منتخب کردہ کالم

دبئی میں پانچ دن…امجد اسلام امجد

om

1981ء میں پہلی بار دبئی جانا ہوا تو اس وقت یہ شہر اور اس کا ایئرپورٹ دیکھ کر یہ گمان بھی نہیں گزر سکتا تھا کہ آیندہ چند برسوں میں یہ کیا شکل اختیار کرنے والا ہے تب سے اب تک کم و بیش بیس مرتبہ وہاں جانا ہوا مگر ہر بار یہ شہر پہلے سے مختلف لگا اور اب تو یہ اسقدر پھیل گیا ہے اور ایسی ایسی بلند قامت High rise عمارتیں ہرطرف پھیل گئی ہیں کہ اپنی اقامت گاہ تک کا راستہ یاد رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ بزم اردو والوں نے جمیرہ بیچ پر کیمپنکی نامی ایک نو تعمیر اور انتہائی عمدہ Resort میں ہمارے قیام کا انتظام کیا جو بالکل سمندر کے کنارے واقع ہے، موسم کی سختی کی وجہ سے میں بالکنی میں بیٹھ کر تو اس کا نظارا نہیں کر سکا مگر دیوار گیر کھڑکی کے شیشوں کے اس پار دور تک پھیلے ہوئے سمندر کی وسعت دامن دل کو کھینچ کھینچ لیتی تھی۔

غائت اس سفر کی بزم اردو دبئی کی تشکیل کردہ ایک ایسی محفل اردو میں شرکت تھی جس کا پروگرام عام مشاعروں اور ادبی تقریبات سے بہت ہٹ کر بنایا گیا تھا، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پورے پروگرام کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا پہلا حصہ بھارت کے نامور فلمی ادیب‘ گیت نگار اور شاعر جاوید اختر کے ساتھ ایک مکالمہ تھا جس میں پاکستان سے آئی ہوئی عزیزہ عنبرین حسیب عنبر نے جاوید اختر سے ان کی زندگی‘ شاعری اور نظریات کے بارے میں دلچسپ گفتگو کی جس کا اختتام کلام شاعر بزبان شاعر ہوا، تقریباً ایک گھنٹے پر مشتمل اس انٹرویو کے بعد جاوید اختر کو جوش اردو ایوارڈ 2016ء سے نوازا گیا جو اس پروگرام کا دوسرا اور انتہائی مختصر حصہ تھا اور اس کے بعد ’’بیاد ساحر۔ ایک غنائی مشاعرہ‘‘ شروع ہوا ۔

جس کے میزبان مشہور بھارتی اداکار ٹام آلٹرز تھے جنہوں نے ساحر لدھیانوی کا روپ دھار رکھا تھا جب کہ یو اے ای‘ بھارت اور پاکستان سے بالترتیب زبیر فاروق‘ بیکل اتساہی اور مجھے مدعو کیا گیا تھا، ترتیب کچھ یوں تھی کہ ٹام آلٹرز نے ساحر لدھیانوی کی زندگی کے مختلف ادوار اور ان کے چند مشہور فلمی گیتوں کو ایک کہانی کی شکل میں پیش کیا اور اسی کے اندر رہتے ہوئے ہم تینوں کو دعوت سخن دی جب کہ مشہور پروگرام سارے گاما کے سب سے پہلے فاتح محمد وکیل نے تینوں شعرا کی مختلف چیزیں گا کر سنائیں اس میں ان کا ساتھ ممبئی سے آئی مغنیہ ارچنا بھٹہ چاریہ نے دیا۔ یہ حصہ کم و بیش تین گھنٹوں پر محیط تھا یعنی کل ملا کر تقریباً ساڑھے چار گھنٹے تک ایرانین کلب کے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہال میں سامعین اور اسٹیج پر موجود افراد اس خوب صورت محفل سے دل کھول کر لطف اندوز ہوئے۔

مشاعرے کے کنوینئر ریحان خان‘ کیمپنکی رزاٹ کے منیجر کامران صاحب اور عزیزی تابش زیدی سمیت بیس پچیس لوگ رات کے تین بجے ایک جگہ کھانے پر جمع ہوئے اور ایسی محفل جمی کہ لطف آ گیا۔ بزم اردو کے صدر شکیل احمد خان نے یاد دلایا کہ وہ اس 1981ء والے مشاعرے میں بھی شریک تھے جس کا اہتمام وسیم احمد وسیم نے کیا تھا اور جس میں شامل تقریباً تمام شعراء پہلی بار دبئی آئے تھے۔

دبئی اور یو اے ای میں یوں تو بہت سے احباب ایسے ہیں کہ جن سے ملے بغیر واپس جانا تو بہت مشکل ہو جاتا ہے مگر دونوں افتخار بٹ (اتفاق سے دونوں کے نام بالکل ایک جیسے ہیں یعنی افتخار احمد بٹ میں وضاحت کے لیے ایک کو دمام والے اور دوسرے کو شارجہ والے کہتا ہوں) چوہدری نور الحسن تنویر‘ فرح مراد‘ عابد نواز ملک‘ ڈاکٹر ثروت زہرا‘ صباحت واسطی‘ ظہور الاسلام جاوید‘ طاہر منیر طاہر‘ ریاض چغتائی‘ میاں منیر احمد اور عزیزی فواد اور اشفاق کو تو ناگزیر کی صف میں شامل کرنا پڑتا ہے یہ اور بات ہے کہ اس بار ابو ظہبی والے وقت کی کمی کی وجہ سے رہ گئے۔

برادران چوہدری نور الحسن تنویر اور دمام والے افتخار بٹ نے پاکستان سے روانگی سے قبل ہی 19اگست کی شام یوم پاکستان کی اس تقریب کے نام کروالی تھی جس کا اہتمام وہ اپنے احباب کے ساتھ مل کر کر رہے تھے اور جس کی صدارت کے لیے خیبرپختونخوا کے گورنر برادرم اقبال ظفر جھگڑا خاص طور پر تشریف لا رہے تھے۔ تقریب بہت ہی عمدہ پرجوش اور پرہجوم تھی لیکن اس کی سب سے خوب صورت بات یہ تھی کہ اگرچہ منتظمین کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا مگر تمام سیاسی پارٹیوں کے نمایندے وہاں نہ صرف موجود تھے بلکہ اپنے اختلافات کو بھی جلسہ گاہ سے باہر چھوڑ کر آئے تھے۔ ایک صاحب چاچائے کرکٹ کی طرح پاکستان کا جھنڈا لپیٹے ہوئے ہر طرف پھر رہے تھے جب کہ ڈھولچی ہر آئٹم اور اہم مہمان کی آمد پر ماحول کو گرما رہا تھا ہوٹل H کے وسیع و عریض ہال میں بائیں سمت خواتین کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا جو خاصی کثیر تعداد میں موجود تھیں مردوں والے حصے میں تو علاحدہ سے اضافی کرسیاں لگوانا پڑیں۔

میں نے ارض وطن کے نام ایک نظم پڑھی لیکن برادرم چوہدری نور الحسن تنویر کی فرمائش پر محبت کی ایک نظم بھی سنانا پڑی، یہ اور بات ہے کہ جب میں دوسری نظم پڑھ کر واپس اسٹیج پر اپنی نشست پر بیٹھا تو تنویر بھائی نے اعلان کیا کہ انھوں نے اصل میں کسی اور نظم کی فرمائش کی تھی۔ اقبال ظفر جھگڑا کی تقریر بہت دلچسپ تھی انھوں نے اپنے نام سے منسلک ’’جھگڑا‘‘ کی وضاحت میں ایک بہت مزیدار واقعہ بھی سنایا۔ یوں تو تمام مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام تھا لیکن چند خاص مہمانوں اور جھگڑا صاحب کی فیملی کے لیے ایک علاحدہ گوشہ مختص کیا گیا تھا ۔

جہاں کھانے کے بعد بھی دیر تک محفل جمی۔ اگلی دو راتوں کا کھانا بالترتیب افتخار احمد بٹ دمام والے اور چوہدری نور الحسن تنویر کے گھروں پر تھا جہاں سیاسی گفتگو‘ مقامی مسائل اور لطائف ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ 19اگست کی دوپہر کا کھانا سہیل الضرونی کی طرف تھا جو ایک بڑے بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہیں اور اس کے علاوہ اردو بہت روانی اور نفاست سے بولتے ہیں کہ ان کی بیشتر تعلیم پاکستان میں ہوئی ہے، انھیں دیکھ کر ان سب باتوں سے ایمان اٹھنے لگتا ہے جو یو اے ای کے شیوخ اور ان کے اشغال کے بارے میں عام طور پر سننے میں آتی ہیں۔