منتخب کردہ کالم

جب الٹے درخت کی شکایت دیوتائوں تک پہنچی!…..حسنین جمال

جب الٹے درخت کی شکایت دیوتائوں تک پہنچی!…..حسنین جمال

جب اس درخت نے اپنے باپ سے پوچھا کہ دیوتاؤں نے ہمیں دنیا میں الٹا کیوں کھڑا کر دیا‘ تو اس کے باپ نے اسے یہ قصہ سنایا: ”تیری نسل کا وہ جو دوسرا بالکل چھوٹا سا پودے نما درخت تھا‘ وہ ایسی جگہ اگ آیا تھا کہ جہاں زمین تھوڑی بیٹھی نظر آتی تھی‘ پھر جس دن آسمانوں سے بہت زیادہ پانی برسنے لگا‘ تو اس چھوٹے سے درخت کے اطراف بے تحاشا پانی جمع ہو گیا۔ اس رکے ہوئے پانی میں کھڑا وہ چھوٹا درخت آس پاس موجود خوبصورت اور دھلے ہوئے درختوں کو دیکھتا جاتا تھا۔ وہ ان کے پھولوں کو دیکھتا تھا‘ درختوں پر بیٹھے پرندوں کا شمار کرتا تھا‘ ان کے گھونسلوں پہ نظر کرتا تھا‘ دیکھتا تھا کہ ان کے خوبصورت پتے کیسے لمبی لمبی شاخوں پہ لگے ہوا میں جھولتے ہیں اور لطف اٹھاتے ہیں اپنی ہستی کا اور دھوپ میں چمکتے ہیں اور جھومتے جاتے ہیں‘ پھر جب وہ ان سب کی سیر سے فارغ ہو چکا‘ تو ایک نظر اس نے پانی پر ڈالی۔ وہ پانی جو آسمانوں سے برسا تھا اور اس کے آس پاس بہت سارا جمع ہو چکا تھا۔ اسے اچانک پانی کے اندر اپنا عکس دکھائی دیا اور وہ اوپر سے نیچے اپنی چھوٹی چھوٹی جڑوں تک کانپ گیا۔ تب اسے دکھائی دیا کہ وہ کتنا بد صورت ہے۔ اسے یوں محسوس ہوا‘ جیسے وہ کسی ہاتھی کی سونڈ کو دیکھتا ہے کہ جس پہ جابجا جھریاں پڑی ہیں اور جگہ جگہ اس سونڈ کے ساتھ چھوٹی شاخیں اور بد صورت سے پتے چپکے ہوئے ہیں۔ اور تب اسے اپنے پھول بھی دکھائی دئیے جو زرد تھے اور دکھنے میں بہت کم حجم رکھتے تھے۔ اس نے ساتھ کھڑی اپنی ماں کی طرف نظر کی‘ اسے وہ بدبخت بھی اپنے ہی جیسی موٹی‘ بھدی دکھائی دی۔
تب اس درخت نے اپنی ماں‘ اپنی نسل کی پہلی درخت سے پوچھا کہ دیوتاؤں نے ہمیں دنیا میں ایسا بدصورت بنا کر کیوں کھڑا کر دیا؟ اور اس نے شکوہ کیا کہ میری ماں تجھ کو اور مجھ کو بنانے والے نے وہ شکل کیوں نہ دی‘ جیسا خوش شکل ان دوسرے درختوں کو اس نے بنایا ہے؟ جیسا دور کھڑا وہ پام کا درخت نظر آتا ہے‘ پتے جس کے چھ ہاتھ بڑے ہیں اور کسی پنکھ کی مانند ہوا سے لہراتے ہیں‘ جس کا تنا ایسا نازک ہے‘ جو ایک جھونکے سے لہرا جاتا ہے۔ اے میری ماں! ہم دونوں ایسے بد شکل اور جا بجا پھیلے ہوئے کیوں ہیں؟ کیوں ہم ایسے دکھائی دیتے ہیں‘ جیسے ہمیں زمین میں سزا کے طور پہ ادھورا گاڑ دیا گیا ہے؟ وہ پھول جو ہم پر کھلتے ہیں‘ وہ کیوں اس قدر مختصر ہیں کہ جن کو صرف ہماری آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے؟ اے میری ماں! کیا تو بھی مجھے بڑے پھول نہیں دے سکتی تھی؟ ماں اپنے فرزند کو دیکھتی تھی اور کوئی جواب نہیں دے پاتی تھی۔
چھوٹا سا بھدا درخت ایک مدت تک گریہ کرتا رہا اور جب اس نے ایک دن ساتھ کھڑے انجیر پہ نگاہ ڈالی اور دیکھا کہ اس کا پھل کیسا رسیلا اور رنگ دار ہے تب اس کا شکوہ اپنی شدت میں ایسا بڑھا کہ وہ آسمانوں تک جا پہنچا۔ دیوتا‘ جو اس کی ناشکری سے پہلے ہی تنگ ہوئے جاتے تھے‘ ان کے غضب کی انتہا ختم ہو گئی‘ پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس چھوٹے بھدے درخت کو ہمیشہ کے لیے بے آواز کر دیا جائے۔ تب ان میں کا وہ دیوتا جو زمین کے معاملات کا ذمہ دار تھا وہ نیچے اترا‘ چھوٹے درخت کو تنے سے کھینچ کر زمین سے نکال باہر کیا اور اس نے وہیں اسے الٹا گاڑ دیا۔ تو میرے چھوٹے الٹے بیٹے‘ وہ دن تھا اور آج کا دن ہے کہ ہماری پوری نسل زمین میں الٹی گڑی ہے اور نہ وہ اپنا سایہ دیکھ پاتی ہے‘ اور نہ وہ دوسرے درختوں پہ نظر کر سکتی ہے اور نہ اسے دیوتاؤں سے کوئی شکوہ پیدا ہوتا ہے۔ اور یاد رکھ جان عزیز کہ دیوتا اکثر اپنے پیدا شدہ مسئلوں کا ایسا حل ہی نکالنا پسند کرتے ہیں۔
اپنی اپنی قسمت ہے۔ ایسا دکھ یا تو بامیان والے بدھاؤں کے ٹوٹنے پہ محسوس ہوا تھا یا ابھی دنیا کے آخری چار سفید گینڈوں میں سے ایک کے مر جانے پہ ہوا تھا یا پھر واقعی آج ہوا ہے جب یہ خبر نظر آتی ہے کہ افریقہ کے پرانے ترین باؤباب (Baobab) درخت‘ جو ڈھائی تین ہزار سال پرانے ہیں اور جو اتنے لمبے چوڑے ہیں کہ ان کے تنوں میں باقاعدہ گھر یا چھوٹے بار بنے ہوئے تھے‘ ان میں سے آٹھ سب سے زیادہ قدیم باؤباب مر چکے ہیں اور جو کم پرانے تھے ‘ان کی بھی کافی تعداد چلی گئی۔ یہ ایسا پرانا اور اتنا عجیب و غریب پیارا درخت ہے کہ افریقی لوک کہانیوں میں جگہ جگہ اس کا ذکر ہے۔ کہیں کہتے ہیں کہ جب یہ درخت بنایا گیا ‘تو اس نے چلنا شروع کر دیا‘ دیوتا نے اسے سزا دی اور اکھاڑ کے الٹا لگا دیا۔ کہیں لکھا ہے کہ یہ آسمان والوں کو پسند نہیں تھا۔ انہوں نے وہاں سے نکال کے جو پھینکا تو یہ الٹا زمین پہ گرا اور ویسے ہی اگنا شروع ہو گیا۔ یہ اپنی والی کہانی بھی ظاہری بات ہے ایسی ہی ہو گی۔
اس کی شکل واقعی اس طرح کی ہوتی ہے‘ جیسے کسی درخت کو زمین میں الٹا لگا دیا گیا ہو۔ شاخیں جڑوں کی طرح لگتی ہیں اور بس ہوا میں پھیلی رہتی ہیں۔ اسے افریقی لوگ ٹری آف لائف بھی کہتے ہیں۔ سائے سے زیادہ اس کی اہمیت یوں بنتی ہے کہ شدید گرمیوں میں اس کے کھوکھلے تنے انسانوں اور جانوروں دونوں کو دھوپ سے بچاتے ہوئے اپنے اندر سمو لیتے ہیں۔ نیچے سے کھوکھلا ہونے کے باوجود اوپر جاتے جاتے تنے میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ پچیس تیس ہزار گیلن پانی سٹور کر سکتا ہے۔ دنیا کے جو درخت اپنے بیج پیدا کرتے ہیں یہ ان میں سب سے پرانا درخت ہے۔ ایڈریان پیٹرٹ ایک کریک پاٹ ہے۔ وہ رومانیہ کا رہنے والا ہے۔ وہ پچھلے اٹھارہ سال سے ان درختوں پر تحقیق میں لگا ہوا ہے۔ کہاں رومانیہ کہاں مڈغاسکر‘ ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ شاید اسے روٹی پانی کا مسئلہ نہیں ہے یا شاید وہ ہو گا ہی ملنگ آدمی (ویسے شکل سے لگتا بھی ہے) تو اس نے ڈھونڈ ڈھونڈ کے باؤباب کے پرانے ترین درختوں کا مطالعہ کیا (ان کے یہاں اخبار کے علاوہ بھی مطالعے ہوتے ہیں) اس نے ان درختوں کی عمر کا اندازہ لگایا۔ جہاں روایتی طریقے سے نہیں ہوا ادھر کاربن ڈیٹنگ کی‘ رپورٹیں بنائیں‘ سب کچھ کر کرا کے جب فارغ ہونے جا رہا تھا‘ تو یہ واردات ہو گئی۔ وہ کہتا ہے کہ افریقہ میں جو موسم بدل رہا ہے‘ گرمی شدید ہو رہی ہے‘ یہ اس کی وجہ سے ہے۔ نیشنل جیوگرافک والے کہتے ہیں کہ ایسی رپورٹیں کئی سال سے آ رہی تھیں کہ بدلتا موسم مڈغاسکر کے ان درختوں کی تباہی پھیر دے گا‘ لیکن وہاں کی حکومت نے انہیں بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ویسے وہ بے چارے افریقی کر بھی کیا سکتے تھے۔ ہاں مڈغاسکر اگر فرانس کی بجائے برطانیہ کی کالونی رہا ہوتا تو آج ہندوستانی اینٹیکس کی طرح باؤباب کے سارے درخت بھی انگلینڈ کے کسی میوزیم میں ٹھکے ہوتے یا قسمت یا نصیب!
ادھر شاعر کہتا ہے کہ ہر وقت کے رونے دھونے اچھے نہیں ہوتے۔ عمران خان نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ درختوں کو پاکستانی سیاست میں لے آئے۔ اب چاہے ایک ارب کی بجائے ایک لاکھ ہی پودے درخت بننے کی منزل تک پہنچ پائیں‘ لیکن یہ بڑی بات ہے یار!۔ شہباز شریف بھی اچھے خاصے پلانٹ سینسیٹو نکلے‘ جدھر سڑک بناتے ‘ پہلے پودے گاڑتے ۔ سندھ اور بلوچستان میں حکومتوں کی طرف سے تو ٹھنڈ ہے‘ لیکن اپنے لیول پہ لوگوں میں کافی حرکت پیدا ہوئی ہے۔ نوجوان چھوٹے چھوٹے کلب بنا کے درخت لگانے کے لیے پیسے اکٹھے کرتے ہیں اور پھر لگا بھی دیتے ہیں‘ تو بس یہ بہت کافی ہے۔ ہاں ایک چیز پہ فوکس کرنے کی ضرورت ہے کہ بوہڑ‘ پیپل‘ پلکھن‘ گل مہر‘ سکھ چین‘ نیم‘ شرینہہ‘ سوہانجنا وغیرہ ‘جو ہمارے ماحول کے پرانے درخت ہیں ‘ان کے لگانے پہ زور دیا جائے ۔ یہ فینسی تھائی لینڈ اور چائنہ وغیرہ کی ورائٹیاں‘ یہ کونو کارپس یا سفیدہ وغیرہ‘ یہ ورائٹیاں نہ ویسی گھنی ہوتی ہیں اور نہ ماحول کے لیے کچھ خاص بہتر ہوتی ہیں۔ بس خدا نہ کرے کسی دن ایسا ہی کالم اپنے کسی دیسی درخت کے لیے لکھنا پڑے۔ باقی پھر جو مرضی کریں‘ بہرحال ایک پودا زمین میں لگنا کچھ بھی نہ لگنے سے کروڑ گنا بہتر ہے