منتخب کردہ کالم

حنییف محمد…کالم امجد اسلام امجد

کرکٹ ہی کیا کھیلوں کی عالمی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہو جس کے چار سگے بھائیوں نے اعلیٰ ترین سطح پر اپنے ملک کی نمایندگی کی ہو، حال ہی میں ہم سے جدا ہونے والے عظیم کرکٹر حنیف محمد کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ نہ صرف ان کے تین بھائی وزیر محمد‘ مشتاق محمد اور صادق محمد پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلے بلکہ ان کا بیٹا شعیب محمد بھی اس اعزاز کا مستحق ٹھہرا‘ کہا جاتا ہے کہ اگر ان کے پانچویں بھائی رئیس محمد بھی تھوڑی سی محنت اور کرتے تو وہ بھی اس صف میں شامل ہو سکتے تھے۔

اگرچہ مشتاق محمد اور کسی حد تک شعیب محمد اسپن بالنگ بھی کرتے تھے لیکن بنیادی طور پر یہ سب کے سب اعلیٰ درجے کے بیٹسمین ہی تھے لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ’’فخر ہوتا ہے قبیلے کا سدا ایک ہی شخص‘‘ تو یہ اعزاز ہر اعتبار سے حنیف صاحب کا ہی بنتا ہے۔ وہ ابھی اسکول ہی میں تھے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ اور اس کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں آ گئے جس کا بہت سا کریڈٹ ان کے کوچ ماسٹر عزیز کو بھی جاتا ہے جن کی محنت اور رہنمائی کے باعث وہ اٹھارہ سال کی عمر سے بھی پہلے نہ صرف ٹیسٹ کھلاڑی بن گئے بلکہ اگلے تقریباً سترہ برس تک مسلسل پاکستان کی نمایندگی کرتے رہے۔

انھوں نے پاکستان کی طرف سے پہلی ٹرپل سنچری ایک ایسی صورت حال میں بنائی اور ایک سو فی صد ہارا ہوا میچ ڈرا کرانے میں کامیاب ہوئے جس کی دوسری مثال پوری تاریخ کرکٹ میں نہیں ملتی ،اسی اننگز کے دوران انھوں نے سولہ گھنٹے 39منٹ مسلسل بیٹنگ کر کے طویل ترین اننگز کھیلنے کا جو ریکارڈ بنایا وہ آج بھی قائم ہے اور شاید فرسٹ کلاس کرکٹ کی ایک اننگز میں 499رنز بنانے کا ریکارڈ بھی قائم رہتا اگر برائن لارا راستے میں نہ آ جاتے، اٹھارہ انیس سال کے طویل کیرئیر میں وہ صرف 55ٹیسٹ کھیل پائے کہ ان کے زمانے میں ٹیسٹ کرکٹ نسبتاً کم ہوا کرتی تھی وہ ایک ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری اسکور کرنے والے پہلے پاکستانی کرکٹر بھی بنے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کرکٹ کے پہلے پندرہ برسوں میں کارکردگی کے حوالے سے سوائے فضل محمود مرحوم کے کوئی دوسرا کھلاڑی ان کا ہم پلہ نہیں ٹھہرتا اور وہ صحیح معنوں میں ایک لیجنڈ کہلانے کے حق دار تھے۔

کرکٹ سے وابستگی اور شوق کی وجہ سے میں نے ان کی چند اننگز میدان میں اور بہت سی ریکارڈنگ کی شکل میں دیکھی ہیں اور مجھے ان کے ساتھ ملاقات‘ گفتگو اور بیرون ملک سفر کا موقع بھی ملا ہے، وہ ایک ملنسار اور خوش طبع شخصیت کے حامل تھے درسی تعلیم کی کمی انھوں نے غیرملکی دوروں سے حاصل کردہ تجربات اور مشاہدات سے پوری کی، ان کا انداز گفتگو نہ صرف بہت سلجھا ہوا تھا بلکہ زبان بھی اپنے بھائیوں کی نسبت زیادہ صاف تھی۔ ایک ہوائی سفر کے دوران انھوں نے مجھے کئی دلچسپ اور مزیدار قصے سنائے جن میں سے ایک تو ایسا ہے کہ اس کی Punch line کو ہم نے اپنے احباب کے حلقے میں ایک سند کے طور پر رائج کر دیا ہے۔

وہ لائن اور وہ قصہ کچھ یوں تھا‘ کہنے لگے کہ 1954 کے دورہ انگلستان کے وقت چند ایک کو چھوڑ کر باقی کھلاڑیوں کی انگریزی واجبی سی تھی سو انگریزوں کے لہجے کو سمجھنا اور انھیں انگریزی میں جواب دینا ان سمیت کئی ساتھیوں کے لیے ایک امتحان سے کم نہ تھا، دورہ تقریباً چار مہینے کا تھا اور اس زمانے میں انگلستان میں حلال‘ ذبیحہ اور دیسی کھانے کا حصول ایک مہم سے کم نہ تھا، انھیں بتایا گیا کہ صرف Fish & Chips ہی ان کے لیے محفوظ غذا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہر روز دو وقت فش اینڈ چپس کھا کھا کر ان کا برا حال ہو گیا سو دو دوستوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا گیا کہ جیب خرچ سے ملنے والی رقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہیں باہر چل کر کوئی بہتر اور مختلف چیز کھائی جائے۔ ایک پب نما ریستوران میں پہنچے تو بیرے نے ان کے سامنے ایک مینو کارڈ رکھ دیا بیشتر اشیائے خوردنی کے نام ان کے لیے اجنبی تھے سو انھوں نے اندازے سے ایک آئٹم پر انگلی رکھ کر کہا۔ This۔ وہ کوئی اسٹیک نما ڈش تھی۔ بیرے نے اپنے خالص Slang لہجے میں پوچھا

Sir, would you like it half done or well done سب نے سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو سب یک زبان ہو کر بولے Ok ok fish and chips

آخری بار کوئی پندرہ برس قبل ان سے ایک تقریب میں سلام دعا ہوئی بہت اسمارٹ لگ رہے تھے جب میں نے انھیں یہ Fish & chips والا واقعہ یاد دلایا تو بہت ہنسے اور میری فرمائش پر اسے دوبارہ سنایا۔ بدقسمتی سے اب یہ اسپورٹس مین شپ اور خود پر ہنس سکنے کی صلاحیت معاشرے کے عام افراد کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں میں بھی عنقا ہوتی جا رہی ہے۔

اگر مجھے ٹھیک سے یاد ہے تو 1954 کا تاریخی اوول ٹیسٹ بھی اگست ہی کے مہینے میں ہوا تھا اور اس Low Scoring میچ میں بھی ان کا حصہ فضل محمود کے بعد سب سے زیادہ تھا اور یاد رہے کہ اس زمانے میں اوپنرز کو ٹائسن اور ٹرومین‘ ملر اور لنڈوال اور ہال اور گل گرسٹ کی طوفانی گیندوں کا سامنا بغیر کسی اضافی حفاظتی سامان کے کرنا پڑتا تھا۔ وہ لٹل ماسٹر کے توصیفی نام سے بھی جانے جاتے تھے اور بہت محتاط اور غیر جذباتی انداز میں بیٹنگ کرتے تھے۔ پاکستان کی طرف سے پچاس سے زیادہ ٹیسٹ کھیلنے والوں میں سست رفتاری سے بیٹنگ کرنے والوں میں شاید مدثر نذر اور مصباح الحق ہی ان کی صف میں کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔پاکستان نے اولین باہمی مقابلوں میں اس زمانے کی چاروں بڑی ٹیموں آسٹریلیا‘ انگلینڈ‘ بھارت اور ویسٹ انڈیز کو کم از کم ایک ٹیسٹ میں ضرور شکست دی اور ہر موقعے پر حنیف محمد نہ صرف ٹیم میں شامل تھے بلکہ ان کا شمار فتح گر کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔

آج وہ عظیم اور تاریخ ساز کھلاڑی سفید پیڈوں کی جگہ سفید کفن پہن کر ایک ایسی اننگز کے لیے دنیا کے پیویلین سے نکل کر اس میدان کی طرف روانہ ہو چکا ہے جہاں کامیابی کے معیار اگرچہ مختلف ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ اپنے کروڑوں بندوں کو خوش اور محظوظ کرنے کے صدقے میں رب کریم وہاں بھی ان پر اپنی رحمت کا سائبان اور سایا کشادہ رکھیں گے کہ بقول اقبال

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا