منتخب کردہ کالم

جماعت کا اجتماع اور وزیر اعلیٰ سے ملاقات …رئوف طاہر

ہفتے کی شب پشاور کے نواح میں دریا کنارے‘ یہ ڈنر خود احتسابی کی مجلس بن گیا تھا۔ یہاں بڑی تعداد الیکٹرانک میڈیا کے وابستگان کی تھی۔ پشاور کے علاوہ اسلام آباد ‘ کراچی اور لاہور کی بھی معقول نمائندگی تھی۔”ایک پنتھ دو کاج‘‘ والا معاملہ تھا۔ نوشہرہ میں جماعت اسلامی خیبر پختونخواکا ”اجتماعِ عام‘‘ تھا اور ہم سب منتظمین کی دعوت پر اس کے مشاہدے کے لیے چلے آئے تھے۔ پاکستان میڈیا کلب نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ ملاقات کا اہتمام بھی کر لیا تھا۔ اس سے قبل2005ء میں جماعت نے صوبائی سطح پر اس طرح کے بڑے اجتماع کا انعقاد کیا تھا۔ تب قاضی صاحب (مرحوم) جماعت کے مرکزی امیر تھے اور جماعت یہاں متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت میںشریکِ اقتدارتھی۔ اس کے بعد ارکان اور کارکنان کے اجتماعات تو ہوتے رہے‘ لیکن اس طرح کے ”اجتماعِ عام‘‘ کا اہتمام12سال بعد اب پہلی بار ہوا تھاجب سراج الحق امیرِ جماعت ہیں اور جماعت ایک بار پھر اقتدار میں حصے دار ہے۔(اب عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ پارٹنرشپ )
نوشہرہ کے باہراضا خیل میں یہ بلا شبہ بہت بڑا اجتماع تھا۔ جماعت کی سیاسی طاقت‘ اس کے نظم و ضبط اورحسنِ انتظام کا بھر پور اورشاندار مظاہرہ۔ خیموں کی بستی دور تک پھیلی ہوئی تھی جس میں فاٹا سمیت صوبے کے دور دراز اور دشوارگزار علاقوں سے بھی لوگ چلے آئے تھے۔ ہفتے کی شام پشاور میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ ”ہائی ٹی میٹنگ‘‘ تھی چنانچہ ہم سہ پہر کو خواتین کے اجتماع ہی میں ”شریک‘‘ ہو پائے‘ جن کے لیے الگ سے ‘ بہت بڑا پنڈال تھا۔
کبھی ”شٹل کاک‘‘ برقعہ برصغیر میں مسلمان خواتین کی پہچان تھا پھر یہ پشتون خواتین تک محدود ہو گیا۔ یہاں پنڈال میں یہ کم کم ہی نظرآیا۔ 99فیصدسے زائد خواتین چادر یا ”فیشنی‘‘ برقعے میں‘ مکمل حجاب کے ساتھ تھیں‘(عطاء الرحمن صاحب کے خیال میں یہ ان کے پڑھے لکھے ہونے کی علامت تھی) بڑی تعداد یونیورسٹی‘ کالجوں اور اسکولوں کی طالبات کی تھی۔
امیر جماعت نے اپنے خطاب میں خواتین کے شرعی حقوق پر روشنی ڈالی جن کی ضمانت قرار دادِ مقاصد میں بھی دی گئی تھی جو اب دستورِ پاکستان کا قابلِ نفاذ حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا‘ جماعت اقتدار میں آئی تو وراثت کے حوالے سے خواتین کے حقوق پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی‘ آرٹیکل 62/63میں ترمیم کر کے اس امر کا اہتمام کرے گی کہ انتخابی امیدوار آبائی وراثت میں اپنی بہنوں کے حصے کی ادائیگی کا سرٹیفکیٹ پیش کرے۔ انہوں نے 70سال سے زائد عمر کی خواتین کے لیے سرکاری الائونس کا بھی اعلان کیا اوراس کے ساتھ یہ خوش خبری بھی کہ جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے گھروں کے باہر‘ گلیوں میں گارڈز کی ضرورت نہیں ہو گی‘ یہ کام ملک کا صدر اوروزیراعظم خود کریں گے۔ انہوں نے خواتین کے لیے دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں میں جائز حصے کی یقین دہانی بھی کرائی۔
عنایت اللہ خاں‘ کے پی کے حکومت میں وزیر بلدیات (اورسینئر منسٹر) ہیں۔ لنچ پر وہ بتا رہے تھے کہ جماعت نے ان کی قیادت میں خصوصی کمیٹی قائم کی ہے‘ جو صوبے میں عوام کو درپیش مسائل کے تعین کے ساتھ ‘ان کا تجزیہ اور ان کے حل کے لیے لائحہ عمل بھی تیار کر رہی ہے۔ یہ 2018ء میں خیبر پختونخوا کے لیے جماعت کا الیکشن مینی فیسٹو ہو گا۔
نماز مغرب کے بعد‘ سی ایم ہائوس میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ نشست دلچسپ رہی(صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی بھی موجود تھے) وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ تبدیلی اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کاویژن مختلف ہے۔ ان کے خیال میں اصل تعمیر و ترقی اور حقیقی تبدیلی‘ عام آدمی کے لیے آسودگی کا اہتمام ہے جو تعلیم‘ صحت اور امن و امان کے بہتر انتظام کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اپنی حکومت کے ابتدائی دو‘ اڑھائی سال میں انہوں نے ان شعبوں میں سسٹم کی تبدیلی‘ اداروں کی اصلاح اور تعمیرِنو کی طرف توجہ دی۔ صوبے کے تقریباً تیس ہزار اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ پرائمری سکول صرف دو کمروں اور دو استادوں پر مشتمل تھے۔ یہاں وہ چھ کمروں اور چھ اساتذہ کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا ہے کہ (ان کے خیال میں) اس عہد میں اس کے بغیر بچے ترقی کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے انہوں نے خود اپنی دلچسپ مثال دی۔ ان کے سبھی بھائی تعلیم کے لیے لاہور ایچی سن میں بھیجے گئے تھے۔ وہ ماں کے زیادہ ہی لاڈلے تھے چنانچہ چوتھی جماعت تک گائوں ہی کے سکول میں رہے۔ اس کے بعد وہ بھی لاہور ایچی سن چلے آئے ‘ یہاں سال بھر پرنسپل صاحب کے گھر میں بھی رہے‘ لیکن ابتدائی چار جماعتوں والی اردو میڈیم کی Defficiencyکے باعث باقی طلبہ سے ہمیشہ پیچھے رہے۔
صحت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صوبے کے بڑے ہسپتالوں کو ”اٹانومس‘‘ بنا دیا ہے‘ کچھ اور ہسپتالوں میں بھی یہی تجربہ کیا جائے گا‘ جو خاصا کامیاب رہا ہے۔ جعلی ادویات کے سدباب کے لیے ہسپتالوں کے اندر فارمیسیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹروں کی تنخواہیں50ہزار سے 2لاکھ کر دی گئی ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
صوبے میں مثالی امن و امان کے لیے انہوں نے انسپکٹر جنرل پولیس کو مکمل خود مختار بنا دیا‘ یہ پالیسی بھی برگ و بار لا رہی ہے۔
عمران خان نے 2018ء تک صوبے میں ایک ارب نئے درخت لگانے کا اعلان کیا تھا(ایک ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطاق وہ پودا بھی غائب ہو چکا جو اس مہم کے افتتاح کے لیے خود عمران خاں نے لگایا تھا) وزیر اعلیٰ کا دعویٰ تھا کہ یہ مہم اپنی فطری رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور 2018ء تک یہ ہدف بھی حاصل ہو جائے گا۔
سوات موٹروے اور پشاور میں ماس ٹرانسپورٹ جیسے میگا پروجیکٹس کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ابھی ان کی ضرورت نہ تھی‘ یہ میڈیا کا پریشر تھا جو وہ ”دکھاوے‘‘ کے ان منصوبوں پر مجبور ہوئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے بار بار”2018ئ‘‘ کی بات کی‘ تو سوال پیدا ہوا ‘ کیا 2نومبر کی مہم جوئی کے بعد بھی آئندہ انتخابات 2018ء ہی میں ہوں گے؟ پرویز خٹک کا جواب تھا‘”2نومبر‘‘ موجودہ سسٹم کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے نہیں‘ یہ تو کرپشن کے خلاف ہے‘ استعفیٰ یا تلاشی!!۔ اورپھر بات2014ء کے دھرنوں تک جا پہنچی‘ ”ان دھرنوں میں شریک ہو کر آپ نے اپنی حکومت کے 4ماہ ضائع کردیے‘‘۔ وزیر اعلیٰ کا جواب تھاکہ وہ تو ویک اینڈ پر جاتے تھے اور سوموارکو دفتر کھلنے سے پہلے واپس آ جاتے تھے۔ کسی ورکنگ ڈے پر گئے‘ تو دفتر کا وقت ختم ہونے کے بعد‘ اور اگلی صبح پشاور واپس پہنچ گئے۔”2نومبر کو سسٹم کو خطرے میں ڈالنے اور خلق خدا کو عذاب سے دوچار کرنے کی بجائے کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جائے آپ کے پی کے حکومت کو توڑنے(یا صوبائی اسمبلی سے استعفوں) کا اعلان کر دیں جس سے آئندہ انتخابات 2018ء کے بجائے‘ فوری طور پر منعقد ہونے کی آئینی سبیل نکل آئے گی؟ وزیر اعلیٰ کا جواب تھا‘”صوبے کی بات کریں‘‘ اور صوبے کی بات یہ تھی کہ شیر پائو کی قومی وطن پارٹی کو کرپشن کے الزام میںکابینہ سے فارغ کیا گیا تھا‘ پھراسی کو دوبارہ لے لیا گیا۔ بات سے بات نکل رہی تھی وزیر اعلیٰ نے یاد دلایا کہ انہیں ایک ضروری مصروفیت کے لیے ابھی اسلام آباد جانا ہے‘ چنانچہ اس دلچسپ بحث کو ادھورا چھوڑ کر‘ چائے کی میزوں کا رخ کیا گیا۔
دریا کنارے اس ڈنر میں‘ میڈیا پرسنز کے درمیان بحث چل نکلی کہ میڈیا کے ایک بڑے حصے کا رویّہ تحریک انصاف کے سوا‘ باقی جماعتوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا کیوں ہے؟ سبھی کو اس ناانصافی کا اعتراف تھا۔ ایک دوست نے مثال دی‘ مانکی شریف میں اے این پی نے پرویز خٹک کے گھر کے سامنے بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا لیکن الیکٹرانک میڈیا میں اس کی خبر تک نہ تھی۔”جماعت اسلامی کے نوشہرہ والے اجتماعِ عام میں حاضری کتنی ہو گی‘‘؟ تحریک انصاف والے ”پیمانے‘‘ سے تو یہ دو‘ اڑھائی ملین سے کم کیا ہو گی؟