منتخب کردہ کالم

جانور کبھی ’’ترقی‘‘ نہیں کرسکتے…ایم ابراہیم خان

جانور کبھی ’’ترقی‘‘ نہیں کرسکتے…ایم ابراہیم خان
روئے ارض پر عملاً حکمرانی انسان کی ہے۔ انسان ہی دیگر تمام جانداروں پر حاوی ہے، اُن پر واضح برتری کا حامل ہے۔ انسان نے ثابت بھی کیا ہے کہ وہ روئے ارض پر حکمرانی کا اہل ہے۔ دیگر مخلوقات آج بھی ہزاروں سال پرانی حالت ہی میں جی رہی ہیں۔ صرف انسان ہے جس نے اپنے ماحول کو ہزاروں سال کے عمل میں اس قدر تبدیل کیا ہے کہ ع
… پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!
انسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا مگر جانور آج بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ہزاروں سال کے عمل میں انہوں نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ جانوروں کی دنیا سے آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے شاید سُدھرنے اور ترقی کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
جنگل میں یعنی اپنی پسند اور سہولت کے ماحول میں رہتے ہوئے جانور تمام جبلّی تقاضوں کو نبھاتے ہوئے زندہ رہتے ہیں۔ جنگل کے ماحول میں سب کو اپنی بقاء کی پڑی ہوتی ہے، کوئی کسی پر رحم نہیں کھاتا۔ وہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے اُس پر کسی کو حیرت ہوتی ہے نہ تشویش۔ جنگل کی زندگی ایک خاص قانون کے تابع ہوتی ہے۔ جہاں تمام سرگرمیوں کا محور بقاء ہو وہاں دوسرے تمام معاملات بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں۔
یہی جانور شہر کے ماحول میں کچھ الگ ہی نوع کی طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انسان کتنی ترقی کرگیا ہے، کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے بلکہ اپنی سطح سے بھی کچھ اوپر نکلنے کی تیاریوں میں مصروف ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ جانوروں نے طے کر رکھا ہے کہ آگے بڑھنا ہے، نہ ترقی کرنی ہے یعنی جانور ہی کی سطح پر رہنا ہے۔ آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جن کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ جانور خود بھی کسی تبدیلی کے لیے تیار نہیں اور انسانوں کو بھی تبدیلی سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
بہت سے پالتو جانور اکیسویں صدی میں بھی ایسی حرکتیں کر رہے ہیں کہ جی چاہتا ہے اُنہیں مِرّیخ پر بسادیا جائے۔ جو کچھ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یقینی طور پر اب روئے ارض کے مسلّمات میں شامل نہیں۔ انسانوں کے درمیان رہنے والے بہت سے پالتو جانور اب تک ایسے رویّے کا اظہار کر رہے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے جدید دور کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتا۔
محبت اور مروّت سے ہر قسم کا تعلق ختم کیے ہوئے انسان کو کئی زمانے گزر چکے ہیں۔ بیسویں صدی ہی کے دوران تمام تسلیم شدہ اقدار کو خیرباد کہنے کا عمل تیز کردیا گیا تھا۔ گزری ہوئی صدی کے اواخر تک تو معاملہ یہ ٹھہرا کہ جو اصولوں اور اقدار کی بات کرے اُسے ذہنی مریضوں کے درجے میں رکھنا تقریباً لازم سا ہوگیا! اکیسویں صدی کا انسان خیر سے جانتا ہی نہیں کہ محبت کیا بلا ہے اور مروّت کس چڑیا کو کہتے ہیں۔ ہمہ گیر اور ہوش رُبا ”ترقی‘‘ اُسی وقت ممکن بنائی جاسکتی ہے جب تمام اقدار سے دامن کش ہوا جائے، انسانیت یا انسان دوستی سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔ آج کا انسان دوسرے انسان سے اُتنا پیار نہیں کرتا جتنا جانوروں سے کرتا ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ جانوروں کے دل و دماغ سے محبت کا منجن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
جنوبی کوریا سے خبر آئی ہے کہ وہاں سڑک پر گھومنے والے ایک آوارہ کتے کو معمر خاتون اپنے گھر لے گئیں۔ کتے کا نام انہوں نے فُوشی رکھا۔ وہ فُوشی کا بہت خیال رکھتی تھیں اور کھانے پینے کی بہترین اشیاء کے علاوہ اُسے رہنے کے لیے بہترین جگہ اور دیگر سہولتیں فراہم کرتی تھیں۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک سال تک چلتا رہا۔ پھر وہ خاتون برین ہیمرج کے باعث انتقال کرگئیں۔ فُوشی کو معلوم نہ ہوسکا کہ اُس کی مہربان نگہبان اب اِس دنیا میں نہیں رہیں۔ وہ کم و بیش تین سال تک دن بھر سڑکوں پر مٹر گشت کرنے کے بعد رات کو مالکن کے دروازے پر آکر سو جاتا۔ معمر خاتون کے پڑوسیوں نے بتایا کہ فُوشی تین سال تک بلا ناغہ گھر کے دروازے پر آکر سوتا رہا۔ پھر اُنہوں نے لا وارث جانوروں کی نگہداشت کے ادارے کو فون کیا تو اُس کے اہلکار آکر فُوشی کو لے گئے۔
فُوشی نے ایک مہربان انسان سے اپنی محبت اور لگاؤ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگر اُسے یہ اندازہ نہیں کہ آج کی دنیا میں ایسا لگاؤ سخت ناپسندیدہ حرکات میں سے ہے! فی زمانہ وہی مخلوق ترقی کرسکتی ہے جو محبت اور احسان کرنے والوں کو اب غار کے زمانے کا انسان تصور کیا جاتا ہے!
آج کل ہم رات کے تین بجے دفتر سے واپسی کے بعد اپنے فلیٹ کے نیچے جس ہوٹل پر بیٹھ کر کالم کے لیے ”برین اسٹارمنگ‘‘ کرتے ہیں۔ وہاں دو تین پِلّے خاصے بڑے ہوچکے ہیں۔ کبھی کبھی ہم اُنہیں کیک کھلا دیتے ہیں۔ اس ذرا سی، بلکہ ناقابل بیان سی مہربانی کے عوض وہ ہم سے اِس قدر لگاؤ اور احسان مندی کا اظہار کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تو اپنے آپ سے شرم سی آنے لگتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ اُن سے احسان مند رہنے کی باضابطہ تربیت حاصل کی جائے! مگر پھر خیال آتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ احسان مندی، محبت اور مروّت کا درس اور تربیت لینے پر ہم ”نا اہل‘‘ قرار دے کر انسانوں کی برادری ہی سے خارج کردیئے جائیں!
بیسویں صدی کے آخری عشروں کے دوران انسانوں سے محبت اور مروّت کے ختم، بلکہ لاپتا ہونے کا عمل تیزی اختیار کرچکا تھا۔ تب بھی کتے وفاداری ہی کی مثال بنے رہنے پر تُلے ہوئے تھے۔ 1974 میں ہم ڈبّا کالونی، سعید آباد میں رہا کرتے تھے۔ آج یہ علاقہ کراچی کے مضافات میں ہے، تب انتہائی مضافات میں تھا! بس ہمیں مین روڈ پر اتارتی تھی۔ زیادہ آبادی نہیں تھی اور یہ مقام کسی دیہی بس اسٹاپ کا منظر پیش کرتا تھا۔ ہمیں بس اسٹاپ سے گھر تک خاصا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔ ہمارے گھر کے دروازے پر ایک کتا پڑا رہتا تھا جس کا نام جسامت اور ساخت کے اعتبار سے ہم نے ”فوکسی‘‘ رکھا تھا۔ دونوں وقت ذرا سی روٹی اور بوٹی کے عوض فوکسی کی وفاداری اور محسن شناسی کا یہ عالم تھا کہ رات کو نو بجے ہمیں لینے بس اسٹاپ پر موجود ہوتا تھا اور یہ اہتمام اس لیے تھا کہ راستے میں کوئی کتے کا بچہ ہمیں پریشان نہ کرے! آج اکیسویں صدی کے سترہویں سال میں ہمیں فوکسی یاد آتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ان 43 برسوں میں انسان کتنا بدل گیا ہے اور کتے کم و بیش وہیں کھڑے ہیں جہاں اُس وقت تھے!
وفاداری اور محسن شناسی کچھ کتوں تک محدود نہیں۔ گھوڑے، گدھے، اونٹ، بکری، گائے اور دوسرے بہت سے جانور بھی اب تک غار کے زمانے سے باہر نہیں آئے کیونکہ مالک سے وفاداری ثابت کرنے میں یہ ذرا نہیں ہچکچاتے! دیکھا گیا ہے کہ بہت سے پالتو جانور مالک کے بیمار پڑنے پر بیمار پڑ جاتے ہیں اور اگر وہ چل بسے تو یہ بھی سوگ کے ریلے میں بہہ نکلتے ہیں۔ ع
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!
پالتو اور غیر پالتو ہر نوع کے جانوروں کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ انسانوں کو کچھ سکھانے کے بجائے وہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے آج کے انسانوں سے کچھ سیکھیں، مثلاً یہی کہ اکیسویں صدی میں کچھ پانے، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھنے کا ایک کارگر اور آزمودہ طریقہ یہ ہے کہ جو احسان کرے اُسے بھول جائیے اور جو محبت کرے اُسے نظر انداز کیجیے۔ جب تک یہ بنیادی شرط پوری نہیں کی جائے گی، جانور کسی بھی درجے میں ”ترقی‘‘ نہیں کرسکیں گے!