منتخب کردہ کالم

دشمن دار قوم…..عبدالقادر حسن

پاکستانیوں کے ملک کی تاریخ ان کے سامنے ہے جب کبھی جس کسی نے بھی ان کے ملک کے ساتھ ناانصافی کی قدرت نے اسے اس کی سخت ترین سزا دی اور ایسے لگتا ہے کہ اس کی پروا نہیں کی گئی کہ وہ کوئی پاکستانی ہے یا باہر کا۔ یہ بات میں کئی بار لکھ چکا ہوں تا کہ ہم پاکستانیوں کو احساس رہے کہ ان کا ملک محض ایک جغرافیائی اکائی نہیں ہے یہ محراب و منبر والی ایک مسجد ہے جو کسی گستاخی کو معاف نہیں کر سکتی۔

دنیا کا شاید یہ واحد ملک ہے جو کئی بار خطرے میں رہا اور اس کا وجود اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے نشانے پر رہا۔ یہ وہ ملک بھی ہے جو اپنے وجود اور وحدت کو برقرار نہیں رکھ سکا یا اسے ایسے حالات میں پھنسا دیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو بچا نہ سکا۔ یہ ملک اپنے قیام کے بعد آدھا کر دیا گیا اگرچہ اس کے مجرموں کو سخت ترین سزا ملی لیکن اس کی وحدت بحال نہ ہو سکی۔

اس ملک کے ٹوٹے ہوئے وجود سے کوئی نیا ملک وجود میں آ گیا مگر اس ملک کو جو زخم لگا وہ اس سے پیار کرنے والے پاکستانیوں کو ادھ موا کر گیا جس کے نتیجے میں وہ ایک بددل مایوس اور دکھی قوم کے فرد بن گئے جو اپنے ملک کی مضبوط نظریاتی بنیادوں کو یاد کر کے زندہ تو رہے لیکن ہر وقت خطرے اور خوف کی ایک کیفیت میں کہ نہ جانے اب کیا ہو اور ہم کب تک سلامت اور متحد رہ سکیں گے۔

ہمارے بیرونی دشمن تو ختم کر دیے لیکن اندرونی دشمن بدستور زندہ اور سرگرم رہے۔ یہ نام پھر سے یاد کرنے کی معذرت لیکن دشمنوں کو بھول جانا ایک خطرناک علامت ہے کسی نئے خطرے کی۔ بھارت کی اندرا گاندھی سے اور پاکستان کے شیخ مجیب یہ دونوں بنیادی کردار تھے ہماری تباہی کے یہ دونوں فنا کر دیے گئے لیکن باقی ماندہ پاکستان ان کے پیروکاروں کی طرف سے خطرے میں رہا اور اب تک ہے۔ سقوط ڈھاکا کے موقع پر اندرا نے جو کچھ کہا وہ پاکستانیوں کے دلوں کو چیر کر ان سے گزر گیا۔ اس نے کہا کہ ہم نے مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے۔

بھارت کی اندرا گاندھی نے یہ درست کہا کہ وہ ایک ہزار برس تک مسلمانوں کے محکوم رہے اور بالآخر ہزار برس بعد ان کی ایک حکومت نے ہم سے بدلہ لے لیا۔ ذرا اس بات کو پھیلا کر دیکھیں تو یہ انتقام خود فریبی ہے ہندو قوم جس زمین کو اپنی ملکیت اور جنم بھومی سمجھتی تھی اس پر آج ایک ایٹمی ملک زندہ ہے اور بھارت کے کسی حکمران کو اس نئے مسلمان ملک سے بدلہ لینے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ بھارت کی کامیاب حکمت عملی ہے کہ وہ اس ملک کے باشندوں کو اپنے کسی نہ کسی جال میں پھنسائے ہوئے ہے اور وہ بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے بے چین رہتے ہیں جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے ابدی دشمن کے ساتھ گہرا تعلق قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

وہ دشمن جو دشمنی سے کبھی باز نہیں آ سکتا اور اس کی قوت برداشت کسی بھی وقت جواب دے سکتی ہے اور پاکستان کو کسی صدمے سے دوچار کر سکتی ہے اس کا کوئی لیڈر کہہ سکتا ہے کہ ہم نے اپنی سرزمین کی بے ادبی اور گستاخی کا بدلہ لے لیا ہے۔ سرزمین ہند پر ایک مسلمان نظریاتی ملک کا قیام کسی ہندو کو قابل برداشت نہیں ہونا چاہیے۔ ہندوستان کی طرف سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ قیام پاکستان ان کے لیے ایک سامراجی عمل ہے جس کا انتقام لیا جانا ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا وجود جس دائمی خطرے کو لے کر سامنے آیا ہے اس کو قائم رکھنا پاکستانیوں کا نظریاتی فرض ہے اور ایک ایسا فرض جو اسے ورثے میں ملا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کے تلخ تعلق کی داستان جب تک یہ دونوں ملک موجود ہیں زندہ رہے گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں ہو چکی ہیں اور جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا کسی جنگ کا خطرہ باقی رہے گا۔ پاکستان کے بنیادی طاقت ور عناصر کو قابو رکھنے کے لیے کشمیر کا مسئلہ باقی رکھا گیا ہے اور اس مسئلے میں شدت بھی پیدا ہوتی رہتی ہے تا کہ پاکستان میں پرامن زندگی قائم ہو سکے اور ایسی ہی پاکستان دشمن سازشوں کی وجہ سے پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت کا معجزہ دکھانا پڑا جس کے بعد بھارت جیسے دشمن خوفزدہ ہو گئے اور اب وہ زیادہ بہتر اسلحہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور عالمی سطح پر پاکستان پر برتری کے لیے کوشاں ہے۔

اس ضمن امریکا بھارت کا ساتھ دے رہا ہے ایک اسلامی نظریاتی ملک اور اس پر ایٹمی طاقت یہ سب مغرب کے لیے برداشت سے باہر ہے اور بھارت کے لیے تو زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ اب بھارت ایک کمزور ملک بن چکا ہے جو پاکستان کی زد میں ہے اور پاکستان کے اسلامی نظریات اس قدر طاقت ور ہیں کہ آج بھی ہمیں کسی نہ کسی جنگی جھڑپ میں سے کوئی نشان حیدر مل جاتا ہے جو ہمیں ضرورت کے وقت کسی نئی قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ ایک ایسی قربانی جو انسانی عزم و ہمت کی انتہا سمجھی جائے۔

نشان حیدر ہمیں کسی ایسی قوم کا پتہ دیتے ہیں جو ناقابل تسخیر ہے اور دنیا کی کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت تو آج بنا ہے اس سے پہلے بھی اس کے نشان حیدر دنیا کو ایک منفرد قوم کا پتہ دیتے تھے۔ بھارت کے خلاف جنگیں اس کی زندہ گواہ ہیں جو پاکستانی قوم کی جرأت اور شجاعت کا ایک نمونہ ہیں۔ بہرکیف پاکستانی ایک ایسی زندہ و تابندہ قوم ہیں جو اپنے بل بوتے پر زندہ ہیں دنیا میں پھیلے ہوئے لاتعداد دشمنوں کے درمیان جن میں امریکا جیسی سپر پاور بھی ہے۔