منتخب کردہ کالم

جب کوئی صاحب علم اپنا ہنر نہیں بیچتا تھا…عبدالقادر حسن کی یادیں

میں اس وقت جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو اندھیرے میں گم ہوں۔گو وقت تو یہ صبح کا ہے کوئی گیارہ بجے لیکن دماغ روشنی سے محروم ہے اور کالم نویسی روشن دماغی کے بغیر ممکن نہیں۔کالم ایک ایسی بے رحم تحریر ہوتی ہے جو اندر سے زیادہ باہر سے دماغ میں داخل ہوتی ہے اور دماغ میں کسی جگہ بیٹھ کر قارئین سے خطاب کے راستے اور طریقے دریافت کرتی ہے۔

ملک میں سیاست دان عوام کو بے وقوف بنانے کے جو طریقے اختیار کرتے ہیں وہ ان کے بیانوں میں کھل کر سامنے آتے ہیں اور انھی سیاسی بیانوں سے وہ کالم سامنے آتے ہیں جو سیاستدانوں کے راز کھولتے ہیں اور ان کی نیتوں کا پتہ دیتے ہیں ورنہ ایک سیدھی سادی سی خبر سے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ قوم کی رہنمائی کے منصب پر فائز یہ سیاستدان کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں پر ختم ہو کر اپنا مطلب نکال لیتے ہیں۔

عوام اور گوناگوں ہجوم تک اپنے مطلب کی بات پہچانا اور پھر ان عوام سے اپنے مطلب کی بات کہلوانا ہی سیاست ہے ورنہ سیاست کوئی دکان نہیں جس میں دکاندار وہ سامان رکھے جس کی عوام کو ضرورت ہوتی ہے اور سیاستدان جس کی فروخت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر پرانے سیاستدانوں نے اپنی سیاست کی دکان کو ایسے کاروبار سے مثال دی ہے جس میں سامان بھی عوام کا ہوتا ہے اور خریدار بھی عوام تو غلط نہیں کہا ہے۔

سیاست میں سرمایہ کاری اب کچھ وقت سے شروع ہوئی ہے ورنہ سیاست میں مال ڈالنا عیب سمجھا جاتا تھا۔ آپ برصغیر کے سیاستدانوں کی زندگی ہی یاد کریں جن کے پاس عقل و فہم و فراست سب کچھ تھا مگر مال نہیں تھا اور اس کی کمی وہ اپنے علم وفضل سے پوری کرتے تھے۔ آپ کبھی غور کریں اور اپنی فرصت کے کچھ لمحے اس میں بھی صرف کریں کہ ایک عالم بھی آسودہ زندگی بسر کر سکتا ہے اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں میں آج کی نہیں پرانے زمانے کی بات کرتا ہوں جب کوئی صاحب علم اپنا ہنر بیچتا نہیں تھا۔

آپ ذرا حافظے پر زور دے کر مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی کا تصور کریں مولانا خاندانی رئیس ہر گز نہیں تھے لیکن عجیب بات ہے کہ مزاج شاہانہ پایا تھا اور اس پر علم و فضل کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ہندوستان کا کون رئیس تھا جو ان کی خدمت میں حاضری نہیں دیتا تھا۔ ایک بار کسی جلسے میں مولانا کو مدعوکرنے کا فیصلہ ہوا لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ مولانا کو جہاں قیام کرنا تھا وہاں کوئی غسل خانہ ان کی پسند کا نہ تھا چنانچہ جلسے کے انعقاد میں کچھ تاخیر کی گئی اس دوران مولانا کی پسند کا غسل خانہ تعمیر ہو گیا اور مولانا کو اس جلسے میں شرکت کی زحمت دی گئی۔

مولانا آزاد چائے کے بہت شوقین تھے اور چائے بھی چین کی چنانچہ مولانا کی پسند کے مطابق ان کے لیے چین سے باقاعدہ چائے آیا کرتی تھی جس کا انھوں نے اپنی تحریر میں بھی ذکر کیا تھا لیکن سیاسی دنیا میں مولانا کی پسند چینی چائے سے بڑھ کر کوئی نہیں۔

مولانا کسی باہر کے شہر میں علمی مصروفیت کے لیے چند دنوں کے لیے چلے گئے تو اس دوران ان کی جماعت آل انڈیا کانگریس کو ان سے کسی مشورے کی ضرورت پڑ گئی یہ مولانا کی علمی مصروفیت کے دن تھے اور ان کے سیکریٹری بھی ان دنوں موجود نہیں تھے چنانچہ کانگریس نے مجبوراًً پنڈت جواہر لعل نہرو کو اس مشکل کام کے لیے مقرر کیا وہ حاضر ہو گئے کوئی دو دنوں تک ملاقات کا انتظار کرتے رہے اور پھر کہیں جا کرکچھ وقت مل سکا لیکن مولانا آزاد قطعاً رئیس فرد نہیں تھے صرف مزاج میں سب کچھ تھا اور پورا ہندوستان ان سے ڈرتا تھا۔ مگر وہ اپنے وقت کی نیت کو خوب جانتے تھے اور اس وقت میں سے چند افراد کو ہی اپنا حصہ ملتا تھا۔

مولانا پنڈت نہرو کو پسند کرتے پنڈت ہی کا مزاج مشرقی تھا اور ان کی اردو قابل تعریف تھی انھوں نے جب بھی چاہا مولانا سے مل لیے۔ لیکن اس کی وجہ مولانا کی درویشانہ زندگی تھی۔ پسند نا پسند اپنی جگہ مگر مولانا اپنی سیاست کے آداب اور روایات کے پابند اور جب تک وہ کانگریس جیسی بڑی پارٹی کے صدر رہے پوری عزت کے ساتھ سیاست کرتے رہے وہ فرماتے تھے کہ سیاست انسانی تعلقات کا نام ہے اور ان تعلقات میں تہذیب و شائستگی کی پابندی لازم ہے چنانچہ جو سیاستدان ان کے معیار پر پورے نہیں اترے تھے وہ ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے تھے اور بڑے بڑے کانگریسی رؤسا کو ملاقات سے مایوس کر دیتے تھے لیکن انھوں نے یہ سب کچھ اپنے علم اور سیاسی سوجھ بوجھ کی طاقت سے کیا کیونکہ مولانا نے کئی بار کہا کہ سیاست انسانی علوم سے جنم لیتی ہے اور اس میں انسانی احترام لازم ہے۔

مولانا ایک مولوی تھے فقیر اور درویش لیکن روایات کے پابند اور ان کی خلاف ورزی ناقابل برداشت اور اپنی فقیرانہ زندگی میں کسی کی پروا نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے زندگی ایک عالم و فاضل کی طرح بسر کی لیکن ہمیشہ مولوی کہلاتے ان کے بقول ان کی اصل مولویانہ تھی۔

مولانا کی سیاسی زندگی کا قصہ بہت طویل ہے فی الحال اس پر اکتفا کرتے ہیں۔