منتخب کردہ کالم

خانۂ خالی را دیو می گیرد….ھارون الرشید

افلاس ہی افلاس

خانۂ خالی را دیو می گیرد….ھارون الرشید

تفصیل نہ پوچھ‘ ہیں اشارے کافی/ یونہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں۔
ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ سب کے سب ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ایک سروے‘ دوسرا اور پھر تیسرا! کسی سروے میں تحریکِ انصاف کی سیٹیں 80 سے کم تھیں‘ کسی میں ڈیڑھ سو سے زیادہ۔ یہی حال مسلم لیگ کا۔ کوئی طاقت پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کا راستہ روک نہیں سکتی۔ دوسرا بزرجمہر خبر دیتا ہے کہ الیکشن کے فوراً بعد اس کا ایک بڑا گروپ فارورڈ بلاک میں ڈھل جائے گا۔ پختون خوا میں ٹی وی کیمروں کے ساتھ گھوم پھر کے جائزہ لینے والوں کی اکثریت کہتی ہے کہ تحریکِ انصاف ایک طوفان بن چکی۔ ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔ ادھر یہ اطلاع موصول ہوتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی تباہ کر دینے والی بصیرت بروئے کار ہے۔ سوات میں ایم ایم اے کا امیدوار شہباز شریف کے حق میں دستبردار ہو گیا۔ باقی سیٹوں پر بھی مختلف جماعتوں میں مفاہمت ہو جائے گی۔ پنجاب تو رہا ایک طرف‘ عمران خان کو خود اپنے صوبے میں ہزیمت سے واسطہ پڑے گا۔ اللہ اللہ خیر سلا!
ابھی چند دن پہلے تک پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر کھڑی تھیں۔ اس ناچیز کو خبر ملی کہ سرحد پار کے ایما پر سرگرم رہنے والے ایک دانشور کے ہاں‘ جناب زرداری اور میاں صاحب کی ملاقات ہوئی ہے۔ اپنے دوست سے کرید کرید کر پوچھا تھا: بھائی‘ کیا پوری طرح آپ نے تصدیق کر لی ہے۔ اخبار نویسوں نے‘ ملک بھر کے اخبار نویسوں نے شک بھری نظروں سے میری طرف دیکھا کہ کیسی بے تکی ہانک رہا ہے۔ بے پر کی اڑا رہا ہے۔ عرض کیا: سیاسی حرکیات کے شناور تو آپ ہیں۔ گھر سے باہر نکلنا بھی شاذ ہوتا ہے‘ پکا اور پختہ قسم کا تجزیہ تو آپ ہی کر سکتے ہیں۔ خبر لیکن سچی ہے۔ بلاول بھٹو سمیت اب علانیہ لیڈر قسم کے کئی لوگ مانتے ہیں کہ مفاہمت ممکن ہے… کئی ایک پارٹیوں میں!
سچی بات یہ ہے کہ سمندر یا صحرا میں راستہ کھو دینے والوں کی طرح‘ کسی کو بھی سمت کا ادراک نہیں‘ منزل تو دُور کی بات ہے۔ بس یہ معلوم ہے کہ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری پارٹی نے سپر ڈال دی ہے۔ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے خطے میں‘ لشکروں کے لشکر ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ ایسی آندھی چلی ہے کہ کسی آنکھ اور کسی نظر کا نور ہم نوا نہیں۔ سیاستدان سمجھ نہ سکے اور طوفانِ بلا خیز‘ بستیوں کو پامال کرتا گزر گیا۔ کہنے کو ساری کہانی دو چار جملوں میں بیان کی جا سکتی ہے۔ پورا سچ سننے کا حوصلہ مگر کس میں ہے؟ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول کی ایک اور جہت جگمگاتی ہے: ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار ہے۔
2008ء کے الیکشن ہو چکے‘ تو فوج کے سربراہ نے ایک ادارے کا سیاسی سیل بند کرنے کا حکم دیا۔ جمہوریت بحال ہوئی اور پوری طرح۔ مغضوب فوج کا وقار بھی۔ اب اس کی ضرورت کیا ہے۔ سب راستے سلطانیٔ جمہور کے وفور سے روشن ہیں۔
جس سمت کو چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا
مزید چند دن گزرے تو لاہور جانا ہوا۔ گھبرائے ہوئے ایک ممتاز کاروباری تشریف لائے۔ ”یہ کیا ہوا‘ ارے بھائی یہ کیا ہوا‘‘ گفتگو کے زیرو بم میں پھولی ہوئی سانس کا مدوجزر تھا۔ پانی پلایا‘ چائے کی پیالی پیش کی۔ خیال کی آمدورفت قدرے بحال ہوئی تو بتایا: فلاں اور فلاں ارب پتی‘ اسلام آباد طلب کئے گئے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ جن برسوں میں جلا وطن رہے‘ ان کا حساب دیجئے۔ ہمارا حصہ ہمارے حوالے کر دیجئے۔ کہا کہ کاروباری برادری پریشان ہے۔ اب کیا ہو گا۔ ایک معمولی اخبار نویس انہیں کیا بتاتا۔ کاروباری دنیا سے سول حکمرانوں کے تعلق کی نوعیت کا رتی برابر علم بھی اسے نہ تھا۔ کس کا کس سے کیا پیمان ہے۔ لین دین کے سلسلے میں رسوم و رواج کیا ہیں۔ کس کا حصہ رسدی کس قدر ہوتا ہے‘ کس پیمانے سے پیمائش کی جاتی ہے… وہ کیا بتاتا۔ الٹا اپنی بے خبری کو کوستا رہا‘ اس کا ماتم کرتا رہا۔
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہگزر کو کیا خبر ہے
کوئی دن میں نگرانی کرنے والے پھر سے مستعد کر دیئے گئے۔ ایک ایک ہرکارہ بروئے کار آ گیا۔ ایک ایک گوشوارہ پھر سے مرتب کیا جانے لگا۔ لوٹ مار کی وہی کہانیاں‘ الزامات کی وہی بارش‘ وہی گریہ و فریاد۔ حیدر علی آتشؔ کا شعر ہمیشہ سے سوزِ دروں کی بے پناہی کا استعارہ تھا۔ اب اس کے دروبست میں کچھ اور ہی مفاہیم جھلکنے لگے۔
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار‘ میں چلائوں ہائے دل!
سوات کی سرسبز وادیوں میں دہشت گردی کا عفریت زندگیاں نگل رہا تھا۔ بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھا کہ اسلام آباد میں اس کی پھنکار سنائی دینے لگی۔ سپہ سالار نے ایک دن بیس اخبار نویسوں کو مدعو کیا۔ متین آدمی نے بالکل نہ کہا کہ احتیاط اس کی خو تھا۔ مگر یہ بات بالکل واضح تھی کہ علما کرام کے عرصۂ اقتدار نے دہشت گردی کے سنپولیوں کو اژدھے بنا دیا ہے۔ قصبات میں سرِِ عام پھانسیاں دی جاتی تھیں۔ صرف ایک شہر میں دو سو بچیوں کی شادیاں ”مجاہدین‘‘ سے کر دی گئیں۔ کمانڈروں نے علاقے بانٹ رکھے تھے اور ان میں سے ہر ایک کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ قبائلی علاقے میں فوج کے ایک دستے کو یرغمال بنا لیا گیا‘ مشکل سے جس کی رہائی کا بندوبست ہو سکا۔ اب کیا ہو گا؟
مطالبہ یہ تھا کہ وادی میں شرعی قوانین نافذ کئے جائیں۔ قاضیوں کی عدالتیں قائم کی جائیں۔ ملک بھر میں عدالتی نظام کی اصلاح کرنے کی بجائے‘ صرف اس ایک علاقے میں اسلام نافذ کر دیا جائے۔ افواج اپنے شہریوں سے تصادم کو ٹال رہی تھیں۔ علما محترم کا تو ذکر ہی کیا کہ ملالہ کے سر پہ گولیاں برسائی گئیں تو انہوں نے اسے ڈرامہ قرار دیا تھا۔ سیاسی لیڈروں کا حال یہ تھا کہ ایک نے پشاور میں مجاہدین کا دفتر کھولنے کی تجویز دی۔ دوسرے نے اعلان کیا: ہمارے صوبے کو چھوڑ دیا جائے‘ یعنی قتلِ عام کا ارادہ ہے تو دوسرے خطوں میں جی بہلانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
اسلامی نظام‘ ایک وادی کی حدود میں شرعی قوانین نافذ کر دیئے گئے۔ قاضی عدالتوں کے قیام کا سمجھوتہ ہوا۔ خوش دلی سے فریقین نے دستخط کئے۔ ا گلے ہی دن مجاہدین کے امام نے اعلان کیا کہ پارلیمنٹ کو وہ نہیں مانتے‘ دستور کو تسلیم نہیں کرتے۔ سود کا کاروبار کرنے والے بینکوں کو اپنے دروازے اور اپنے کھاتے اب بند کرنا ہوں گے۔
قومی افواج متامل کھڑی تھیں۔ اب ردعمل کا طوفان اٹھا تو لشکر آگے بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے‘ خارجیوں کا صفایا کر دیا۔ ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری اور چوتھی قبائلی ایجنسی۔ حبس کے بعد لو چلی تو خلق آسودہ تھی ۔
سیاستدان وہی پرانا کھیل کھیلتے رہے۔ کراچی میں معصوم شہریوں کی لاشیں گرتی رہیں۔ ہر روز پنجاب اور پختون خوا کے شہر بم دھماکوں سے لرزتے رہے۔ انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑتے رہے۔ بلوچستان میں ایک مذہبی فکر کے لئے موت ارزاں کر دی گئی۔ علیحدگی پسند درندوں کی طرح جھپٹتے رہے۔ سرحد پار ان کے کیمپ تھے اور سمندر پار‘ مہذب اقوام میں ان کے لیڈروں کی پذیرائی۔ طوفانوں سے بے نیاز سیاستدان وہی پرانا کھیل کھیلتے رہے۔ دولت کے انبار جمع کرنے کا‘ گالی گلوچ کے تبادلے کا۔ اربوں کھربوں سمیٹنے کا۔ کب تک‘ آخر کب تک؟
لیڈرانِ کرام نے ایک دوسرے کے لئے زمین تنگ کر دینے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اقتدار کی آرزو میں پاگل‘ حکمرانی کی امانت داری اور خدائی کے امتیاز سے نا آشنا۔ ایک دوسرے کو دھکیلتے‘ سب کے سب خود بھی دیواروں سے جا لگے ہیں۔ مجروح اور بے دم‘ اب وہ خود کو سنبھالنے کے قابل نہیں۔ عنان سونپ بھی دی جائے تو ان میں سے کوئی اسے قابو میں کیسے رکھ سکے گا۔
سامنے کی ایک حقیقت انہوں نے فراموش کر دی کہ خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔ خانۂ خالی را دیو می گیرد۔ فیصلہ اب وہی کرے گا۔ تفصیل نہ پوچھ‘ ہیں اشارے کافی/ یونہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں۔