منتخب کردہ کالم

خان کی “عظیم کامیابی”‌.. کالم رئوف طاہر

عمران خان کو اعتراف تھا کہ لوگ اس کے تازہ یُو ٹرن، اسلام آباد لاک ڈاؤن کا فیصلہ واپس لیے جانے پر ناراض ہیں، لیکن اس کا کہنا تھا کہ پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں یوم تشکر کے جلسے میں وہ بتائے گا کہ سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کا شروع ہونا اس کی کتنی بڑی کامیابی ہے۔ لیکن یہ عظیم کامیابی تو کئی روز پہلے بھی حاصل ہو چکی تھی‘ جب سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے حوالے سے وزیرِ اعظم کے خلاف پٹیشنز کو رجسٹرار کی طرف سے Frivilous قرار دیے جانے کا فیصلہ کالعدم ٹھہراتے ہوئے ان کی ابتدائی سماعت کا اعلان کر دیا تھا۔ معاملے کی حساسیت کا احساس کرتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ نے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کر دی تھی‘ اور جس کے بعد 2 نومبر کو اسلام آباد لاک ڈاؤن کی خطرناک مہم جوئی کا کوئی جواز نہیں رہا تھا، لیکن خان اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا، وہ نواز شریف کو حکومت نہیں کرنے دے گا… استعفیٰ یا تلاشی۔
منتخب وزیرِ اعظم کو مقررہ آئینی مدت سے پہلے گھر بھیجنے کا راستہ بھی آئین نے متعین کر دیا ہے۔ رضاکارانہ استعفیٰ یا تحریکِ عدمِ اعتماد۔ ایوان صدر کے ذریعے وزیرِ اعظم کو گھر بھیجنے کا اختیار 18ویں ترمیم میں دوسری بار بھی ختم کیا جا چکا ہے۔
اب خان ایک نئی روایت کا آغاز کرنے جا رہا تھا۔ اسلام آباد پر یلغار کے ذریعے منتخب حکومت کا خاتمہ۔ 2014ء میں بھی خان اور اس کا سیاسی کزن یہ ناکام مہم جوئی کر چکے تھے، لیکن اِس بار سرگرانی اور تھی۔ تب اکتوبر میں ریٹائر ہونے والے 5 جرنیلوں اور اس وقت کے آئی ایس آئی چیف کا نام سننے میں آتا تھا۔ جاوید ہاشمی نے گزشتہ دنوں دو، تین ٹی وی انٹرویوز میں ان کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا، لیکن پرویز رشید کے بقول (جناب الطاف حسن قریشی سے انٹرویو) آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیرِ اعظم سے کہا تھا، آپ کی طرف سے کوئی غلطی نہ ہو جس سے کسی کو انارکی پھیلانے کا موقع ملے‘ باقی کام میں سنبھال لوں گا۔ پرویز رشید کے مطابق، وہ ہم پر بڑا مشکل وقت تھا اور انہوں (جنرل راحیل شریف) نے بھی بڑی ذہانت کے ساتھ پورے معاملے کو سنبھالے رکھا۔ ظاہر ہے ان پر بھی پریشر آتا ہو گا لیکن انہوں نے اس کٹھن مرحلے میں اپنی وفاداری ثابت کی۔
قارئین کو یاد ہو گا، انہی دنوں ایک شب آرمی چیف نے دونوں سیاسی کزنوں کو ملاقات کے لئے بلایا تھا۔ وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خاں نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی تھی، انہیں جنرل راحیل شریف کا فون آیا، خان اور علامہ نے چیف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور وزیرِ داخلہ کے ذریعے یہ بات وہ وزیرِ اعظم کے نوٹس میں لانا چاہتے تھے۔ حسن اتفاق کہ وزیرِ اعظم وہیں تھے۔ چودھری نثار نے فون انہیں تھما دیا۔ وزیرِ اعظم کو اس ملاقات پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں سے الگ الگ ملاقات میں آرمی چیف نے واضح کر دیا تھا کہ وہ دھرنا مہم جوئی کے ذریعے وزیرِ اعظم کے استعفے کی حمایت نہیں کریں گے‘ البتہ 2013ء کے انتخابات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام سمیت کچھ ایشوز پر وہ وزیرِ اعظم سے بات کر سکتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد علامہ صاحب نے یہ کہہ کر دھرنا اٹھا لیا کہ ابھی اللہ تعالیٰ کو نواز شریف حکومت کا خاتمہ منظور نہیں؛ البتہ خان نے 16 دسمبر (آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ) تک شبینہ دھرنا جاری رکھا۔
ان دو برسوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔ سول ملٹری ریلیشن شپ کے حوالے سے نت نئے افسانے منظرِ عام پر آئے۔ چیف کی ریٹائرمنٹ اور توسیع کے حوالے سے الگ کہانیاں تھیں۔ نیشنل سکیورٹی کے مسائل پر فوج کی غیر معمولی حساسیت کی بات بھی ہوتی۔ اسی دوران ڈان میں سِرل المیڈا کی سٹوری ‘بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ والی بات ہو گئی۔ کہا گیا فوج کا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا‘ اب کسی ڈھیل کی مزید گنجائش نہیں رہی۔
ایک طرف ریٹائرڈ عسکری دانشور اور میڈیا میں فوج کے خود ساختہ ترجمان، کالم نگار اور اینکر پرسنز خاص فضا بنا رہے تھے، دوسری طرف خان بھی فوج کے عزت و وقار کے حوالے سے غیر معمولی جذباتیت کا مظاہرہ کر رہا تھا، ”کیا دنیا میں کوئی حکومت اپنی فوج کو اس طرح بدنام کرتی ہے؟‘‘، اس کے لئے سکیورٹی رسک حکمرانوں کو بے شرم اور بے حیا کہنے میں بھی اسے کوئی عار نہ تھی۔ ایسے میں خان کی طرف سے اسلام آباد میں لاک ڈاؤن جیسے اعلان کو ہم جیسے کمزور اعصاب کے مالک بھی سیریس لینے لگے تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے خون کے پیاسے بعض دانشور دوست مزید خوفزدہ کرتے، دس لاکھ کی ضرورت نہیں پڑے گی، بیس پچیس ہزار بھی بہت ہوں گے۔ آٹھ دس ہزار راولپنڈی میں شیخ نکال لائے گا۔ دس، بارہ ہزار اسلام آباد میں نکل آئیں گے۔ جون 2014ء کے منہاج القران واقعے پر ڈی مورالائز پولیس مرنے مارنے پر آمادہ اس ہجوم کے خلاف کسی مؤثر کارروائی سے گریز کرے گی۔ فوج کو بلایا جائے گا تو وہ سکیورٹی رسک حکومت کو بچانے کے لیے اپنے ہی عوام پر گولی چلانے کیوں آئے گی؟ یوں زیادہ سے زیادہ دو، اڑھائی دن میں اسلام آباد فال ہو جائے گا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
ڈان سٹوری پر فوج کا اضطراب، جمہوریت پسندوں کو اندیشہ ہائے دور دراز سے دوچار کر رہا تھا۔ کہا گیا کہ آرمی چیف نے کور کمانڈرز کا سخت پیغام وزیرِ اعظم کو پہنچا دیا ہے، عسکری قیادت نے سکیورٹی معاملات پر پرائم منسٹر ہاؤس کی کسی میٹنگ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جوں جوں 2 نومبر قریب آ رہی تھی، اندیشوں کے سائے پھیلتے جا رہے تھے۔ ایسے میں 27 اکتوبر کی شام وزیرِ داخلہ نثار علی خان، وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کی آرمی چیف سے ملاقات نئی کہانیوں کا موضوع بن گئی۔ ملاقات کے 6 گھنٹے بعد جاری ہونے والے آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز کے مطابق ڈیڑھ گھنٹے کی اس ملاقات میں حکومتی وفد نے آرمی چیف کو قومی سلامتی کے منافی پلانٹڈ سٹوری کے حوالے سے تحقیقات اور سفارشات کے حوالے سے بریف کیا۔ دو دن بعد پرویز رشید سے وزارت اطلاعات و نشریات واپس لیے جانے پر پھر دور کی کوڑیاں لائی جا رہی تھیں۔ حکومت کے خلاف مخصوص پروپیگنڈا لائن آگے بڑھانے والے ہمارے دوستوں کا کہنا تھا، اقتدار کی دیوار سے ایک اہم اینٹ نکل گئی، لیکن یہ کافی نہیں۔ کچھ اور اینٹیں بھی نکالنا پڑیں گی اور پھر ساری دیوار زمین بوس جائے گی۔ وزیرِ داخلہ‘ آرمی چیف سے سول حکومت کے تین بڑوں کی ملاقات کے حوالے سے ایک مختلف کہانی سناتے ہیں۔ ڈان سٹوری کے حوالے سے اپنی تحقیقاتی رپورٹ انہوں نے وزیرِ اعظم کو پیش کی تو انہوں نے کہا، آرمی چیف نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ یہ رپورٹ انہیں بھی دکھا دی جائے۔ تب اسحاق ڈار اور شہباز صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ چودھری صاحب نے کہا‘ انہیں بھی ساتھ بھیج دیں؛ چنانچہ وہ بھی ساتھ ہو لئے۔ وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں اس رپورٹ کے سوا کسی اور مسئلے پر بات نہیں ہوئی۔
وفاقی دارالحکومت کو یلغار سے بچانے کے لئے فوج بلانے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ یہ سارا کام پولیس اور ایف سی نے اس خوش اسلوبی سے کیا کہ ان کے پاس ہوائی فائرنگ کے لئے کوئی پرانی سی بندوق بھی نہ تھی۔ صرف آنسو گیس تھی، ادھر خان کے اعلان سے عوام کی لاتعلقی اور بیزاری تھی۔ دس کروڑ سے زائد آبادی کے پنجاب میں خود میاں محمودالرشید (پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف) گرفتار شدگان کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتاتے۔ وزیرِ قانون رانا ثنااللہ نے اصل تعداد (838) بتا دی۔ زندہ دلوں کے شہر لاہور سے یہ صرف 208 تھے۔
27 اکتوبر کی شام اسلام آباد میں انصاف یوتھ کنونشن میں کارروائی پر خان نے اگلے روز پورے ملک میں بھرپور یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا‘ لیکن خود اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی عوامی احتجاج کا کوئی رنگ نظر نہ آیا؛ البتہ فرزندِ راولپنڈی اپنی خبر بنا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ پہاڑی پر خان کے فارم ہاؤس کے نشیب میں بنی گالا کی بستی میں بھی حالات معمول کے مطابق تھے۔ پنجاب سے مایوس ہو کر وزیرِ اعلیٰ کے پی کے سے کمک طلب کی گئی۔ وہ چار، پانچ ہزار کے لاؤ لشکر کے ساتھ، جس میں سرکاری کرینیں اور لفٹر بھی تھے، اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ اسے عمران خان کی رہائی کے لئے باغیرت پٹھانوں کی طرف سے کارروائی کا نام دے رہے تھے۔ اسی شام صوابی میں امیر مقام کا جلسہ پٹھانوں کی طرف سے نواز شریف کی حمایت کا بھرپور اظہار تھا۔ وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کے نسلی تعصبات کو ابھارنے والے بیانات اور بغاوت پر آمادگی کا اظہار، ایک الگ موضوع ہے۔ اٹک پل پر جو کچھ ہوا وہ افسوسناک تھا‘۔ لیکن کسی وزیرِ اعلیٰ کو سرکاری لاؤ لشکر کے ساتھ وفاقی دارالحکومت پر یلغار کی اجازت کیسے دے دی جاتی۔
2نومبر کی ناکامی نوشتہ ٔ دیوار بن چکی تھی۔ خان نے اچھا کیا کہ سپریم کورٹ میں شروع ہونے والی کارروائی کو فیس سیونگ بنا لیا۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں پریڈز گراؤنڈ میں یوم تشکر کے جلسے کی تیاریاں جاری ہیں‘ جس میں خان بتائے گا کہ یہ کتنی عظیم کامیابی ہے، لیکن یہ کامیابی تو کئی روز پہلے ہی حاصل ہو چکی تھی۔ اور سپریم کورٹ کے ذریعے تلاشی کی پیشکش خود وزیرِ اعظم 22 اپریل کو قوم کے نام نشری خطاب اور پھر 15مئی کو قومی اسمبلی میں کر چکے تھے۔