منتخب کردہ کالم

خدایا! مجھے وزارت عظمیٰ سے بچانا…کالم نذیر ناجی

دولت ہضم کرنے کا جو ہنر امریکیوں کے پاس ہے‘ وہ شاید چینیوں کے پاس بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جو فرد اور ملک‘ دولت جمع کرنا چاہتا ہے‘ وہ ڈالروں کو ترجیح دیتا ہے۔ حتیٰ کہ چین نے بھی اپنی دولت ڈالروں میں جمع کی ہے۔ ہمارے دونوں مشہور زمانہ حکمرانوں یعنی جناب آصف زرداری اور جناب نواز شریف نے‘ اپنی ساری کمائی ڈالروں میں ہی جمع کرائی ہے۔ کوئی نہیں جانتا‘ انہوں نے کتنی دولت کمائی ہے؟ لیکن جو کہانیاں زبان زد عام ہیں‘ ان میں کہا جاتا ہے کہ ”جناب! دولت ہو‘ تو آصف زرداری جتنی۔‘‘ ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے اس میدان میں‘ آصف زرداری پر سبقت لے جانے کی ”عاجزانہ‘‘ کوشش کی ہے۔ لیکن انہیں یہ دولت ہضم کرنے کا وہ ہنر نہیں آیا‘ جو ”استاد گرامی‘‘ کے پاس ہے۔ ان کی دولت کی دنیا بھر میں شہرت ہے۔ وہ اپنے زمانے میں ”مسٹر ٹین پرسینٹ‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ اب یہ نام انہی کی ملکیت بن چکا ہے۔ ان کے بعد جتنے حضرات و خواتین دولت مند بنیں گے‘ وہ جتنی دولت چاہیں صرف کر کے مسٹر ٹین پرسینٹ کا خطاب لینا چاہیں‘ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ دولت کے ساتھ اس خطاب پر آصف زرداری نے ایسا قبضہ کیا ہے کہ دنیا میں اب کوئی مائی کا لال‘ اس خطاب پر قبضہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ الزام تو جناب نواز شریف پر بھی ہے کہ انہوں نے بہت دولت کمائی‘ لیکن مسٹر ٹین پرسینٹ کا خطاب وہ بھی حاصل نہ کر پائے۔ شاید اسی بات پر جھلا کر‘ انہوں نے جو کمایا‘ اپنے ”نابالغ‘‘ بچوں کے سپرد کر دیا۔ وزیر اعظم کے انوکھے لاڈلے بھی قسمت کے دھنی نکلے۔ جتنے ڈالر انہیں اپنے والد محترم کی طرف سے ملے‘ وہ ان کے پاس جاتے ہی دھڑا دھڑ انڈے بچے دینے لگے۔ آج ان کی دولت کا شمار نہیں۔ یہ دولت رکھنے کے لئے‘ دونوں ”بچوں‘‘ کو دنیا میں کہیں جگہ نہیں مل رہی۔ آسٹریلیا میں ان کی دولت پیر پھیلائے بیٹھی ہے۔ ہانگ کانگ میں پڑی‘ ان کی دولت کا شمار نہیں۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم کے نابغہ روزگار بچوں نے‘ چین میں بھی خفیہ دولت رکھنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ وہ شاید پہلے فرزندان وطن ہیں‘ جنہوں نے کالا یا گورا دھن‘ چین میں رکھ دیا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ وہاں رکھنے کے لئے ”بچوں‘‘ نے اپنے سرمائے کی آنکھیں بھی چندھی کر دی ہوں؟
پاکستانی سیاستدانوں کی بھی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ تین سیاستدان اپنے ٹکٹ پر‘ ان کے پیچھے پیچھے لندن پہنچے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق‘ ان میں سے عمران خان‘ مالیاتی ماہرین سے ملاقاتیں کر کے‘ یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آف شور سرمایہ کیا ہوتا ہے؟ اسے کیسے رکھا جاتا ہے؟ اور کیسے چھپایا جاتا ہے؟ عمران خان کے اپنے بچے بھی اب اس عمر میں آ چکے ہیں‘ جتنی عمر میں وزیر اعظم کے ”بچوں‘‘کو ڈالروں کے انبار دے کر کہا گیا تھا کہ جائو! کمائو اور کھائو۔ لیکن ”بچے‘‘ ماشااللہ اتنے ذہین نکلے کہ ان کے باپ دادا نے بھی‘ اتنے قلیل عرصے میں‘ اتنی دولت نہیں کمائی ہو گی۔ اگر بچوں کے بعد کسی نے دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں سے دولت کمائی ہے‘ تو وہ اپنے اور وزیر اعظم کے خاندان کے سب سے بڑے ماہر مالیات ہیں۔ وہ جس ملک میں جاتے ہیں‘ میزبان انہیں دور سے دیکھتے ہی‘ ایک دوسرے کو بتا دیتے ہیں کہ آ گیا ”وزیر اعظم برائے فروخت‘‘ کا سائن بورڈ۔ اصولاً یہ میاں صاحب کے ساتھ زیادتی ہے۔ اسحق ڈار سے قربت اور رشتہ داری سے پہلے‘ میاں صاحب دو مرتبہ وزیر اعظم بن چکے تھے‘ لیکن وہ اپنے والد صاحب اور بھائی شہباز شریف کی کمائی ہوئی دولت پر مطمئن تھے۔ طبیعت میں درویشی تھی۔ میں اس کالم میں بارہا قارئین کو بتا چکا ہوں کہ ایک موقع پر نواز شریف سوچ رہے تھے کہ اپنی دولت‘ غریبوں میں بانٹ کر‘ اولاد کے لئے جو بچائوں گا‘ اس کا ٹرسٹ بنا دوں گا تاکہ وہ اس کے منافع سے آسودہ زندگی گزار سکیں۔ یہ کالم پڑھ کر میاں صاحب یاد کریں گے کہ یہ خیال بھی انہیں پہلے دور اقتدار میں آیا تھا۔ اس وقت ان کی‘ ڈار صاحب سے رشتے داری نہیں تھی۔ وہ دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے‘ تب بھی وہ دولت کی دلکشی کی طرف مائل نہیں ہوئے تھے۔ اب تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں‘ تو اسحق ڈار صاحب ان کے رشتے دار ہیں۔ ڈار صاحب نے پاکستان کی وزارت خزانہ سنبھالتے ہی‘ وزیر اعظم برائے فروخت کا پھٹہ لگا لیا۔ دولت‘ ڈار صاحب نے بھی کم نہیں کمائی۔ ان کی دولت کے مینار ابوظہبی میں سربلند کھڑے ہیں‘ لیکن ہمارے میاں صاحب ہیں کہ جتنے ڈالر بھی‘ ان کے ہاتھ لگے‘ انہوں نے بچوں کے سپرد کر دیئے۔ ممکن ہے وہ اپنے اس بنیادی خیال پر قائم رہتے کہ سب کچھ خلق خدا میں تقسیم کر کے‘ تھوڑی سی دولت کا ٹرسٹ بنا دیں گے اور بچے اس کے منافع پر زندگی گزار لیں گے‘ لیکن انہوں نے ٹرسٹ بنانے کے بجائے‘ اپنی ساری دولت بچوں کے سپرد کر دی اور انہوں نے کم سنی میں ہی‘ اس دولت کو اتنی تیز رفتاری سے بڑھایا کہ ساری دنیا ایڑیاں اٹھا اٹھا کر پاکستان کی طرف دیکھنے لگی۔ آخرکار‘ آف شور دولت مندوں کی ایک فہرست منظر عام پر آئی‘ تو لالچی نگاہوں نے سب سے پہلے میاں صاحب کا نام دیکھا۔ جب پاکستان کے وزیر اعظم کا نام میڈیا میں آیا‘ تو ساری دنیا کی نظریں ہمارے ملک
پر لگ گئیں۔ میاں صاحب نے پی ٹی وی پر خطاب کر کے‘ وضاحت پیش کی کہ جس کاروبار اور اس کے سرمائے کا شور برپا ہے‘ وہ میرے بچوں کا ہے۔ اب وہی کاروبار کرتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے بنا لیا ہے‘ وہ بچوں ہی کی کمائی ہے۔ لیکن دنیا اتنی بے رحم ہے کہ وہ معصوم بچوں کی کمائی پر بھی نظریں گاڑے بیٹھی ہے۔ پیسہ وہ کماتے ہیں۔ نام ان کے والد محترم کا لگتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ آج بھی دنیا بھر کے لوگ ”بچوں‘‘ کی کمائی پر نگاہ رکھتے ہیں اور ان کے والد محترم کے نام لگا دیتے ہیں۔ پاکستان کا ہر نوجوان جو دولت کمانے کا خواہشمند ہے‘ وہ ایک ہی بات سوچتا ہے کہ اگر میں کسی طرح دولت کمانے میں کامیاب ہو گیا‘ تو اپنی دولت ہضم کرنے کے لئے سرمائے کے گُرو‘ جناب آصف زرداری کے نقش قدم پر چلوں گا۔ انہوں نے پاکستانی نوجوانوں کے لئے ایسی مثال قائم کی ہے کہ جو نوجوان بھی دولت مند بننے کے خواب دیکھتا ہے‘ اس کا آئیڈیل جناب آصف زرداری ہوتے ہیں۔ دنیا میں کسی کو پتہ نہیں کہ ان کے پاس کتنی دولت ہے؟ شاید خود آصف زرداری کو بھی نہیں۔ ایک نہ ایک دن یہ دولت‘ بلاول زرداری کے ہاتھ لگنی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ جب اپنے والد محترم کے اثاثے بلاول کے ہاتھ لگیں گے‘ تو یہ ”بچہ‘‘ ان کا بوجھ اٹھانے میں‘ کہیں اپنی کمر دہری نہ کر لے۔ بدبخت دولت نے ہمارے میاں صاحب کی کمر بھی دہری کر کے رکھ دی ہے۔ حالانکہ یہ بوجھ وہ اپنی کمر سے اتار کے‘ بچوں کو منتقل کر چکے ہیں۔ لیکن بچے اتنے ذہین اور تیز طرار ہیں کہ انہوں نے دولت اپنے پاس رکھ لی اور ”بوجھ‘‘ والد محترم پر لاد دیا۔ اب انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اس ”بوجھ‘‘ کو کس طرح سنبھالیں؟ آخرکار ترقی کی بلندیوں پر جانے والے ہر خوش نصیب کی طرح‘ میاں صاحب کی نظر بھی آصف زرداری کی طرف اٹھ گئی۔ انہوں نے بھی سوچا کہ جو دولت ان کے لئے بوجھ بن گئی ہے‘ اس سے وہ کیسے جان چھڑائیں؟ میاں صاحب کی مشکل یہ ہے کہ دولت وہ بچوں کو دے بیٹھے ہیں اور بوجھ ان کے گلے پڑ گیا ہے اور اس بوجھ نے وزارت عظمیٰ کی کمر دہری کر دی ہے۔ میاں صاحب اب زمانے کی نظروں سے چھپ کے ”استاد عالم‘‘ کی خدمت میں حاضر ہونے لندن گئے ہیں۔ پہلے تو دنیا کے مختلف کونوں سے ہوتے ہوئے استاد گرامی لندن پہنچے۔ ساتھ ہی جناب
وزیر اعظم بھی پہنچ گئے۔ دونوں نے چوری چوری ملنے کے لئے دو پڑوسی ہوٹلوں میں قیام کیا۔ دونوں کے پیچھے پاکستانی اور عالمی رپورٹروں کے جلوس لگے ہوئے ہیں تاکہ میاں صاحب کو استاد عالم کی خدمت میں حاضر ہوتے دیکھ لیں۔ دونوں کی تصویریں بنائیں۔ دونوں سے ان کے خیالات عالیہ معلوم کر کے‘ بڑی بڑی خبریں حاصل کریں۔ افسوس کہ دولت‘ میاں صاحب نے بچوں کے سپرد کر دی۔ وزارت عظمیٰ بچائی تھی‘ اسے عالمی میڈیا نے بے توقیرکر کے رکھ دیا۔ اب پاکستان کی وزارت عظمیٰ کو دنیا کس نظر سے دیکھ رہی ہے؟ اس کا تصور کر کے ہی شرم آنے لگتی ہے۔ خدایا! مجھے وزارت عظمیٰ سے بچانا۔