منتخب کردہ کالم

حالت جنگ کا سپاہ سالار…منیر احمد بلوچ

ہماری قومی زندگی میں آرمی چیف کے انتخاب کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی صدر مملکت اور وزیر اعظم کے انتخاب کی۔ شائد یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ہاں آرمی چیف کے تقرر کے موقع پر قومی سطح پر لا متناہی بحث شروع ہو جانے سے ہر قسم کے اداکاروں کی فنکار یاں بھی عروج پر پہنچ جاتی ہیں جو فوج کے اندرونی ماحول کے لئے کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہوتیں۔اعتراض بہت ہیں کہ ابھی تو دس ماہ پڑے ہیںتوسیع اور ریٹائر منٹ کی باتیں اتنی پہلے کیوں؟۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو تو بار بار توسیع مل رہی ہے۔ کیا پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو پنجاب کی اس عظیم اور تاریخی یونیورسٹی کو چلا سکے؟۔ سپہ سالارکی ریٹائرمنٹ یا توسیع بارے خلفائے راشدین کی نسبت سے حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کی جگہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓکی تعیناتی کے حوالے دیئے جا رہے ہیں اس لئے کالم کی ابتدا انہی قابل احترام ہستیوں کے حوالے سے کررہا ہوں۔
18 ہجری اور جنوری 639عیسوی میں فلسطین کے ایک قصبے عمواس سے طاعون کی ایسی وبا اٹھی جو دیکھتے ہی دیکھتے فلسطین اور شام تک پھیل گئی لوگ بڑی تیزی سے مرنے لگے امیر المومنین حضرت عمرؓ تھے اور وبا زدہ علا قوں کے سپہ سالار ابو عبیدہؓ۔ حضرت عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو پیغام بھیجا کہ طاعون سے بچنے کیلئے سپہ سالا ری چھوڑ کر مدینہ واپس آ جائو۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے جواب بھیجا کہ میرے جن ساتھیوں نے میدان جنگ میں کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا انہیں میں طاعون کی وجہ سے کس طرح چھوڑ کرواپس آ جائوں۔۔۔۔! کیا آج بلوچستان، کراچی، جنوبی اور شمالی وزیرستان سمیت پنجاب کے اندر چاروں طرف دشمن اور اس کے ایجنٹوں کی طرف سے جاری ہولناک دہشت گردی کسی طور پر بھی طاعون سے کم ہے؟۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اور کمانڈ پر موافقت اور مخالفت میں ہر کوئی یہ ضرور لکھ رہا ہے کہ وہ جنرل وحید کاکڑ کی طرح سیا ست سے دور رہے ؟یہ غلط ہے کہ جنرل کاکڑ سیا ست سے دور رہے ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی نرم گفتاری کی وجہ سے خاصے مقبول تھے۔ 1993ء میں سپریم کورٹ نے جب صدر غلام اسحاق کی طرف سے میاں نواز شریف کی معزول حکومت بحال کی تو اپنا مقدمہ جیتنے کے بعد نواز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے ہی پنجاب میں میاں اظہر کو بطور ایڈمنسٹریٹر اقتدار سنبھالنے کیلئے کہا تو اس موقع پر غلام اسحاق کے کہنے پر جنرل وحیدکاکڑ نے کور کمانڈر لاہور جنرل ہمایوں بنگش کے ذریعے پنجاب کی سیا ست میں فیصلہ کن کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں چوہدری الطاف حسین گورنر پنجاب بننے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد پی پی پی نے نواز شریف کی حکومت گرانے کیلئے لانگ مارچ کی حکمت عملی شروع کی تو اس وقت بھی جنرل کاکڑ کا کردار سامنے آیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو لانگ مارچ کی قیا دت کرنے کی بجائے ایک فوجی طیارے میں سوار ہو کر راولپنڈی میں فوج کے دھمیال کیمپ میں جا اتریں۔منافقت پسند نہیں اس لئے کھل کر کہہ رہا ہوں کہ فوجی سربراہ کی سیا ست سے علیحدگی کا تصور ہی غیر اسلامی ہے جس طرح جنرل کاکڑ سیاست سے دور نہیں تھے اس طرح جنرل راحیل بھی سیا ست سے دور نہیں ہیں ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ تخریبی سیاست سے کوسوں دور رہنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں ۔ ٹی وی کی سکرینوں پر براجمان
”دانشور اور تجزیہ نگار‘‘کیا نہیں جانتے کہ میاںشہباز شریف ، اسحاق ڈار اور چوہدری نثار علی خان اس ایشو پر وقفے وقفے سے جنرل راحیل سے کتنی ملاقاتیں کر چکے ہیں؟ ۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے آرمی چیف کی حیثیت سے اب تک بہت ہی مثبت سیا ست کی ہے منافقت نہیں کی۔انہوں نے کراچی میں امن کی بحالی کے لیے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے عوام کو اعتماد میں لیا اور وہ بھی اس لیے کہ یہ فیصلہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی اس جنگ کے تناظر میں تھا جس کے زخم پاکستان اور اس کے قانون نافذ کرنے والے سب ادارے اپنے اپنے سینوں پر سہہ رہے ہیں۔ قومی اہمیت کے ہر ادارے خواہ وہ عسکری ہوں عدالتی یا انتظامی ان کے امور اور پالیسیوں میں مداخلت اور ان میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش ہمارے سیاست دانوں کی روایت بن چکی ہے۔ ہر وزیر اعظم کی کوشش ہوتی ہے کہ صوبوں سے لے کر مرکز تک ہر چیف ان کا اپنا ہو؟۔ اگر آپ اخبارات دیکھتے ہیں تو چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری پر ان کا ایک مختصر سا تعارف چھپتا ہے کہ آنے والا” پیشہ ور سپاہی‘‘ہے۔ اہل عقل و فراست یہ فرض کرنے میں حق بجانب ہوتے تھے کہ جو شخص تیس سال سے زیا دہ فوجی خدمات اور ہزاروں افسران سے مقابلے کے بعد جنرل کے عہدے تک پہنچا ہے وہ یقیناََ ایک پیشہ ور سپاہی ہی ہو گا۔ لیکن کچھ عرصہ سے کثرت سے تاثر دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ فوجی صرف سیا ست کے میدان میں” پیشہ ور ‘‘ اور سپاہ گری کے میدان میں گویا شوقیہ فنکار ہیں لہذا اگر معاملہ الٹا نکلے تو اس کی تشہیر عین ثواب ہے دیکھا جائے تو تعریف کا یہ پہلو بھی” پیشہ ور‘‘ صحافیوں کی ایجاد ہے ورنہ پاکستانی فوج کا اﷲکے فضل سے اب بھی اتنا مضبوط ادارہ ہے کہ وہاں ایک سپاہی سے لے کرچار سٹار کے عہدے تک پہنچنے والا صرف پیشہ ور سپاہی ہی ہو سکتا ہے ۔جنرل راحیل کی توسیع پر معترض حضرات کو مختلف وقتوں کے عساکر پاکستان کے دور اقتدار سے شکایات ہو سکتی ہیں لیکن جس طرح خلافت راشدہ کا نظام افراد ہی کے ذریعہ مثالی بنا اور پھر افراد ہی کے ہاتھوں تباہ ہوا مگر دور بنی امیہ میں اسی ملوکیت پر مبنی نظام میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ بر سر اقتدار آئے تو پورے نظام کی کایا پلٹ گئی اور خلافت راشدہ کے مناظر پھر نگاہوں کے سامنے آ گئے جنرل راحیل کو بھی ہمیں اسی تنا ظر میں دیکھنا چاہئے کیونکہ پاکستان کا عام شہری اپنے حکمران اور سپہ سالار کے ذاتی کردار کو بڑی اہمیت دیتا ہے اس کی ترجیحات میں با اخلاق اور با کردار حکمران یا سپہ سالار بہتر
نظام حکومت پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ وہ بد اخلاق فیصلہ سازوں کے ہاتھوں بہتر نظام حکومت تباہ ہوتے دیکھ چکے ہیں۔ آرمی چیف کو سیاست میں دخل دینا چا ہئے یا نہیں؟اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ سیاست کیا ہے؟ پاکستانی فوج اب ادارے کی حیثیت سے قومی معیشت میں اپنے قدم جما چکی ہے اور جو معیشت میں داخل ہوتا ہے وہ سیاست سے علیحدہ نہیںرہ سکتا اگر یہ حقیقت قصیدہ گو حضرات کیلئے غیر شعوری ہے تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ معیشت ایک کشتی ہے اور سیاست اسے چلانے کا ہنر۔ آج ہائوسنگ، کنسٹرکشن، ٹرانسپورٹ، صنعتی پروڈکشن اور بینکنگ سمیت فوج کے اس کارپوریٹ تصور کو سامنے رکھیں۔ کشتی کی مثال سامنے رکھیں تو یہ بھی سوچیں کہ اگر مالکان کی دھینگا مشتی کے نتیجے میں کشتی غرق ہونے والی ہو تو ملاح کی جان بھی جائے گی اور اس کا جو کچھ سامان کشتی پر ہے وہ بھی غرق ہو جائے گا۔ جنرل راحیل بے شک اپنے مقررہ وقت پر فوج سے ریٹائر ہو جائیں لیکن ایک بات سامنے رکھیں کہ اگر ان کا آپریشن نجات صرف کراچی تک ہی محدود رہا تو تاریخ ان سے ہمیشہ شکوہ کرتی رہے گی اور ان کا یک طرفہ عمل سندھ میں نفرت کے وہ بیج بو سکتا ہے جس کا سامنا آنے والے وقتوں میں ہو سکتا ہے کہ اچھا نہ ہو؟۔ اس وقت عوام کا بھر پور مینڈیٹ جنرل راحیل کے ساتھ ہے ۔۔اگر جنرل راحیل نے کراچی سمیت سندھ اور پنجاب سے معاشی دہشت گردی اور بدمعاشی دہشت گردی کو اپنے اس مقررہ وقت میں ختم نہ کیا تو پھر کسی اور کے ہاتھ میں اس قسم کا عوامی مینڈیٹ شائد کبھی نہیں آ سکے کیونکہ جب امیدیںٹوٹ جاتی ہیں تو پھر اعتماد بھی ختم ہو جاتا ہے