منتخب کردہ کالم

جناب رفیق تارڑ کا ایوان صدر کیسا تھا؟ رئوف طاہر (جمہور نامہ)

ڈونلڈ ٹرمپ کے پیشرو باراک اوباما نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ وائٹ ہائوس میں قیام کے دوران ٹشو پیپر سے لیکر ٹوتھ پیسٹ اور جوس کے ڈبوں تک سب کچھ اپنے پلّے سے منگوانا پڑتا تھا، مسٹر پریذیڈنٹ اور ان کی فیملی چھٹیاں بھی اپنے خرچ پر مناتے۔ پاکستان میں ایوانِ صدر کے مکین کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔8ویں (اور پھر17 ویں )ترمیم کے اختیارات والا صدر ہو یا 13ویں (اور پھر18ویں) ترمیم والا بے ضرر اور بے اختیار سا صدر، ایوانِ صدرکے بجٹ میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ مہنگائی کے تناسب سے اس میں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ پرویز مشرف کے ایوان ِصدر کی تو شان ہی دوسری تھی، یہاں راگ رنگ کی محفلیں بھی ہوتیں، ڈسکو ڈانس بھی جن کا حصہ ہوتا۔ جنابِ صدرکو سر پر بھرا ہوا گلاس رکھ کراپنے ذوق رقص کی تسکین اوریوں اپنے فن کے مظاہرے میں بھی کوئی عار نہ ہوتی۔ لیکن کبھی کبھار کوئی درویش منش اور کفایت شعار صدر بھی آ جاتا ہے، اور ان چیزوں کو بھی خود پر حرام ٹھہرا لیتا ہے، جو قانوناً اس کمے لیے حلال ہوتی ہیں، مثلاً ہمارے رفیق تارڑ صاحب۔
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی امور و تاریخی ورثہ جناب عرفان صدیقی، صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری بھی رہے۔ وہ اس منصب کے لیے جناب صدرکا اپنا انتخاب تھے اور انہوں نے بھی وفاداری یوں نبھائی کہ تارڑ صاحب کے ساتھ خود بھی ایوانِ صدر کو الوداع کہہ آئے۔ ہم جدہ میں ایک اخباری ادارے سے منسلک تھے۔ عرفان صدیقی عمرہ کے لیے آئے تو ان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ ایک باضابطہ انٹرویو میں جنابِ رفیق تارڑ کے ایوانِ صدر کے حوالے سے کئی باتیں ہوئیں۔ اوباما کے انکشافات پر ہمیں وہ انٹرویو یاد آیا۔ صدر تارڑ کی درویشی اور ایک ایک پائی کو خلقِ خدا کی امانت کے احساس کے ساتھ خرچ کرنے کے حوالے سے، اس انٹرویو کا ”اختصاریہ‘‘ نذر ِقارئین ہے۔
ایوانِ صدر کا نیا مکین آتا ہے تو بھاری رقوم اس کی صوابدید پر ہوتی ہیں کہ اپنے ذوق کے مطابق ایوانِ صدرمیں اپنے دفتر اور گھرکی آرائش کرواسکے۔ تارڑ صاحب کا معاملہ یہ تھا کہ دفتر اور گھر جس حالت میںملا تھا، اس میں کوئی اضافہ نہ کیا۔ قالین، پردے اور بستر کی چادریں تک وہی رہیں۔ جب صدر کلنٹن آ رہے تھے تو تینوں سیکرٹری صاحبان (ملٹری سیکرٹری، پرنسپل سیکرٹری اور پریس سیکرٹری) نے سوچا کہ صدر صاحب کے کمرے میں جو چھوٹا سا قالین ہے، یہ بوسیدہ سا لگتا ہے، اسے تو بدلنا چاہیے۔ صدیقی صاحب نے موقع پا کر صدر سے عرض کیا تو ان کا جواب تھا، مجھے تو ٹھیک لگتا ہے، آپ کو پسند نہیں تو بدل لیں، اسی سے فائدہ اٹھا کر صوفوں کے کور بھی بدل دیئے گئے۔
عرفان صدیقی بتا رہے تھے: ہم ایوانِ صدر پہنچے تو رمضان کا مہینہ تھا۔ عید کے بعد اپنے دفتر گیا تو میرا پی اے ایک صاحب کو لیکر آیا کہ یہ دفتر کے لیے آپ کا کھانا تیار کرے گا۔ آپ کے دوستوں کو آنا ہو تو جو آپ کہیں گے، یہ ان کے لیے بھی تیار کردے گا۔ تھوی دیر بعد صدر صاحب نے مجھے بلایا اور کہا! یہ سب کچھ سرکاری فنڈ سے کیوں ہو؟دفتر میںکام کے دوران میں کھائوں گا، نہ میرا سٹاف کھائے گا۔ اس کے بعد چائے وغیرہ ہو جاتی تھی۔ کوئی مہمان آ گیا تو بسکٹ وغیرہ بھی ہوجاتے۔ (اس ”تکلف‘‘ کے لیے بھی شامی صاحب نے جناب صدر کو توجہ دلائی تھی) ایک اور روایت یہ ختم ہوئی کہ وہ جو نیزہ بردار جگہ جگہ کھڑے ہوتے ہیں، انہیں ہٹا دیا گیا کہ جاہ و حشم اور رعب و دبدبے کا یہ اظہار غیر ضروری تھا۔ اگر کوئی اخراجات ناگزیر ہوتے، مثلاً سفیروں کی دعوت ، یا باہر سے کوئی شخصیت آئی اور صدر پاکستان نے اس کے اعزاز میں کھانا دینا ہے، تو اس میں موقع محل کی مناسبت سے ضروری لوگ ہی مدعو کیے جاتے۔
صدر صاحب کے فزیشن بریگیڈیئر ڈاکٹر شجاعت ایک دن بتانے لگے کہ صدر صاحب کے چہرے پر پھنسی سی ہو گئی۔ ادویات کا اچھا خاصا بجٹ ہوتا ہے۔ میں نے ایک آئنٹمنٹ بھجوا دی۔ شام کو مجھے بلایا اور کہا کہ یہ تو کریم ہے اور اس کی مجھے Entitlement نہیں۔ یہ سامانِ آرائش میں آتی ہے۔ ایوانِ صدر کا بجٹ انہوں نے آتے ہی 50 فیصد کم کر دیا تھا۔ اگلے سال اس کا بھی 50 فیصد کردیا، گویا اصل بجٹ کا صرف 25 فیصد رہ گیا۔
ایک بار عرفان صاحب سمیت تین چار سنیئر لوگوں نے ”سازشی‘‘ سا مشورہ کیا کہ حج پر چلنا چاہئے۔ صدر صاحب سے بات کی تو انہوں نے خاصے غوروخوض کے بعد کہا،ایک تو ہم سرکاری جہاز میں نہیں جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ بہت ناگزیر سٹاف ہی ساتھ جائے گا۔ اے ڈی سی وغیرہ کی ضرورت نہیں اور یہ بھی کہ ٹکٹ ہم اپنی جیب سے لیں گے۔ صدر صاحب کی خواہش تھی کہ پروٹوکول کے بغیر عام لوگوںکی طرح حج کریں لیکن سعودی حکام کا کہنا تھا کہ سعودی سرزمین پر ان کی مرضی چلے گی، چنانچہ ہمیں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ تمام ضروری سہولتیں دی گئیں۔
ان کے ساڑھے تین سالہ دورمیں ایوان صدر کے لیے کوئی نئی گاڑی آئی، نہ نیا سازو سامان خریدا گیا۔ گھر میں ان کا کھانا ؟ ان کے ہاں کام کرنے والے بتاتے کہ سادا ہی ہوتا تھا۔ صدر کے کھانے کے لیے بھی ایک بجٹ ہوتا ہے جس کے مطابق صدر کا کھانا سرکار خود تیارکرتی ہے یا یہ بجٹ صدرکو دے دیا جاتا ہے کہ اپنے ذوق و شوق اور ضرورت و خواہش کے مطابق جتنا چاہیں، خرچ کرلیں۔ ”ان کے دوست احباب بھی ایوان صدر آتے ہوں گے‘‘؟ بہت ہی محدود اور اس دوران وہ اپنے گائوں بھی شاید ایک بار ہی گئے۔ وہاں اپنی موروثی زمین انہوں نے حکومت پنجاب کو دے دی تھی کہ یہاں کوئی رفاہی ادارہ بنا دیں۔
عرفان صدیقی صاحب نے یہاں ایک اور دلچسپ بات بھی بتائی۔ علی الصبح پریس برانچ اخبارات کی جو کلپنگ تیار کرتی ہے، اس کی ایک کاپی جناب صدر کو بھی جاتی ہے۔ بیوروکریٹک رویہ یہ ہوتا ہے کہ ”ناخوشگوار‘‘ خبریں شامل ہی نہیں کرتے تاکہ ”باس‘‘ کی طبع نازک پر گراں نہ گزریں۔ لیکن تارڑ صاحب کی ہدایت تھی کہ ایسی خبریں ضرور دیا کریں۔ ویسے بھی کلپنگ پہنچنے سے پہلے ہی وہ سارے اخبارات پڑھ لیا کرتے تھے۔(جنرل ضیاء الحق کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ بھی نمازِ فجر اور تلاوتِ قرآنِ پاک کے بعد اہم اردو اور انگریزی اخبارات کا مطالعہ کرتے۔ اداریے اور کالم کبھی مِس نہ کرتے۔ حکومت اور خود ان کے خلاف لکھے گئے کالم اور اداریے ان کی خصوصی دلچسپی کا باعث ہوتے۔)
تارڑ صاحب کے دور میںایوانِ صدر اور پرائم منسٹر ہائوس کی ریلیشن شپ کے حوالے سے عرفان صاحب کا کہنا تھا کہ بطورِ صدر ان کے دائرہ کار میں جو معاملات آتے، ان میں پوری دلچسپی لیتے تھے۔ پرائم منسٹر ہائوس سے کوئی فائل آتی تو بالکل آئین کے مطابق چلتے تھے لیکن ہیرو بننے کی کوشش کبھی نہ کی۔ اگر محسوس کرتے کہ یہ چیز نہیں ہونی چاہئے تو اس کے لیے دو طریقے اختیار کرتے۔ پرائم منسٹر کے ساتھ ان کے تعلقات اتنے اچھے تھے کہ زبانی کہہ دیتے کہ میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ اسے اس طرح کردیں اور وزیراعظم کہتے، ٹھیک ہے آپ بھجوادیں، ہم اسی طرح کرلیتے ہیں؛ چنانچہ فائل کسی تحریری نوٹ کے بغیر واپس چلی جاتی اور ترمیم و تبدیلی کے ساتھ واپس آ جاتی اور اگر کبھی اپنا نقطۂ نظر دے کر فائل واپس کرنا ہوتی تو نوٹ لکھتے اور فائل اس کے مطابق تبدیلی کے بعد دوبارہ ایوانِ صدر آ جاتی۔ ایوانِ صدر اور پرائم منسٹر ہائوس میں جو خوشگوار تعلقات ہونے چاہئیں‘ وہ بکمال و تمام موجود تھے۔ وزیراعظم کے دل میں ان کا بہت احترام تھا۔ وہ ان کی رائے کو بہت اہمیت دیتے‘ اہم فیصلوں میں انہیں شریک کرتے۔ اس کے لئے خود ایوانِ صدر آتے رہتے۔ وزیراعظم کی طرف سے اس ذاتی ادب و احترام کے باوجود صدر صاحب اپنے آئینی کردار کے متعلق بہت کلیئر تھے اور اس میںکبھی تجاوز نہ کیا۔ ایک بار نواب زادہ نصراللہ خاں کا خط آیا کہ اپوزیشن کے فلاں فلاں لیڈر ان کی قیادت میں جناب صدر سے ملاقات کرنا اور ایک چارج شیٹ وزیراعظم کے خلاف پیش کرنا چاہتے ہیں تو صدر صاحب نے انہیں لکھا کہ میں نہ تو کوئی عدالت ہوں اور نہ کوئی ایسا فورم جو وزیراعظم کے خلاف چارج شیٹ سننے کے لیے بیٹھا ہو۔ لہٰذا اس سے معذرت، البتہ آپ ویسے گپ شپ کے لیے آنا چاہتے ہیں تو جب چاہیں تشریف لائیں، چشمِ ماروشن دلِ ماشاد۔