منتخب کردہ کالم

خدا را…علی معین نوازش

خدا را...علی معین نوازش

خدا را…علی معین نوازش

میں سفر سے ہمیشہ لطف اندوز ہوتا ہوں ،چاہے یہ سفر پیچ وخم کھاتی شاہرائوں پر کارکے ذریعے ہو یا پھر کھینچی ہوئی دو لائنوں کی شکل میں پٹڑی پر کوکتی اور سائر ن بجاتی ٹرین ہو۔ اورچاہے فضائوں اور بادلوں کو چیرتا ہوا ہوائی جہاز ہویا گہرے پانیوں پرہچکولے کھاتا بحری جہازہو۔ یہ سارے سفر اپنے اندر بھرپور لطف اور تجربات لئے ہوتے ہیں۔میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے والدین کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں جانے اور بھرپور لطف اٹھانے کا موقع ملا ہے۔ اپنے والد کی انگلی پکڑکر اور اپنی والدہ کی گود میں سر رکھ کر اور اپنی بہن کے ساتھ میں نے اپنے ملک یا بیرون ملک جتنے بھی سفر کئے ان سے مجھے بہت اعتماد ملا ہے۔مجھے یہ معلوم ہے کہ سفر پر جاتے ہوئے خوا مخواہ اور غیر ضروری سامان رکھنا اپنے لئے ایک ایسا وبال پالنا ہے جو سارے سفر کے دوران آپ کو تنگ کرتا رہتا ہے اور یہ کہ سفر کیلئے ضروری سامان اپنے ہی ملک سے ساتھ نہ لے جانا آپ کی رقم اور بجٹ کا دھواں نکال دیتا ہے ۔مثلاً آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ آپ جس علاقے یا ملک کیلئے سفر کررہے ہیں وہاں کا موسم کیسا ہے۔
وہاں آپ کوکتنے دن رکنا ہے۔وہاں رہنے کے لئے آپ کو کیا کیا درکار ہے۔ اور اگر خدانخواستہ آپ کو ایمرجنسی نہیں ہے تو آپ کو کتنا عرصہ پہلے ٹکٹ پرچیز کرنے سے کتنی بچت ہوسکتی ہے۔اور کونسا روٹ آپ کے لیے زیادہ آسان اورسہل ہوسکتا ہے کیا آپ نے کسی عزیز یا رشتہ دار کے گھر ٹھہرنا ہے یا کسی ہوٹل میں کمرہ لے کر آپ کواپنے دن گزارنا ہے۔چونکہ میں نے ہوسٹل سے لے کر ہوٹل اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے گھروں تک قیام کیا ہے۔ اس لیے آپ کو یہ بھی معلوم ہوناچاہیے کہ ہوٹل میں رہائش کی صورت میں آپ کو کیا کیا چاہیے اور ہوٹل میں رہنے کی صورت میں آپ کا چیک ان اور چیک آئوٹ ٹائم کیا ہے اور یہاں سے آپ نے اگلا سفر اگر بذریعہ جہازکرنا ہے تواس کے لیے ایئر پورٹ کے لیے کس طرح کی ٹرانسپورٹ مل سکتی ہے اور ایئر پورٹ پر پہنچنے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔ اپنے قریبی عزیز کے گھر ٹھہرنے کی صورت میں آپ کئی مرتبہ اپنے سفری اور دیگر تمام امور اپنے عزیز یا رشتہ دار کے سر ڈال کرخود بے فکر ہوجاتے ہیں۔اگر آپ کی اپنے عزیز یا رشتہ دار سے بہت زیادہ بے تکلفی بھی ہے پھر بھی ان کے ہاں مہمان ٹھہرتے ہوئے انہیںزیادہ پریشان نہیں کرناچاہیے بلکہ ان کی مصروفیت اور وسائل دیکھتے ہوئے ان پر بوجھ ڈالناچاہیے بلکہ زیادہ کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ آپ ان پر کسی قسم کا بوجھ نہ ہی ڈالیں۔ بس یہی کافی ہے کہ آپ ان کے گھر ٹھہرے ہوئے ہیں ۔کیونکہ ہر شخص یا گھرانے کی اپنی مصروفیات اور وسائل ہوتے ہیں ان کی کمٹمنٹ کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ ایک ضروری بات کہ آپ کو یہ معلوم ہوناچاہیے کہ سفر کے دوران آپ کے سامان پر نام اورفون کے پختہ ٹیگ کے علاوہ کوئی اورایسی نشانی بھی ضرور ہونی چاہیے جس سے آپ اپنے سامان کو فوری پہچان لیں اور آپ کے لکھے ہوئے واضح طور پر نام اور موبائل نمبر سے دوسرے مسافر بھی غلطی سے آپ کا سامان اپنا سمجھ کر نہ لے جائیں اور جہاز پر سوار ہونے سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا آپ کو ایسی چیز توکیری نہیں کررہے جو دوران سفر ساتھ رکھنا ممنوعہ ہے یا وہ دوسرے ممالک جہاں آپ کو جانا ہے وہاں پر بین ہے اور آپ کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔اور ایک بہت اہم اور ضروری بات کہ آپ جس ملک کے سفر کیلئے جارہے ہیں وہاں کی کرنسی کسی رجسٹرڈ اور بااعتماد منی چینجریا بینک سے لیں۔ کچھ لوگ سفر کے دوران ایمرجنسی میں ایئر پورٹس پر انفرادی لوگوں سے یا ان لوگوں سے بظاہر تو کئی اور کام کررہے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ کرنسی کا کام بھی کررہے ہوتے ہیں یہ احتیاط اس لیے ضروری ہے کہ معصومیت سے جان بوجھ کر کوئی آپ کو جعلی کرنسی بھی تھما سکتا ہے جو کہ آپ کیلئے بہت خطرناک ہوسکتا ہے اور دوسرے ممالک میں اس کی سخت سزائیں ہیں اسی طرح منشیات کے اسمگلرز سے بچنے کیلئے بھی کسی دوسرے پراعتماد نہیں کرناچاہیے۔ یہ ساری باتیں اس لیے تحریر کررہا ہوں کہ میں نے لوگوں کو ان مسائل کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔ لیکن جس بات نے مجھے یہ سطور لکھنے پر مجبور کیا وہ چند روز قبل اسلام آباد ایئر پورٹ پر ایک دوست کو ایئر پورٹ پر چھوڑنے اور خدا حافظ کہنے کے دوران کچھ عوامل دیکھنے کی وجہ سے ہے۔ اتفاق سے ایئر پورٹ پرچارپانچ فلائٹس ایک ہی وقت میں لینڈ کرگئیں جنہیں اپنے مسافر اتارنے بھی تھے اور لگ بھگ ایک گھنٹے کے بعد نئے مسافر لے کر واپس بھی جانا تھااس لیے ایئر پورٹ پراتنا رش تھا کہ گھنٹوں تو آپ یا ٹریفک میں پھنسے رہے یا پارکنگ کی جگہ نہ ملی پھر چیک ان کے لیے لمبی قطاریں لیکن جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات تھی کہ مسافر لائنوں میں سامان کی ٹرالیوں کے ساتھ آہستہ آہستہ رینگ رہے تھے تو اسی دوران درجنوں مسافر وہاں ایئر پورٹس پر کام کرنے والے مختلف اداروں کے اہلکاروںکی سفارش پر لائن کی پرواہ کئے بغیر تاخیر سے آنے کے باوجود اندر جاتے جارہے تھے۔جس سے کئی مرتبہ ماحول کشیدہ بھی ہوا اوربات گالم گلوچ تک پہنچی خواتین کو چیخیں مارمار کر روتے بھی دیکھا اور بچوں کو بلبلاتے ہوئے بھی۔ میں سول ایوی ایشن کے اعلیٰ افسران سے درخواست کرتاہوں کہ خدارا مسافروں کو یوں ذلیل نہ کریں اور نظام کی فراہمی کو بہتر کریں۔ اس سفا ر شی کلچرسے اس قو م کو نجا ت دلا ئیں۔