوکت آج بھی قائم ہے‘ گنبد اونچا اور اندر سونے سے آیات لکھی ہیں‘ دیواریں شاہکار ہیں‘ منبر سے آواز گونجتی ہے اور پوری مسجد میں سنائی دیتی ہے اور باہر چھوٹی اینٹ کی موٹی دیواریں ہیں‘ یہ مسجد سال میں صرف دوبار عام نمازیوں کے لیے کھولی جاتی ہے‘ مسجد کے دروازے کے سامنے وسیع صحن ہے‘ صحن کی دوسری طرف چھوٹا سا خوبصورت مزار ہے‘ مزار کے نیچے تہہ خانے میں دو قبریں ہیں‘ ایک قبر میں تیمور کے والد محمد ترکئی اور دوسری میں تیمور کے استاد شیخ شمس الدین کلال آرام فرما رہے ہیں‘ بغل میں دوسری عمارت میں چار نامعلوم قبریں ہیں۔

ایک چھوٹی قبر عقیق سے بنی ہے اور اس کے بارے میں روایت ہے آپ قبر پر پانی گرائیں‘ یہ پانی سر کی جانب اکٹھا ہو جائے گا‘ آپ پانی میں انگلی ڈبو کر جو منت مانگیں گے وہ ضرور پوری ہو گی‘ قبر کے تعویذ پر پانی کی لکیر اور سر کے قریب چھوٹی سی گہرائی تھی‘ گہرائی میں چمچ بھر پانی موجود تھا‘ یہ شاید کسی کی خواہش کا بچا ہوا پانی تھا‘ عمارت کے ساتھ تیمور کے بڑے صاحبزادے جہانگیر کا مقبرہ تھا‘ جہانگیر تیمور کی زندگی میں فوت ہوا اور اس کی لاش یہاں لا کر دفن کی گئی‘ مقبرے کی چھت اونچی اور گنبد شاندار ہے‘ دیواریں سفید ہیں‘ قبرہال کے عین درمیان میں ہے اور دروازہ قدیم اور وزنی ہے‘ یہ مقبرہ طویل عمارت کا حصہ تھا لیکن وہ عمارت وقت نے ہوا میں بکھیردی‘ صرف مقبرہ بچا ‘ تیمور کے دوسرے صاحبزادے کا مقبرہ زیر زمین ہے‘ وہ بند تھا‘ ہم وہاں نہ جا سکے‘ جہانگیر کے مقبرے سے دو سو قدم کے فاصلے پر امیر تیمور کا مزار ہے۔

تیمور نے یہ مزار اپنی زندگی میں بنوایا تھا‘ قبر تک تیار تھی لیکن تیمور کو یہ مزار اور یہ قبر نصیب نہ ہو سکی‘ وہ چین فتح کرنے نکلا‘ قزاقستان میں فوت ہوا‘ لاش شہر سبز روانہ کی گئی لیکن برف باری کی وجہ سے راستے بند ہو گئے چنانچہ اسے مجبوری کے عالم میں سمر قند میں دفن کر دیا گیا‘تیمور کا یہ خالی مقبرہ وقت کے دامن میں چھپ گیا‘ بیسویں صدی کے وسط میں کوئی بچی کھیلتی ہوئی ادھر آئی‘ فرش کا پتھر کھسکا اور بچی زمین میں دھنس گئی‘ زمین میں تہہ خانہ تھا ‘ تہہ خانے میں پانی تھا‘ بچی اور پانی نکالا گیا تو تیمور کی قبر ظاہر ہو گئی‘ دیواروں پر آیات اور کلمہ تحریر تھا اور قبر کے تعویز پر امیر تیمور کا نام کندہ تھا یوں یہ مقبرہ ظاہر ہوگیا‘ میں سیڑھیاں اتر کر مزار کے اندر داخل ہو گیا‘ اندر سناٹا‘ خنکی اور عبرت بکھری پڑی تھی‘ انسان بھی کیا چیز ہے؟ یہ کھوپڑیوں کے میناروں کو مشغلہ بنا لیتا ہے لیکن یہ آخر میں مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتا ہے اور یہ مٹی کہاں دفن ہوتی ہے یہ فیصلہ بھی اس کے اختیار سے باہر ہوتا ہے‘ تیمور پوری زندگی اپنا مقبرہ بناتا رہا لیکن مقبرے کو اس کی لاش نصیب نہ ہو ئی۔

یہ ہے انسان اور اس کی اوقات۔ تیمور کا سفید محل شہر سبز کے آخر میں تھا‘ فصیل کا ایک حصہ ابھی تک قائم ہے‘ یہ عظیم محل امیر بخارہ نے تباہ کر دیا ‘ اس کے صرف دوحصے باقی ہیں لیکن یہ حصے بھی محل کی عظمت رفتہ کی گواہی کے لیے کافی ہیں‘ آپ ٹوپی پہن کر ان حصوں کا آخری سرا نہیں دیکھ سکتے‘ محل کی ادھوری کھڑکیوں میں کبوتروں نے ٹھکانے بنا رکھے ہیں‘ یہ یقینا وہاں بھینٹ بھی کرتے ہوں گے اور یہ بھینٹ چیخ چیخ کر یہ گواہی بھی دیتی ہوگی’’دنیا میں خواہ تیمور ہی کیوں نہ ہو وہ بالآخر چلا جاتا ہے اور اس کے محل جانوروں اور پرندوں کے ٹھکانے بن جاتے ہیں‘‘۔اسلام کریموف نے شہر کو نیا رنگ ڈھنگ دے دیا‘ کاروان سرائے کو دوبارہ تعمیر کر کے تھیٹر بنا دیا‘ پرانے بازار کو بھی قدیم اسٹائل میں تعمیر کر دیا گیا‘ مرغزاروں کے درمیان ’’میوزیکل فوارے‘‘ لگا دیے‘ لاکھوں پھول بھی لگا دیے گئے‘ حماموں کی جگہ ایک حمام اور مساجد کی جگہ ایک مسجد بھی بنا دی‘ علماء کرام اور ہنرمندوں کے گھروں کو قدیم طرز پردوبارہ تعمیرکر کے مالکان کے حوالے کر دیا گیا‘ مالکان نے مکانات کے نچلے حصے میں سوینئرشاپس بنا لی ہیں اور بالائی حصوں کو رہائش گاہ‘ شہر کا ہر حصہ قدیم اسٹائل میں بنایا گیا۔

میری وزیر اعلیٰ پنجاب اور کامران لاشاری سے درخواست ہے یہ ازبکستان کا دورہ کر یں‘ یہ بخارہ‘ سمر قند‘ خیوا اور شہر سبز دیکھیں اورپرانے لاہور اور پرانے ملتان کو بھی اس طرز پر دوبارہ تعمیر کرا دیں‘یہ شہریوں اور سیاحوں کے لیے عظیم تحفہ ہوگا‘ ہم اس تحفے کے لیے ازبکستان حکومت کی تکنیکی مدد بھی لے سکتے ہیں‘ ازبک کھلے دل کے لوگ ہیں‘ یہ ہماری ضرور مدد کریں گے‘ آخر لاہور ہو‘ ملتان ہو یا پھر دہلی ہو یہ سب ازبکستان سے بندھے ہیں‘ ہم نے بس تاریخ کے دھاگے کو ایک اور گانٹھ دینی ہے اور ہمارا تاریخ سے دوبارہ رابطہ استوار ہو جائے گا‘ ہمیں ہمارا درخشاں ماضی واپس مل جائے گا۔