منتخب کردہ کالم

جہانگیر ترین کا نعم البدل کوئی نہیں۔تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

جہانگیر ترین کا نعم البدل کوئی بھی نہیں۔۔تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

سپریم کورٹ سے نااہل ہونے والے تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل نے یہ عہدہ بھی چھوڑ دیا ہے، اگر وہ اپنے اس فیصلے پر قائم رہتے ہیں اور چیئرمین کے کہنے پر نظرثانی نہیں کرتے جنہوں نے انہیں گزشتہ روز پارٹی میں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی، تو ظاہر ہے پارٹی کو جلد ہی نئے سیکرٹری جنرل کی تلاش ہوگی۔ جس کے لئے ویسے تو اسد عمر کا نام لیا جا رہا ہے، لیکن یہ بات اہم ہے کہ کیا وہ جہانگیر ترین کا نعم البدل ثابت ہوں گے؟ کیونکہ وہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہی نہیں تھے، ہر لحاظ سے عمران خان کے نائب تھے۔ اگرچہ شاہ محمود قریشی بھی یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں، لیکن پارٹی کے اندر زمینی حقیقت یہ ہے کہ جہانگیر ترین کا کوئی متبادل ہی نہیں۔ ایک تو وہ انتہائی کامیاب بزنس مین ہیں اور عمران خان کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ ٹیکس بھی دیتے ہیں۔ پارٹی میں اور بھی بہت سے بزنس مین ہوں گے لیکن سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا تو شاید ہی کوئی ہوگا۔ اس جماعت کے اندر گروہ بندی بھی دوسری پارٹیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ سیاسی جماعتوں میں گروہ بندیاں ہوتی ہیں اور کوئی بھی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ ان سے پاک ہے، لیکن جس طرح گروہ بندی تحریک انصاف میں ہے وہ شاید کسی دوسری جماعت میں نہیں۔ عمران خان کو بھی اس کا احساس ہے اور انہوں نے یہ بات کبھی چھپائی بھی نہیں بلکہ عام جلسوں میں برملا اس کا اظہار کرتے رہے ہیں، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے اختلافات کے چرچے تو زبان زد عام ہیں۔ پارٹی کے اندر جہانگیر ترین کا گروپ کافی مضبوط ہے، کیونکہ سارے لوگ جانتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں ٹکٹ ان کی مرضی سے ہی تقسیم ہوں گے۔
کہا جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کے قریبی ساتھی بھی جہانگیر ترین کے کیمپ میں جاچکے ہیں۔ ان کے مقابلے میں شاہ محمود قریشی اتنے مضبوط بھی نہیں اور پارٹی کی مالی ضروریات کا خیال بھی جہانگیر ترین ہی رکھتے تھے۔ سیاست پاکستان میں بہت مہنگا کھیل بن چکا ہے اور معمولی سرمایہ دار بھی اس سے باہر ہو رہے ہیں۔ اب تو عام جلسوں پر بھی لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ جلسوں میں کرسیاں لگائی جاتی ہیں جبکہ ایک زمانے میں تھوڑی سی دریاں بچھا کر کام چلا لیا جاتا تھا اور جلسے کے شرکاء زمین پر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر خطاب سن لیتے تھے۔ جلسوں کے اندر کھانے وغیرہ کا تو کوئی تصور نہیں تھا۔ اب تو عام جلسوں کے شرکاء کی تواضع کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ہوسکتا ہے منتخب لوگوں کو نقد ادائیگی بھی کی جاتی ہو، کیونکہ اگر کسی جلسے میں دوسرے شہروں سے لوگوں کو لایا جائیگا تو اس پر خرچہ تو ہوگا۔ یہ اخراجات پارٹی کے اندر سرمایہ دار گروپ ہی کرتے ہیں یا وہ امیدوار جنہوں نے ٹکٹ کی امید لگائی ہوتی ہے۔
جہانگیر ترین تو پورے جنوبی پنجاب میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے تھے، اس لئے ان کے سٹیکس بھی کچھ زیادہ ہی ہوں گے۔ پھر ان کی کمپنی کا جہاز بھی عمران خان کے استعمال میں رہتا ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی انہوں نے یہ انکشاف بھی کر دیا ہے کہ پارٹی جہانگیر ترین کی کمپنی ہوائی جہاز کے استعمال کے اخراجات ادا کرتی ہے۔ یہ بات اس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی۔ اب اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ اس کی مصلحت تو وہی بہتر سمجھتے ہوں گے، لیکن یہ بات تو کسی شک و شبے سے بالاتر ہو کر کہی جاسکتی ہے کہ اسد عمر یا کوئی بھی دوسرا سیکرٹری جنرل اتنا مالی بوجھ نہیں اٹھا سکتا جو جہانگیر ترین کے کندھوں پرموجود تھا۔
علیم خان البتہ ان کے پائے کے سرمایہ دار کہے جاسکتے ہیں، لیکن اپنے حلقے میں ووٹ لینے کے لئے پیسہ خرچ کرنا اور بات ہے اور پارٹی کی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لئے خزانوں کے منہ مستقل کھولے رکھنا بالکل دوسری بات۔ شاہ محمود قریشی اس لئے بھی جہانگیر ترین کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے کہ ان کا ہاتھ کشادہ نہیں تھا، وہ گدی نشین ہیں، جنہیں عطیات آتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ان کے بھائی مرید حسین قریشی نے ہزاروں مریدوں کی موجودگی میں انہیں کھری کھری سنا دی تھیں۔ ایسے میں ان کے لئے جہانگیر ترین کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ پارٹی میں ایک اور سرمایہ کار چودھری محمد سرور بھی ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ زیادہ متحرک نہیں ہیں۔ اس کی وجہ تو وہی بہتر جانتے ہوں گے لیکن اگر انہوں نے صف اول میں آنا ہے تو انہیں بھی پارٹی کی مالی ضروریات میں حصے دار بن کر سامنے آنا ہوگا۔
پارٹی میں جو لوگ دوسری پارٹیاں چھوڑ کر شامل ہو رہے ہیں، سنا ہے وہ بھی کچھ نہ کچھ مالی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ جو نشست جہانگیر ترین کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی ہے، اس پر تحریک انصاف کا کون سا امیدوار مقابلے میں اترتا ہے، یہ بات ابھی حتمی طور پر معلوم نہیں۔ ان کے صاحبزادوں میں سے کوئی فی الحال سیاست میں نہیں، ان کا قیام بھی بیرون ملک ہے۔ اگر وہ اس خارزار میں قدم رکھنا پسند کریں گے تو ان کے لئے میدان کار زار کھلا ہے۔ پارٹی میں جہانگیر ترین کے مضبوط دھڑے کی حیثیت اب کیا ہوگی، یہ بھی ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت واضح ہوگا۔