منتخب کردہ کالم

حکومت‘ ریاست اورعوام…ڈاکٹرلال خان

حکومت‘ ریاست اورعوام…ڈاکٹرلال خان
راولپنڈی اسلام آباد کے وسط میں فیض آباد کے مقام پر ہونے والا دھرنا تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔ اس میں حکومت کمزور اور بے بس دکھائی دیتی ہے اور ریاست مداخلت کرنے سے گریزاں ہے۔ عوام کی روزمرہ زندگی جڑواں شہروں میں مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر ہم غور کریں تو پچھلے کئی سالوں سے زیادہ تر احتجاج دھرنوں کی شکل میں تبدیل ہو گئے‘ اور ان دھرنوں کی برصغیر میں ریت سب پہلے حالیہ تاریخ میں موہن داس گاندھی نے ڈالی تھی۔ عمومی طور پر دھرنوں کی سیاست درمیانے طبقات اور دائیں بازو کی تحریکوں اور پارٹیوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ لیکن اسی عرصے میں جب سے دھرنوں کی سیاست پاکستان میں عام ہوئی ہے تو ہمیںکچھ مزدوروں کے احتجاج بھی ملتے ہیں۔ محنت کشوں کے احتجاج ہڑتالوں‘ مظاہروں اور انقلابی سرکشیوں تک جاتے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی مزدوروں کے احتجاج ہوتے ہیں تو حکومتوں اور ریاست کے اداروں میں ان کو کچلنے کے مسئلہ پر کبھی کوئی اختلاف یا تنازعہ سامنے نہیں آیا۔ اس کی سب سے اہم مثال ہمیں عمران خان کے ”طویل‘‘ دھرنے کے دوران ملتی ہے‘ جب آئل اینڈ گیس کارپوریشن کے مزدوروں نے اپنی معاشی اور سماجی مانگوں کے لئے بڑے مظاہرے کیے تھے‘ لیکن اس مظاہرے پر پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں نے جس بے دردی سے تشدد کیا‘ وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ وقتی طور پر اس مظاہرے کو منشتر کر دیا گیا تھا‘ لیکن چونکہ ان محنت کشوں میں ایک تحرک پیدا ہو گیا تھا‘ اس لئے دوسرے عناصر کے ساتھ ساتھ یہ مزاحمت اس کی نجکاری کو رکوانے میں وقتی طور پر کامیاب رہی ہے۔ یہی صورتحال ہمیں ملک بھر میں واپڈا کے مزدوروں‘ نرسوں‘ اساتذہ‘ کسانوں اور دیگر مختلف شعبوں کی تحریکوں کو کچلنے کے عمل میں ریاست اور حکومت کے گہرے اتفاق میں نظر آئی۔ 2016ء کی پی آئی اے کی ہڑتال‘ جس نے تمام جہازوں کو گرائونڈ کر دیا تھا اور ہوا بازی کو تقریباً جام کرکے رکھ دیا تھا‘ ایک طرف جبر اور دوسری طرف حکمرانوں کی ریا کاری‘ دھوکہ دہی اور کسی حد تک قیادت کی کمزوری کی وجہ سے پسپائی کا شکار ہوگئی تھی۔ لیکن اس کی یہ کامیابی ضرور ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ گو اس میں حکومتی چالیں اور مفادات بھی ہیں لیکن وسیع تر نجکاری نہ کر سکنے میں جہاں اقتصادی وجوہات ہیں‘ وہاں محنت کشوں کی جدوجہد اور مزاحمت آج بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن احتجاج کی طبقاتی اور نظریاتی تفریق اس وقت سامنے آئی جب وہی پولیس اور سکیورٹی ادارے اسلام آباد میں دور دراز سے آئے مزدوروں کے احتجاجی مظاہرے پر تو لاٹھیاں برسا رہے تھے‘ اور ہر طرح سے ان کو کچل رہے تھے لیکن قادری اور عمران کے دھرنوں کے سامنے یہ یہی ادارے بے بس اور مفلوج بنے ان کے حفاظتی دستے لگ رہے تھے۔ شاید یہاں حکومت اور ریاست میں اتفاق نہیں تھا۔ سرمایہ دارانہ ریاست ایک مستقل ادارہ ہے جس میں مختلف حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ اس ”جدید‘‘ ادارے کی تشکیل سب سے پہلے یورپ کے 17ویں صدی میں شروع ہونے والے بورژوا یا قومی جمہوری انقلابات سے ہوئی تھی۔ پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں یہ سیاست‘ پارلیمنٹ اور ریاست ترقی یافتہ ممالک کی سرمایہ دارانہ ریاستوں کا ایک چربہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کے حکمران سرمایہ دارانہ طبقات تاریخی اور اقتصادی طور پر اتنے نحیف تھے کہ وہ ایک صحت مند اور کامیاب صنعتی یا قومی انقلاب کی تکمیل ہی نہیں کر سکے۔ اس نیم جاگیردارانہ معیشت اور سماجی ڈھانچے پر جو ریاست استوار ہوتی ہے وہ اسی کی عکاسی کرتی ہے۔ جیسے یہاں کی معیشت مستحکم نہیں ہے اسی طرح اس پر براجمان سیاسی اور ریاستی ادارے بھی مسلسل عدم استحکام کا شکار رہتے ہیں۔ چونکہ پاکستان کے بالا دست طبقات کو اپنی سماجی اور سیاسی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی اقتصادی اور کاروباری سرگرمیوں میں ناگزیر طور پر بدعنوانی‘ خزانے سے چوری‘ قرضوں کو معاف کروانے اور ریاستی تحفظ میں یہ وارداتیں کرنی پڑتی ہیں اس لئے ان کے سیاسی نمائندے بھی ریاست کے اداروں کے سامنے داغدار ہوتے ہیں۔ ان کی جو اسمبلیاں اور حکومتیں بنتی ہیں وہ ان کی اس اقتصادی بد کرداری کی وجہ سے ریاست پر اپنا پورا اختیار رکھنے سے عاری ہوتی ہیں۔ جب ہمارے معاشرے پر مسلط تجزیہ کار مفکر اور سیاستدان نظام کے خاتمے یا اس کو بچانے کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد محض سطحی سیاسی حکومتی طریقہ کار اور ڈھانچے ہی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بحران بڑھتا ہے اور اس سے سیاسی انتشار اور سماجی عدم استحکام شدت پکڑتے ہیں تو حکمرانوں کے مختلف دھڑوں میں تنائو اور تصادم بڑھتے ہیں۔ مفادات کے یہ ٹکرائو مختلف داخلی اور خارجی پالیسیوں میں حکومتی اور ریاستی اختلافات کی شکل میں ابھرتے اور پھٹتے ہیں‘ جس سے حکومتیں اکثر معزول ہو جاتی ہیں اور اداروں میں اندرونی تضادات ابھرنے لگتے ہیں۔ چونکہ اس نظام کی اصل معاشی اور سماجی بنیادیں کمزور ہیں‘ اس لیے ان پر استوار کردہ حکومتی اور ریاستی اداروں کے ڈھانچے بھی مستحکم اور یکجا نہیں رہتے۔
مزدوروں کی تحریکوں اور مظاہروں میں بہت کم ایسے ہوتا ہے کہ محنت کش ایک دوسرے کا خون کریں۔ اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا بھی ہے تو وہ ایسے اشتعال انگیز ایجنٹوں کے ذریعے کروایا جاتا ہے جن کو سرمایہ دار یا حکمران ان تحریکوں میں خفیہ انداز میں داخل کرواتے ہیں۔ جبکہ یہی بات ایسے دھرنوں اور مظاہروں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی جن کی بنیاد کچھ اور ہو۔ پھر محنت کشوں کی تحریکیں جن مطالبات کے لئے ابھرتی ہیں وہ زیادہ تر اجرتوں میں اضافے‘ ملازمتوں کے تحفظ اور دوسرے معاشی مسائل کے حل کے لئے بنتی ہیں۔ کئی مرتبہ تو کچھ مطالبات مان کر مذاکرات کے ذریعے ان تحریکوں اور ہڑتالوں کو ختم کروایا جاتا ہے اور پھر حکمران بعد میں مانے ہوئے مطالبات کو پورا کرنے سے آرام سے مکر جاتے ہیں۔ لیکن ریاستی اور حکومتی طاقتیں ان کے بارے میں کوئی ہمدردی یا اپنائیت نہیں رکھتیں اور کچلنے میں کم از کم اعلیٰ افسران اور حاکمیت کے سربراہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ لیکن بعض اوقات محنت کشوں کی تحریکیں معاشی مطالبات سے آگے بڑھ جاتی ہیں جب وہ وسیع تر اداروں‘ شعبوں‘ شہروں اور ملک کے بیشتر علاقوں میں پھیل جاتی ہیں تو نہ صرف جابر حکمرانوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہیں بلکہ تحریک میں ایک معیاری تبدیلی کے ذریعے یہی محنت کش پہلے پورے نظام کو بدلنے کا مطالبہ کرتے کرتے خود منظم ہو کر اس کو اکھاڑ تے ہوئے ایک متبادل مزدور راج کو جنم بھی دے دیتے ہیں۔ ایسے واقعات اور تبدیلیوں کو ہی انقلاب کہتے ہیں۔ موجودہ دھرنے کو ختم کرنے کا شور سب ڈال رہے ہیں‘ لیکن عملی طور پر اس کو اس ریاستی انداز میں ختم کرنے کا کسی کا ارادہ نہیں ہے جس طرح یہ حکمران محنت کش طبقے کی تحریکوں کو کچلتے ہیں‘ کیونکہ ایسی تحریکوں سے ان کے اقتدار اور مالیاتی ملکیت کے رشتوں کے خاتمے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ایسے میں حکمران ریاست‘ سیاست لبرل و قدامت پرست سبھی اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان سب کا نظام اور مفادات یہاں مشترک ہیں۔ دھرنے کے مسئلہ پر حاکمیت کے مختلف اداروں کے درمیان تضادات کھل کر سامنے آ گئے ہیں‘ جو بنیادی طور پر اس نظام زر کے بحران کی اس شدت کی عکاسی کرتے ہیں جس نے اس پر قائم اداروں کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔ ایسے میں اگر محنت کشوں کی طبقاتی بنیادوں پر منظم تحریک پھوٹ پڑی تو پھر وہ اس بوسیدہ نظام کو بدل کر ہی دم لیں گے‘ جس نے ان کو نسل در نسل اس محکومی اور محرومی کی ذلتوں میں تڑپایا ہے۔