منتخب کردہ کالم

جب قرض چکانے پڑیں گے…عبدالقادر حسن

جب قرض چکانے پڑیں گے

جب قرض چکانے پڑیں گے…عبدالقادر حسن

نئی حکومت بڑے تام جھام اور دعوؤں کے ساتھ آتی ہے اور دوران حکومت اپنے اس تام جھام کو برقرار رکھتی ہے کیونکہ ریاست کی طاقتور مشینری اس کے تابع ہوتی ہے البتہ حکومت میں آنے سے قبل کیے گئے وعدے اور دعوے کہیں پیچھے چلے جاتے ہیں ۔ اس تام جھام میں تبدیلی تب آتی ہے جب حکومت کی رخصتی کے دن قریب آجاتے ہیں اور جو کچھ دوران اقتدار بویا گیا ہوتا ہے وہ کاٹنا پڑتا ہے ۔ میاں نواز شریف کی تیسری حکومت بھی بڑے طمراق کے ساتھ عوام کی حالت بدلنے کے دعوؤں کے ساتھ وجود میں آئی ۔

ہر نئی آنے والی حکومت اس بات کا رونا روتی ہے کہ اس کو ورثے میں ملنے والے خزانہ میں کچھ بھی نہیں لہذا اس خزانے کو بھرنے کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا مجبوری ہے، قوم کو اپنی مجبوریاں بتا کر بھاری بھرکم قرض دھڑا دھڑ لینے شرو ع کر دیے جاتے ہیں جس سے خزانے کا منہ بھر جاتا ہے اور پھر یہ دعویٰ شروع ہو جاتا ہے کہ خالی ملنے والے خزانے کو بھر لیا گیا ہے، چاہے وہ قرض سے ہی کیوں نہ بھرا گیا ہو۔

میاں نواز شریف نے اپنے ایک سابقہ دور حکومت میں بین الاقوامی ساہوکاروں سے قرض کو لعنت قرار دے کر قرض لینا بند کر دیا بلکہ پرانے قرض چکانے کے لیے ملک میں قرض اتارو ملک سنوارو کی مہم بھی شروع کی گئی جس میں معصوم اور بھولے عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔میں نے بھی جذبات میں آکر کالم کے ذریعے اپنی پرانی مرسیڈیز گاڑی اس اسکیم میں دینے کا اعلان کر دیاجس کے بعد قارئین اور مخلص دوستوں کے دھڑا دھڑ پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یوں میں اپنے جذبات پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا اور میری واحد سواری حکمرانوں کی سیاست کا شکار ہونے سے بچ گئی کیونکہ اس اسکیم کے تحت عوام سے مختلف مدوں میں وصول کیے گئے پیسے کا بعد میں سراغ نہیں مل سکا اورجنہوں نے بطور قرضہ حسنہ اپنا حصہ اس اسکیم میں ڈالا تھا، پاکستان پر ان کا یہ قرض آج بھی وجب الادا ہے۔
قرض حسنہ دینے والے پاکستانی تو اپنے ملک کے لیے ہر قربانی کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں لیکن وہ اپنی محنت سے کمائی گئی دولت اپنے حکمرانوں کے حوالے کرنے کو ہر گز تیار نہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ یہ قرض ملک کی بہتری کے بجائے حکمرانوں کی اپنی بہتری کے لیے استعما ل ہونا ہے اور بعد میں اس کی ادائیگی حکومت نے کرنی ہے۔ وزیر اعظم کے سمدھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملکی معیشت کی بہتری کے دعویٰ تو بہت کیے لیکن شائد وہ یہ بہتری اپنے ساتھ برطانیہ ہی لے گئے جہاں وہ ان دنوں صاحب فراش ہیں اور اسی حالت میں ہی پاکستان میں سینیٹر بھی منتخب ہو گئے ہیں ۔ان کے ڈاکٹران کو سفر کی اجازت نہیں دے رہے ورنہ وہ تو پاکستان آنے کے لیے بے چین ہیں تا کہ ملکی معیشت کو مزید بہتر بنایا جا سکے ۔

ان کی وطن واپسی خاص طور پر میاں صاحب کی مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے اس لیے وہ ڈاکٹر کے مشورے سے لندن میں ہی مقیم ہیں لیکن تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف جس کے ہم پرانے قرض خوار ہیں اس نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت ابتری کی شکار ہے اور اس میں بہتری کے لیے حکومت کو اقدامات کی ضرورت ہے، زرمبادلہ کے ذخائر تین ماہ کی برآمدات کے رہ گئے ہیں، ادائیگیوں میں بہتری لانے کے لیے ہمیں ایک بار پھر عوام پر مہنگائی کے مختلف بم گرانے کے لیے کہا جارہا ہے جن میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ روپے کی قدر میں کمی وغیر شامل ہیں۔

تیل کی قیمتوں میں ہم پچھلے کچھ ماہ سے مسلسل اضافہ ہی دیکھ رہے ہیں اور آہستہ آہستہ صورتحال وہیں پہنچ رہی ہے جہاں سے آج چند سال پہلے تھی لیکن اس تمام صورتحال میں غریب اور معصوم عوام کیا کر سکتے ہیں، وہ اپنے ہاتھ پہلے ہی تجارت پیشہ لوگوں کو اپنا حکمران بنا کر کٹوا چکے ہیں اور اب ایک بار پھر ان کے جال میں پھنسنے کے لیے تیار ہیں ۔ یہ ہوشیار سیاستدان سادہ لوح عوام کو مختلف ترغیبات کے ذریعے اپنے دام میںپھانس لیتے ہیں اور پھر ان پر ٹھاٹ سے حکمرانی کرتے ہیں ۔

اب جو صورتحال سامنے آرہی ہے، یہ سب ان پالیسیوں کی مرہون منت ہے جو کہ ہمارے اکاؤنٹنٹ وزیر خزانہ نے گزشتہ چند سالوں میں اپنی قابلیت کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے اوپر مسلط کی ہیں اور اب ان کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں ۔بعض واقفان حال کا یہ بھی کہنا ہے موجودہ حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرض حاصل کیے ہیں اور ہر پاکستانی جو چند ہزار روپوں کا مقروض تھا، اب اس کے ذمے ایک لاکھ روپے سے زیادہ ملکی قرض ہے اور اصل مزہ تو تب آئے گا جب اگلے سال ان قرضوں کی ادائیگی شروع ہو گی اور اس وقت جو بھی پارٹی حکومت میں ہو گی اس کو دانتوں پسینے آجائیں گے۔

لبِ لباب یہی بنتا ہے کہ ہمارے حکومت جو معیشت میں بہتری کی دعویدا رتھی، بری طرح اس معاملے میں بے نقاب ہو چکی ہے اور حکومت کے آخری دنوں میں ہی اس کی کار کردگی سامنے آگئی ہے جو عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ عوام اپنی آنکھیں کھولنے کے لیے تیار ہوں اور اگر اب بھی عوام نے آنکھیں نہ کھولیں تو پھر اپنی حالت کے ذمے دار وہ خود ہوں گے اور اس کے لیے گلہ کرنے کے بجائے ان کو اگلے انتخابات میں اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کو ووٹ دے کر اپنا حکمران منتخب کرنا پڑے گا اور ایسے حکمران جو کہ عوام کی بات سنیں اور ان کے مسائل کے حل پر توجہ دیں ۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے ۔