منتخب کردہ کالم

جنگ میں پہلا نشانہ…نذیر ناجی

معروف جملہ ہے ”جنگ کا پہلا نشانہ سچائی بنتی ہے۔‘‘ اس میں ایک اور دلچسپ حقیقت کا اضافہ کروں گا کہ ”جنگوں میں ہر خبر ساٹھ سے لے کر ستر مرتبہ دہرائی جاتی ہے۔‘‘ اور آخری بات یہ کہ جنگ سے متعلق تحریروں کے جو اقتباس پیش کر رہا ہوں ان میں پہلا اقتباس آمنہ مفتی کی تحریر پر مشتمل ہے۔
”کچھ لوگ پیدائشی ہیرو ہوتے ہیں اور کچھ کو قسمت ہیرو بنا دیتی ہے۔ ہر تحریک کا ایک ہیرو ہوتا ہے اور تحریک کامیاب ہونے کے بعد، اس کی تصویریں اداروں میں ٹانگی جاتی ہیں، اس پہ ترانے لکھے جاتے ہیں اور مائیں اپنے بچوں کے نام اس کے نام پہ رکھتی ہیں۔ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ کشمیر میں جاری اس طویل تحریکِ آزادی کے اصل ہیرو کو کوئی پہچان نہیں پا رہا۔ اگر میں اس ہیرو کا نام ابھی بتا دوں گی تو ممکن ہے آپ میں سے بہت سے آگے پڑھیں ہی نہ، اسی لئے میں ہیرو کانام آخر میں بتائوں گی۔ ابھی آپ صرف اس ہیرو کی جدو جہد دیکھئے۔
ایک سادہ سا نوجوان، کمانڈو لباس میں اپنی تصویریں سماجی رابطوں کی سائٹوں پہ لگا تا تھا، جس سے بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے،ان میں ایک بڑی تعداد جوانوں کی تھی۔ اس جوان کو مار دیا گیا۔ اس کی موت سے کشمیر کی نوجوان نسل جو ٹوئٹر اور فیس بک کے دور میں پیدا ہوئی تھی اور تحریکِ آزادی سے کافی حد تک انجان تھی، چونک اٹھی۔
برہان کے جنازے میں جوانوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ ان میں ہندوستان کی حکومت کے خلاف غصہ تھا ،جو ظاہر ہے زندہ برہان پیدا نہیں کر سکتا تھا۔ اس جلوس پر چھرے فائر کئے گئے، سینکڑوں متاثرین میں اکثریت جوانوں کی تھی۔ یہ اپنی بینائی کھو بیٹھے اور بے شمار مارے گئے۔ اس سے نہ صرف ان نو جوانوں کو بلکہ پوری دنیا کو یقین ہو گیا کہ کشمیر ایک مفتوحہ علاقہ ہے، جہاں فاتح فوج اپنی رٹ قائم کر رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے پہلے، اوڑی میں جو کچھ ہوا اور جس سرعت سے اس کے مجرم تلاش کر لئے گئے، اس نے پاکستان کی اس نئی نسل کے سوالوں کو جواب بھی دے دیئے جو پوچھتی تھی کہ پاکستان کیوں بنا تھا؟ساری دنیا، جس کی نظر اس وقت کشمیر پہ تھی، جان گئی کہ کشمیر کا مسئلہ کس نے الجھا رکھا ہے؟ کون بات نہیں کرنا چاہتا اور کون ہر بار مذاکرات کی میزیں الٹا کر بھاگ جاتا ہے؟ خیر، فوراً ہی پانی بند کرنے کی دھمکی دے دی گئی۔ پا کستانی کسان جو پہلے ہی اپنے حالات کے خلاف احتجاج کرتے پھر رہے تھے اور کشمیر ان کے لیے لائن آف کنٹرول کے بس ادھر ہی تھا، کھٹکے۔ پانی کیوں بند کیا جائے گا؟ تب انہیں تفصیل سے مسئلہ کشمیر سمجھنے کا مو قع ملا اور وہ جو اپنے ملک کے بہت سے اداروں سے بد دل ہوئے بیٹھے تھے، مان گئے کہ کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ہندوستان ہمیں بھوکا مار دے گا۔ امن کی آشا رکھنے والے فنکاروں کو، حکومت نواز گروہوں نے بھارت چھوڑنے کا حکم دیا۔ پاکستانی ڈرامے اور پاکستانی اداکاروں کی فلمیں بند کرنے کی دھمکی دی۔ فن کار آپ جانیے ،سیدھے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کو کسی درسی کتاب میں لکھے مسئلہ کشمیر سے کبھی دلچسپی نہیں رہی ۔ لیکن اب ان کو بھی خوب سمجھ آ گیا کہ واقعہ کیا ہے؟ ”دوستی بس ‘‘بند ہوئی۔ لائن آف کنٹرول پہ فائرنگ ہوئی۔ جنگ کی دھمکیاں دی گئیں۔ پاکستان کی نئی نسل، ہندوستان کی نئی نسل، جو اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں کے ذریعے، ایک دوسرے سے منسلک ہیں، سب کو بخوبی معلوم ہو گیا کہ مسئلہ کشمیر کیا ہے؟ اور اس کے حل کے بغیر، نہ پاکستان ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی ہندوستان۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو دونوں طرف کے لوگ جنگ کی آگ میں جل کر مر جائیں گے۔
یہ سب خدمات، تعلقاتِ عامہ کا بڑے سے بڑا ماہر سر انجام نہیں دے سکتا تھا۔ لیکن ہندوستان کے مردم خیز خطے ہی میں کشمیر کی اگلی نسل کا محسن پیدا ہوا۔ نریندر مودی کی ان تھک کوششوں سے ہندوستان اور پاکستان کے طول و عرض میں، بچے بچے کو مسئلہ کشمیر، اس کی اہمیت اور اس کا حل معلوم ہو گیا ہے۔ دو نسلوں سے جاری یہ جدوجہد دنیا کی نگاہ سے اوجھل ہو چکی تھی۔ اسے دوبارہ ایسے دنیا کے سامنے لانا کہ کشمیریوں کی مظلومیت اور بھارت کا اس مسئلے کے ذکر پہ دیوانہ سا ہو کے ”جنگ، جنگ‘‘ کا شور مچا دینا، سب واضح ہو جائیں، اس کے لیے ایک زمانہ ساز انسان کی ضرورت تھی۔یہ کام برہان وانی کبھی نہیں کر سکتا تھا۔
ہندوستان کی فلمیں مشہور ہیں، ہیرو بھی مشہور ہیں۔ مودی جی کبھی اپنے نام کی لائنوں والا سوٹ پہنتے تھے، کبھی کچھ اور جتن کرتے تھے، یہ تو انہیں بڑی دیر میں معلوم ہوا کہ ہیرو بننے کے لئے کیا کرنا چاہیے۔چونکہ مودی جی کی یہ ساری کوشش نئی نسل کو کشمیر کے مسئلے سے آگاہ کرنے اور اس کے حل کی طرف مائل کرنے کے لئے تھی، اسی لئے انہوںنے سکرپٹ میں جدت رکھی۔ (آخر کو مودی جی، جن کے دل میں گائیوں تک کے لئے محبت ہے، انسانوں کے دشمن اور جنگ کے حامی کیسے ہو سکتے ہیں؟)
کل مورخ لکھے گا کہ کشمیریوں کی داستانِ حریت کو دنیا کے سامنے لانے والا، انہیں آزادی دلانے والا، کوئی اور نہیں، نریندر مودی تھا۔ واہ مودی جی، پورس کے ہاتھی یاد دلا دیے!‘‘
………………
بھارت پاکستان کے درمیان واہگہ اٹاری سرحد پر روزانہ پرچم اتارنے کی تقریب کے دوران، پاکستانی ناظرین کی جانب سے اتوار کو سرحد پار پتھر پھینکے گئے۔امرتسر میں صحافی روندر سنگھ روبن نے بھارتی سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے دو پتھر سرحد کی دوسری طرف وی آئی پی گیلری میں بیٹھے بھارتی شہریوں کو لگے ہیں لیکن کسی کو شدید چوٹ نہیں آئی۔واقعہ کے فوراً بعد ہندوستان اور پاکستان کے حکام کے درمیان، پاکستان کے سامعین کے رویے سے متعلق فلیگ میٹنگ ہوئی ہے۔بھارت کی طرف سے ”سرجیکل سٹرائیک‘ ‘کے دعوؤں کے بعد سے ہی، پرچم اتارنے کی روایتی تقریب کے دوران بھارت نے لوگوں کے شامل ہونے پر پابندی لگا دی تھی اور اس فیصلے کا اطلاق، دو اکتوبر تک ہونا تھا۔لیکن اتوار کو تقریبا ڈیڑھ سو سے دو سو افراد کو بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی۔
شام تقریباً سوا پانچ بجے ،جب پرچم اتارنے کی تقریب شروع ہوئی ، تو پاکستان کی جانب بیٹھے کچھ ناظرین نے ،ہندوستان کی طرف وی آئی پی گیلری میں بیٹھے لوگوں پر مبینہ طور پر پتھر پھینکے۔اس میں کسی کو کوئی سنگین چوٹ نہیں لگی۔واقعے کے فوراً بعد ،بارڈر سکیورٹی فورس نے، اس کی اطلاع پاکستانی رینجرز کو دی، جس کے بعد تقریب کا اختتام ہوا۔اتنا ہی نہیں، پاکستان رینجرز کی موجودگی میں ہی، پاکستانیوں نے لاؤڈ سپیکر کا استعمال کرتے ہوئے، کشمیر کی حمایت میں نعرے بھی لگائے۔بھارتی سرکاری ذرائع کے مطابق، اس واقعے کے پیش نظر ،بھارتی اگلے ایک ہفتے تک اس تقریب میں لوگوں کی موجودگی پر پابندی لگا سکتے ہیں۔
………………
گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم سے منسوب ایک زبردست مزاحیہ بیان شائع ہوا۔ جس میں مودی صاحب نے فرمایا تھا کہ بھارت نے کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیااور نہ ہی بھارت کسی کی زمین قابو کرنے کے لئے بھوکا ہے۔ لیکن بھارتی فوجیوںنے ملک اور دوسروں کے مفادات کے لیے قربانیاں دی ہیں۔خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق اتوار کو دلی کی ایک تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا”انڈیا نے کسی پر حملہ نہیں کیا۔ نہ ہی انڈیا کسی کی زمین کا بھوکا ہے۔ لیکن دو عالمی جنگوں میں (جس میں ہندوستان کا براہ راست کوئی لینا دینا نہیں تھا) ڈیڑھ لاکھ انڈین فوجیوں نے اپنی جان کی قربانی دی تھی۔‘‘ (بھارتی وزیراعظم کو پتہ نہیں کہ دونوں عظیم جنگوں میں قربانیاں دینے والے صرف بھارتی نہیں‘ بنگلہ دیشی اور پاکستانی بھی تھے۔)انہوںنے کہا کہ بیرون ملک رہنے والے ہندوستانی نژاد لوگ بھی، سیاست یا پھر غیر ملکی زمین پر قبضے میں شامل نہیں ہوتے بلکہ دیگر کمیونٹیز کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کے لوگ پانی کی طرح ہوتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں۔مودی نے کہا کہ کئی قربانیوں کے باوجود، دنیا نے انڈیا کی اہمیت کو نہیں سمجھا ۔اس لئے وہ جب بھی بیرون ملک جاتے ہیں تو انڈین فوجیوں کے لئے بنائی گئی یادگاروں پر جانا نہیں بھولتے۔