منتخب کردہ کالم

درگاہ سے درسگاہ تک…ڈاکٹر صغرا صدف

درگاہ سے درسگاہ تک

درگاہ سے درسگاہ تک…ڈاکٹر صغرا صدف

کائنات میںبکھرے رازوں کی کنجی وہ عقل و دانش ہے جوانسان کی میراث بھی ہے اور امتیاز بھی۔عقل انسانی وجود اور کائنات کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔انسان بذاتِ خود اسراروں ،بھیدوں اور علامتوں سے بھرا جہان ہے۔اسی لئے کائنات کی تلاش میں نکلنے سے پہلے اپنی کا سراغ لگانا ضروری ہوتا ہے۔مختلف طاقتیں انسانی وجود میںبرسرِ پیکار ہوتی ہیں۔جس طرح دل و دماغ ،فکرو احساس ،روحانیت ومادیت ایک دوسرے کے مقابل اور مخالف اس طرح رواں دواں ہیںجس طرح دن رات کا چکر ہے لیکن یہ دن رات کی طرح لگی بندھی دوڑ تک نہیں بلکہ ایک دوسرے پرسبقت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔انسان نے جب ظاہری اشیاء کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی تو اُس کے لئے اُسے باطن کے آئینے میں جھانک کررہنمائی حاصل کرنا پڑی۔اس طرح باطن اُس کا پہلا معلم ہے اور ہردورمیں اُس کی حیثیت مسلّم رہی ہے۔آج جب سائنس نے حیرت انگیز حدتک ترقی کرلی ہے تو بہت سے سوالوں کے جواب گوگل کی بجائے دل سے ہی برآمد ہوتے ہیں ۔ ہرانسان کی صلاحیت ،ارتکاز اور توجہ کے مطابق علم اُس پرمہربان ہوتا ہے۔کھوج کے اس طویل سفرکا آغاز درگاہ سے ہوا۔وہ جگہ جہاں مل بیٹھنے والے لوگ اندر کی طرف کھلنے والے درکا پتہ معلوم کرنے کی چاہ میں کھنچے آتے تھے۔یہاںوہ صوفی ان کا مرشد اور اُستاد تھاجوخود کئی کڑی

ریاضتوں کے بعد وہ مرتبہ حاصل کرچکا تھا کہ زمانے کی نبض سے موسموں کے مزاج معلوم کرسکے اور ایسا+ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ وہ اپنے دل کا ذاتِ حق سے رابطہ استوار کرنے میں بھی کامیاب ہوچکا تھااس لئے اُس کی درگاہ پرآنے والے ظاہر سے زیادہ باطن کی ترقی کے طالب تھے ۔اُس دور میں درگاہ، علم کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور تہذیبی روایتوں کی بھی امین تھی۔عرس ایک ایسے میلے کی حیثیت رکھتا تھا جس میں زمین سے جڑے ہر رنگ کی عکاسی موجود ہوتی تھی۔درگاہ اپنی جگہ پورے یقین کے ساتھ کھڑی انسان کو باطن کی طرف رجوع کرنے کی طرف متوجہ کرتی رہی جبکہ بدلتے دور کے ساتھ انسان ظاہرکی تسخیر کے لئے علم کی کئی سیڑھیاں عبور کرتا آگے بڑھتا رہا۔مدارس ،اسکول،کالج سمیت کئی ادارے وجود میں آئے اور یونیورسٹی سب سے عظیم درسگاہ کہلائی ۔درگاہ سے درسگاہ کے سفر کے دوران وقت نے بہت سے تجربات انسان کی جھولی میں ڈالے اور انسان نے کئی رازوں کی عقدہ کشائی کرکے وقت کو حیران کیالیکن اس بھاگ دوڑمیں کئی سنہری روایتیں اس سے بچھڑگئیں جو علم و صداقت کی امین اور اس کی منفرد ثقافت کی آئینہ دار تھیں۔حال اور ماضی کی شاندار علمی ،ادبی اور ثقافتی روایتوں کے مناظرمیں خودکو دیکھنے کی دعوت بنا گجرات یونیورسٹی کا تین روزہ ’’کٹھ ‘‘جس کا عنوان تھا ’’درگاہ سے درسگاہ تک‘‘۔حافظ حیات یونیورسٹی پاکستان کی تیزی سے ترقی کرنے والی یونیورسٹیوں میں شامل ہے۔سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی یونیورسٹی پرکبھی درویش منش انسان حافظ حیات کی ایک چھوٹی سی درگاہ تھی اور باقی رقبے پر وہ فصلیں جن سے طلباء اور مخلوقِ خدا فیض یاب ہوتی تھی۔علم کا دِیا اُسی دن فروزاں ہوگیاجس دن حافظ حیات نے مغلیہ عہد میں دہلی سے ہجرت کرکے وزیرآباد کے قریب ڈیرہ لگایا۔عرصے بعد روحانی بزرگ کے حکم کی تعمیل میں دریا پار آکر پرانے قلعے کے قریب سکونت اختیار کی اور اس جگہ پرایک رہائشی مدرسہ قائم کیا۔رب مسبب الاسباب ہے۔خیر کے چشموں کی صدیوں پہلے منصوبہ بندی ہوجاتی ہے اور وسیلے بنا دئیے جاتے ہیں۔جس جگہ پرحافظ حیات کا قیام تھا وہ راستہ کشمیر کو جاتا تھا۔شہنشاہ جہانگیرکشمیر جاتے ہوئے اس مقام سے گزرا تو سستانے کی غرض سے ٹھہر گیا۔جاتے ہوئے والی درگاہ کی درویشی اور خاطر تواضع سے متاثر ہوکراُنھیں پانچ مربعے زمین الاٹ کی اور لگان بھی معاف کردیا ۔حافظ حیات کی وفات کے بعد کئی صدیاں یہ زمین مختلف طاقتوروں کے لئے کشش کا باعث رہی مگرکوئی بھی اس کی ملکیت کے کاغذات پراپنا نام لکھنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔آخرکار گزشتہ دھائی میں حکومتِ پنجاب نے اسے لیز پرحاصل کرکے یہاں یونیورسٹی کے قیام کو ممکن بنایا۔یہ درگاہ سے درسگاہ تک کی وہ کہانی ہے جس کا آغازایک فردنے علم کا ایک دیا جلا کرکیا ۔ آج وہاں ہزاروں دئیے روشن ہیںاور روشنی کے اس سفرکو ’’کٹھ ‘‘نے پورے ملک تک پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔پاکستان کی تمام بڑی یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات نے ادبی اورثقافتی سرگرمیوں میںبھرپور حصہ لیا۔تین روزہ میلے میں 78ایونٹس شامل تھے ۔لڈو سے لے کر تمام بھولے ہوئے کھیل تماشے ، بیت بازی، ڈرامے، مذاکرے، مشاعرے، صوفی نائٹ، فوک میوزک، بھنگڑے، دھمال، کوئز کے ساتھ خصوصی طور پر ادب کے شعبہ میں خطوط ،مراسلہ نگاری اور داستان گوئی شامل تھی۔ریڈرزکلب کی اس کاوش نے ہم سب کو ماضی کی طرف درکھول کر دیکھنے کی طرف اُکسایا۔کبھی مراسلے، خط اور رقعے وقتی پیغام رسانی کا وسیلہ تو تھے لیکن سماجی، سیاسی اور ادبی شخصیات کے خطوط تاریخ کی حیثیت رکھتے تھے۔آج کاغذ کی جگہ اسکرین نے لے لی ہے جہاں ایک معیاد مقرر ہے ۔ پھرخود بخود پیغامات ڈیلیٹ ہوجاتے ہیں۔
لاہور،کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کے مقابلے میں ایک چھوٹے اور دور دراز علاقے میں اس بھرپور ادبی ثقافتی میلے کی کامیابی کا سہرا ہردلعزیز اور فعال وی سی ڈاکٹرضیاء القیوم کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیم کی شبانہ روز محنت کے سر ہے۔ اس وسیع و عریض احاطے میں حافظ حیات کی درگاہ کے سامنے اور دائیں بائیں مختلف شعبے ہیں ۔سامنے راہگزر جس پر روزانہ ہزاروں طلباء گزرتے ہیں انھیں سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیںاور وہیں سامنے بیٹھا وائس چانسلر روشنی پھیلانے اور جدید دنیا میں پاکستان کو باوقار مقام دلانے والے سپنے بُنتا ہے۔ موقع ملے تو درگاہ سے درسگاہ تک کی اس جیتی جاگتی کہانی کو دیکھنے کا شرف حاصل کریں وہاں بہت سی خوشگوار حیرتیں آپ کی منتظر ہیں۔ تدبیر اور تقدیر کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔تدبیر سے تقدیر کا قلم ہمنوا بنایا جا سکتا ہے۔بقول اقبال ’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے‘‘ ہماری تدبیر اور ترجیحات میں نئی نسل شامل ہوجائے تو ہم بہت جلد ترقی یافتہ ملک بن کر اُبھرسکتے ہیں۔ عظیم صوفی حافظ حیات کے حضور تصوف کے رنگ میں رنگے چند اشعار؎
کیسے لڑتی میں بھلا تدبیر سے
بندھ گئی تھی حکم کی زنجیر سے
دیکھتا جاتا ہے حیرت سے مجھے
پوچھ بیٹھی ہوں میں کیا رہگیر سے
آئینے کے سامنے تھا آئینہ
گفتگو ہوتی رہی تصویر سے
بھید رانجھا بھی نہ جس کا پا سکا
بانسری نے کیا کہا تھا ہیر سے