منتخب کردہ کالم

حادثے سے بڑا سانحہ! نازیہ مصطفیٰ

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان اب چاند سے بھی آگے مریخ پر قدم رکھنے کی تیاریاں کررہا ہے، اگرچہ انسان کی یہ سب تیاریاں اس کی اپنی تیار کردہ مشینوں کی مرہون منت ہیں، لیکن اپنی بہترین صلاحیتوں کے باوجود ابھی تک انسان ایسی کوئی مشین ایجاد نہیں کرپایا، جسے سو فیصد ”مکمل‘‘ یا خامی اور خرابی سے پاک قرار دیا جاسکے، یہی وجہ ہے کہ ہوائی جہاز کی ایجاد کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک ہوا کے دوش پر تیرنے والے جہازوں کو خامیوں ،خرابیوں اور نقائص سے مکمل مبرا قرار نہیں دیا جاسکا، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فضائی سفر کو بھی ابھی تک مکمل طور پر اور سو فیصد محفوظ نہیں بنایا جاسکا۔ ایوی ایشن کی دنیا میں چھوٹے بڑے حادثات اور کریش لینڈنگ تو معمول کی بات سمجھی جاتی ہے لیکن بڑے حادثات کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ جہاز کے حادثات بالعموم بنیادی طور پر تین بڑی وجوہ(خرابیوں) کی بنا پر پیش آتے ہیں۔ ان میں آپریشنل خرابی، مکینیکل خرابی اور یا کوئی الیکٹریکل خرابی ہو سکتی ہے۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی خرابی جہاز میں موجود ہو تو وہ دوران پرواز براہِ راست بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے، عموماً یہی تین خرابیاں جہازوں کے نوے فیصد سے زائد حادثات کی وجہ بنتی ہیں ، لیکن اس کے علاوہ دوران پرواز نامساعد موسمی حالات کی وجہ سے بھی حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ایسے حادثات سے پہلے فضائی سفر کے دوران طیارے بے قابو ہوجاتے ہیں، بے قابو ہونے کی اس ٹیکنیکل صورت کو ”ٹربولینس‘‘ کہا جاتا ہے۔ 40ء کی دہائی سے پہلے تو ٹربولینس کی شکایت عام تھی۔ دراصل جہاز کی رفتار تیز کرنے کیلئے طیاروں کے انجن میں زیادہ ایندھن جھونکا جاتا تو یہ عمل اُلٹا پڑتا ، سائنس کے طلبہ جانتے ہیں کہ کلاسیکی طبعیات میں ٹربولینس پیدا ہونے کی وجہ سے حرکی توانائی ختم ہوجاتی اور طیارہ پائلٹ کے کنٹرول سے نکل کر گر کر تباہ ہوجاتا ہے۔مادے کو توانائی میں تبدیل کرلینے کے باوجود 1940ء تک سائنسدان اس مسئلے کا حل نہ نکال سکے تھے، لیکن اگلے برس یہ روسی ماہرِ ریاضیات و طبعیات ”آندرے کلموگروف‘‘ تھا،جس نے ”کلموگروف تھیوری‘‘پیش کرکے فضائی سفر کی دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اس تھیوری کے مطابق سائنسی زبان میں آندرے کلموگراف نے ایندھن کے بڑے اجزاء کو چھوٹے چھوٹے اجزا میں تبدیل کرکے مسئلے کا حل نکال لیا اور جہاز کی سپیڈ بڑھنے پر حرکی توانائی کے ختم ہونے پر ٹربولینس پیدا کرنے کا راستہ بھی روک دیا۔
جہازوں کے سفر کو محفوظ بنانے کے پہلے مرحلے میں کامیابی پر فضائی سفر کرنے والا ہر مسافر آج یقینا آندرے کلموگروف کا ممنون ہے۔ اگرچہ کلموگراف نے جہازوں کے ٹربولینس پر تو بری حد تک قابو پالیا، لیکن اگر کوئی فضائی کمپنی ہی ٹربولینس کا شکار ہوتو یقینا اس کیلئے ”کلموگراف‘‘ سے بڑھ کر کچھ سوچنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز پاکستان کی سب سے بڑی اور قومی ایئر لائن ہے جو اندرون وبیرون ملک پروازیں چلاتی ہے ۔ بیرون ملک یہ پروازیں ایشیا، یورپ اورجنوبی امریکہ تک جاتی ہے۔پی آئی اے تیس سے زائد جہازوں کے بیڑے کے ساتھ پاکستان کی سب سے بڑی اور قومی ایئر لائن ہے جو ایک وسیع تر تاریخ رکھتی ہے۔ یہ ایشیاء کی پہلی ایئر لائن ہے جس نے جیٹ انجن والے بوئنگ 737جہاز ہی نہیں چلائے بلکہ یہ بوئنگ 777-200 ایل آر جہاز حاصل کرنے اور کامیابی سے چلانے والی دنیا کی پہلی ایئر لائن بھی تھی۔ لیکن کرپشن، اقربا پروری، ضرورت سے زیادہ ملازمین کے بوجھ اور دیگر بدانتظامیوں اور انتظامی نالائقیوں اور نااہلیوں کے سبب پی آئی اے مجموعی طور پر ”ٹربولینس‘‘ کا شکار ہوگئی۔ سالانہ خسارے سے دوچار پی آئی اے گزشتہ کچھ برسوں کے دوران جس صورت حال سے دوچار رہی وہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔پی آئی اے کو درست کرنے کیلئے حکومت نے اس کی نجکاری کرنے کی کوشش کی تو ملازمین نے ہڑتال کا بازار گرم کردیا، جس پر اپوزیشن جماعتیں بھی ہڑتالی ملازمین کی ہم نوا بنی نظر آئیں۔
مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت کی نظر میں پی آئی اے کی موجودہ بیماری کا علاج ادارے کی نجکاری میں ہی کیوں مضمر تھا؟ بلکہ قوم کیلئے بحیثیت مجموعی یہ امر بھی شرمندگی کا باعث تھا کہ دنیا کی بہترین فضائی سروس اور دنیا کی کئی فضائی سروسز کی ”ماں‘‘ ہونے کے باوجود پی آئی اے خود ”ممتا‘‘ کے ثمرات سے کیونکر محروم ہوگئی؟سوال تو یہ بھی ہے کہ پی آئی اے کو تباہ کرنے کے ذمہ داروں کا تعین کون کرے گا؟ حکومت کی ذمہ داری صرف یہی نہیں کہ پی آئی اے کو درست کرتی بلکہ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ پی آئی اے کو تباہ کرنے کے ذمہ داروں کا تعین کرتی ۔اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ ذمہ داروں کے تعین کیلئے ایک اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن کیوں قائم نہیں جاتا۔ ایک ایسا کمیشن جو یہ دیکھے کہ 80ء کی دہائی تک دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں شمار ہونے والی پی آئی اے ضیاء الحق کے دور کے بعد نئے جمہوری دور میں داخل ہونے پر اس حال تک کیونکر پہنچی کہ اپنے منافع بخش روٹس تک بیچنے کیلئے مجبور ہوگئی؟ کس نے پی آئی اے کو کراچی واٹر بورڈ سمجھے رکھا؟ کس نے پی آئی اے کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے اپنے مزارعے اس میں بھرتی کردیے جو گھر بیٹھے لاکھوں روپے تنخواہ وصول کرتے رہے؟کون برسوں سے طیاروں کا اربوں روپے ماہانہ کا ایندھن ”پینے‘‘ میں ملوث رہا اور اور کس کس نے مسافروں کا کھانا ”ڈکارنے‘‘ میں بھی شرمندگی محسوس نہ کی۔اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بناکر اْسے ذمہ داری سونپی جاتی کہ اُن مجرموں کو ڈھونڈ کر قوم کے سامنے پیش کرے جنہوں نے تباہی کے رن وے پر سرپٹ دوڑتے پی آئی اے کو مکمل ”گراؤنڈ‘‘ ہونے پر مجبور کردیا۔ کمیشن یہ بھی دیکھے کہ کس نے پی آئی اے کو بحیثیت ادارہ ”ٹربولینس‘‘ کا شکار کیا؟
قارئین کرام!! قوم ابھی تک بحیثیت ادارہ ہی پی آئی اے کے ٹربولینس کا شکار ہونے پر ہی صدمے سے دوچار تھی کہ چترال سے اسلام آباد واپسی کے راستے میں حویلیاں کے مقام پر گر کر تباہ ہونے والے پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے کے حادثے نے پوری قوم کو انتہائی دکھی کرکے رکھ دیا، یہ بلا شبہ ایک اندوہناک اور المناک حادثہ تھاجس میں اڑتالیس قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔حادثہ ہوگیا، لیکن حادثے کی درست وجوہ جان کر آئندہ کیلئے فضائی سفر کو مزید محفوظ بنانے کیلئے عملی اقدام کرنے کی بجائے بیانات کے ذریعے معاملے کو الجھانے کی کوشش شروع کر دی گئی۔ اے ٹی آر طیارے محفوظ ہیں یا نہیں؟ اس طرح کے سوالات وہ لوگ اٹھارہے ہیں، جنہوں نے زندگی بھر کبھی فضائی سفر بھی نہیں کیا اور جہاں ایئر بلیو اور بھوجہ ایئر لائن کے حادثے کی مکمل تحقیقات ابھی تک سامنے نہیں آسکیں وہاں پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے کے بارے میں ایسے متنازع امورسامنے لانے سے صاف لگتا ہے کہ اس بار پھر حادثے سے بڑا سانحہ ہوچکا ہے۔