منتخب کردہ کالم

خوف اور سوگ جاری ہے: نذیر ناجی

خوف اور سوگ ابھی جاری ہے۔ لواحقین کو اپنے مرحوم عزیزوں کی میتیں ملیں اور نہ انہیں یقین ہوا کہ وہ تجہیز و تکفین کی تمام رسومات ادا کر رہے ہیں۔ یہ تسلی حاصل کرنا ممکن نہیں۔ کسی کی شناخت نہیں ہو رہی۔ صرف ایک لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے بتایا جائے گا کہ کوئلوں میں بدلا ہوا یہ انسانی جسم کس کا ہے؟ پسماندگان کو ڈی این اے ٹیسٹ پر ہی بھروسہ کرنا پڑے گا۔ بعض نے یہ بھی نہیں کیا اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی تک میت لینے ہی نہیں آئے۔ پی آئی اے والے جانیں کہ وہ کوئلوں کے بے شکل ڈھیر کا کیا کریں گے؟
”پاکستان میں فضائی حادثات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس تحقیقات کی مطلوبہ سہولت اور مہارت کا فقدان ہے، اس لیے اقوام متحدہ کی ہدایت کے مطابق جنوبی ایشیا کی سطح پر محکمہ بنا کر تحقیقات کو کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ سوسائٹی آف ایئر سیفٹی انویسٹی گیشن پاکستان کے سربراہ اور سول ایوی ایشن کے سابق تحقیقاتی افسر (ریٹائرڈ) ونگ کمانڈر سید نسیم احمد نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم کا یہ فرض ہوتا ہے کہ فوری تحقیقات کا آغاز کرے۔ فوری تحقیقات کے لئے پورا ریکارڈ، طیارے کا ملبہ اور ایئر ٹریفک کنٹرول کا ریکارڈ قبضے میں لیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کے چشم دید گواہ اور عام لوگوں یا ماہرین‘ ان سب سے رابطہ کرکے مختلف پہلوئوں سے تحقیقات کی جانی چاہئیں لیکن پاکستان جیسے ممالک‘ جن کے پاس بورڈ میں صرف دو یا تین لوگ ہوں‘ کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اتنے رخ دیکھیں۔
سید نسیم احمد کے مطابق ”ایک طرف میڈیا کے سوالات اور حکامِ بالا کی ہدایات آ رہی ہوتی ہیں، وہ خود کہیں اور جہاز کہیں اور ہوتا ہے۔ ان کے پہنچنے سے پہلے کئی چیزیں اِدھر اُدھر ہو چکی ہوتی ہیں اور ریسکیو آپریشن کے دوران شواہد ضائع ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں جس ملک کی جتنی اچھی تیاری ہو گی‘ وہ اس چیلنج سے اتنا ہی زیادہ اچھی طرح سے نمٹ سکتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنی تیاری مالی اعتبار سے ممکن نہیں ہے۔ ایسے محکمے امریکہ، فرانس، اٹلی اور دیگر ممالک میں قائم ہیں‘ جن کے پاس اتنے وسائل دستیاب ہیں۔ ”پاکستان‘ بنگلا دیش، بھارت، افغانستان‘ سری لنکا ایسے ملک ہیں جہاں یہ محکمے موجود نہیں یا ہیں تو کچھ نہیں کر پاتے۔ اسی لئے اقوام متحدہ نے یہ تصور دیا ہے کہ جنوبی ایشا کے ممالک مل کر ایک انویسٹی گیش محکمہ بنائیں۔ لیکن جنوبی ایشیا کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں انڈیا اور پاکستان میں عدم تعاون کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوا۔ اس تصور کو 15 سال کا عرصہ ہو چکا ہے‘‘۔ سید نسیم احمد سول ایوی ایشن میں بھی تحقیقاتی افسر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طیارے تکنیکی طور پر اتنے بہتر ہو چکے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں ایک آدھ بار ایسا ہوا ہو گا کہ آپ کہیں گے کہ تکنیکی خرابی کے باعث یہ حادثہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جہاز کو کنٹرول پائلٹ کرتا ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں اسے کئی فیصلے لینے ہوتے ہیں اور فیصلہ لینے میں کوئی غلطی ہو سکتی ہے‘ جس کی وجہ سے حادثہ ہو سکتا ہے لیکن اس بنیاد پر ہم اس کو حادثے کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اْسے یہ کرنا چاہیے تھا یا یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان کے مطابق‘ جس قانون کے تحت سول ایوی ایشن تحقیقات کرتی ہے‘ اس کا مقصد کسی پر الزام تراشی نہیں ہے۔ اس کا مقصد عوامل اور وجوہات سامنے لانا ہے۔ سول ایوی ایشن اہلکار بھی اسی ماحول میں کام کرتے ہیں‘ اس لئے انہیں بھی شکوک و شبہات رہتے ہیں۔ ونگ کمانڈر نسیم احمد کا کہنا تھا کہ فٹنس کے مقامی اور بین الاقوامی معیار مختلف نہیں ہوتے، ایوی ایشن ایک عالمی سرگرمی ہے کیونکہ طیارے کئی ممالک جاتے ہیں اور وہ مختلف ممالک سے گزرتے ہیں اور وہ جس ملک سے گزرتے ہیں‘ اسی کے قوانین اس پر لاگو ہوتے ہیں۔ اس لئے عالمی طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ طیارہ کم از کم بھی قابل قبول معیار پر کام کر رہا ہے؟
سید نسیم احمد اے ٹی آر کے جنوبی ایشیا میں رابطہ کار بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوکر طیاروں کو سیفٹی بنیادوں پر گراؤنڈ نہیں کیا گیا تھا‘ بلکہ وہ ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ ”جب آپ پرانے جہاز گراؤنڈ کرتے ہیں تو ایک جدید جہاز لاتے ہیں‘ جو اُس وقت اے ٹی آر تھا۔ جنوبی ایشیا میں 100 کے قریب اے ٹی آر موجود ہیں۔ ان میں سے 50 انڈیا میں کام کر رہے ہیں۔ وہاں ایک بھی حادثہ نہیں ہوا ہے اس لئے یہ مفروصہ درست نہیں کہ اے ٹی آر میں خرابی تھی‘‘۔ سید نسیم احمد کا کہنا تھا کہ سیفٹی اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہونا چاہیے۔ حکومت اس کا دعویٰ کرتی ہے لیکن وہ کسی بھی زوایے سے آزاد نہیں لگتا۔ اس کے لئے قانون سازی درکار ہے۔ ”حادثات کی تحقیقات آج کل مینجمنٹ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں حادثات بہت زیادہ ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ تربیت کا طریقہ کار ٹھیک ہے؟ جو آلات لئے گئے ہیں وہ درست ہیں؟ سمیولیٹر کی فریکوئنسی ٹھیک ہے کہ نہیں؟ کس بنیاد پر ایک طیارے میں ایک تجربے کے دو پائلٹس کو بٹھایا گیا ہے؟‘‘ ونگ کمانڈر نسیم احمد کا کہنا ہے کہ ماضی میں جو حادثات ہوئے ہر بار وہی گھسی پٹی سفارشات کی جاتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ کسی کی تو ذمے داری ہو کہ وہ ان سفارشات کو دیکھے اور عملدرآمد کو یقینی بنائے‘‘۔
سوشل میڈیا میں لائبہ زینب نے اسی موضوع پر ایک عمدہ انشائیہ لکھا ہے۔ یہ بھی پڑھ لیں۔
”اس سال 6 نومبر کو میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار جہاز کا سفر کیا۔ پی آئی اے کی فلائٹ تھی‘ ملتان سے کراچی کی۔ جہاز کا سفر کرنے کا خوف تو اپنی جگہ دل میں تھا ہی مگر قومی ایئرلائنز کے حوالے سے خدشات بھی بہت تھے۔ چونکہ رپورٹنگ کی ہوئی ہے زندگی کے کچھ حصے میں‘ اس لئے جہازوں کی حالتِ زار سے لے کر پی آئی اے کے عملے کے حوالے سے ایک عجیب سا ڈر ضرور تھا۔ اے ٹی آر میں سوار ہو کر احساس ہوا کہ نیو خان کی بسوں اور جہاز کی نشستوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے، دونوں ہی کمر درد کا نسخہ ہیں۔ ٹیک آف سے پہلے سوچا‘ اپنی ماں سے بات کر لوں‘ کیا خبر پھر باتل ہو نہ ہو۔ کال مِلائی مگر موبائل کمپنی والے بھی چاہتے تھے کہ مزید خوفزدہ کریں مجھے‘ اِسی لئے کال نہیں ملی اور میں نے موبائل آف کر دیا۔
سیٹ بیلٹ باندھنا نہیں آ رہی تھی اور جہاز ٹیکسی کر رہا تھا۔ فلموں میں دیکھا تھا کہ ایئر ہوسٹس اشاروں سے سمجھا رہی ہوتی ہے ایسی باتیں‘ مگر میری فلائٹ میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا تھا۔ پڑوس میں بیٹھی لڑکی کی مہربانی کہ اْس نے مدد کی اور میں سیٹ سے ٹیک لگا کر جہاز کے گھومتے پنکھوں کو دیکھنے لگ گئی۔ ٹیک آف کے وقت میرا دل بہت گھبرا رہا تھا مگر خود پر ضبط ضروری تھا ورنہ اونچی آواز میں کی جانے والی بکواس سے سارے مسافر محظوظ ہوتے۔ جیسے ہی ٹیک آف کیا فلائٹ نے‘ مجھے سمجھ آ گیا کہ کلیجہ منہ کو کیسے آتا ہے۔
کھانے کے نام پر دیئے جانے والے بدمزہ آٹے سے بھرے سینڈوچ اور براؤنی کے نام پر بھورے رنگ کے عجیب و غریب کیک کا ڈبا ایئر ہوسٹس کی جانب سے ٹرے پر پٹخے جانے کا دْکھ ایک طرف (میں نے واقعی یہ سوچا تھا کہ باجی میرا کیا قصور ہے) مجھے تو جہاز کے کھڑکنے کی آوازیں ہی ڈرا رہی تھیں۔ ساتھی مسافر نے سمجھایا کہ پی آئی اے کے اے ٹی آر ایسے ہی ہیں‘ پریشان نہ ہوں اور میرے ذہن میں ایک ہی سوال کہ اتنی مہنگی ٹکٹ کے پیسے بھر کے بھی نیو خان کی سواری کیوں؟
لینڈنگ کے وقت جب جہاز نیچے اْترنے لگا تو ہوا میں اْس کے ہچکولوں کے ساتھ ہی میرا دل بھی ڈوبنے اْبھرنے لگ گیا۔ ٹائر زمین پر لگتے ہی ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اونچی آواز میں مغلظات بک ہی دیں میں نے۔ جب احساس ہوا کہ تمام مسافروں کی توجہ کا مرکز بن چْکی ہوں تو اْن سے معذرت کی کہ زندگی کی پہلی فلائٹ ہے‘ اسی وجہ سے ایسے بول دیا۔ خیر سے وقت دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک گھنٹہ تیس منٹ کی فلائٹ میں بیٹھے دو گھنٹے گزر چْکے تھے لیکن خیریت سے پہنچ جانے کی خوشی ضرور تھی کہ مہربانی ان کی پہنچا تو دیا۔ نہ پہنچاتے تو کوئی ان کا کیا بگاڑ سکتا تھا؟ آخر اس ملک میں ہونے والے کسی بھی فضائی حادثے کے ذمہ داروں کا کوئی بگاڑ ہی کب سکا ہے کْچھ؟ میرے ہوش و حواس میں ہونے والے فوکر طیارے کے حادثے سے لے کر ایئر بلیو تک کوئی فرق نہیں پڑا تو اب پی کے 661 کی دفعہ بھی نہیں پڑے گا۔ وہ لوگ جانتے ہیں کہ نہ تو اِس ملک کا قانون اْنہیں کچھ کہہ سکتا ہے اور نہ ہی عوام اْن سب کے خلاف کوئی ملک گیر احتجاج کریں گے۔ موت آنی ہے مگر اْس کے بورڈنگ پاس جاری کرنے کا اختیار اْن لوگوں کو دے دیا گیا ہے۔ آپ سب بے فکر ہو کر ایئر ٹکٹ خریدیں “Have a Safe Flight” سْنتے رہیں اور ذمہ داروں سے کہیں موت بانٹتے رہو‘‘۔