منتخب کردہ کالم

دم پر پائوں..مفتی منیب الرحمن

عدلیہ

اس لفظ کا صحیح رسم الخط پانو^ (Foot)ہے،جسے آج کل مروّجہ رسم الخط میں پائوں لکھا جاتا ہے۔یہ عنوان میں نے اس لیے منتخب کیا کہ آج کل ہمارے سیاستدانوں اور میڈیا میں یہ بحث جاری ہے کہ کس کی دُم پر کس کا پائوں آگیاہے کہ چیخ وپکار نکل رہی ہے ، ہلچل مچی ہوئی ہے،ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔گویا ہماری سیاسی قیادت کو اپنے دُم دار ہونے پرکوئی اعتراض نہیں ہے ،بس یہ طے ہونا باقی ہے کہ کس کا پائوں کس کی دُم پر ہے ۔وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ببانگ دہل کہا کہ میرا پائوں کسی کی دُم پر آگیا ہے۔لیکن میں یہ نہیں بتائوں گا کہ کس کی دُم پر آگیا ہے؟،تاہم انہوں نے کہا: آخر یہ پیپلز پارٹی والے کیوں شور مچارہے ہیں ،میں نے تو اُن کا نام نہیں لیا۔اُس کے بعد وزیر اعظم جنابِ نواز شریف نے ”ادارہ قومی احتساب(National Accountability Bureau)‘‘ کے بارے میں شکایات منظرِ عام پر بیان فرمائیں کہ نیب حکومت کو کام نہیں کرنے دے رہا اور بلاوجہ بے قصور لوگوں کو پریشان کررہا ہے اور پھر انہوں نے وضاحت وصراحت کے ساتھ کہا کہ حکومت کو عوام منتخب کرتے ہیں اور کوئی اور آکر اسے معزول کردیتا ہے،جس کی وجہ سے جمہوریت کا تسلسل ختم ہوجاتا ہے اور دنیا کا اعتماد بھی قائم نہیں رہتااور پھر انہوں نے ماضی کی فوجی حکومتوں کی خرابیوں کو بیان کیا۔
سیاست دانوں کی فطرت یہ ہے کہ خواہ خود ٹیسیں اٹھ رہی ہوں مگر دوسروں کی اذیت وآزار کو دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں اور آج کل پیپلز پارٹی نون لیگ کو چھیڑ کر لطف اٹھارہی ہے اور ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی دونوںکو چھیڑ کر مزے لے رہے ہیں ۔دوسروں کی دُم پر پائوں کا لطف اٹھانے میں فائدہ یہ ہے کہ اپنی دُم نظر کے سامنے نہیں ہوتی ،یہ الگ بات ہے کہ دُم کراچی سے دبئی ، دبئی سے برطانیہ اور برطانیہ سے امریکا تک دراز ہوجائے ،توپھر اُسے نظروں سے چھپانا اور بچانا مشکل ہوتا ہے ۔
وزیرِ اعظم اور اُن کی ٹیم نے نیب کے بے انتہا اختیارات پر ایک دیدبان (Overseer)کمیشن کی صورت میں تحدیدوتوازن یعنی Check & Balanceقائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف صوبۂ خیبرپختونخوامیں اپنے ہی قائم کردہ احتساب کمیشن کے قانون میں ترمیم کرکے اس کے دانت نکال چکی ہے اور یہی کارِخیر وہاں انجام دیا ہے ،لیکن یہاں وہ مسلم لیگ نون پر تنقید کے تیر ونشتر چلا رہی ہے ۔ہم بارہا یہ عرض کرتے رہے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے اس سے بالا تر ہوکر کہ لمحۂ موجود میں تختِ اقتدار پر کون متمکن ہے ،نظامِ احتساب ،نظامِ عدل،نظامِ معیشت و معاشی منصوبہ بندی اور نظامِ حکومت کی اصلاح کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتیں اتفاقِ رائے سے آئندہ 20سال کے لیے کوئی لائحۂ عمل وضع کریں اور اُسے قومی ایجنڈے اور قومی منشور کا درجہ دیں ۔پھر آئندہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت بلاشرکتِ غیرے یا دوسری سیاسی جماعتوں کے اشتراک کے ساتھ اقتدار میں آئے ،وہ اس قومی ایجنڈے سے انحراف نہ کرے ،البتہ وقتی تقاضوں کے ساتھ حکمتِ عملی اور ترجیحات کے تعیّن میں ردّو بدل کا اختیار ہر دور کی منتخب حکومت کو حاصل ہونا چاہیے ۔لیکن یہ قومی ایجنڈا بھی تب مرتّب ہوسکتا ہے کہ چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں کو بلیک میل نہ کریں اورہر ایک اپنی نمائندگی کے حُجم(Size) کے مطابق اپنی اور دوسروںکی باتوں کو وزن دیں ،ورنہ ایک چھوٹا گروہ پورے نظام کو بلیک میل کرنے لگ جائے تو قومی اِجماع (Consesus)یا اتفاقِ رائے حاصل کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔
جہاں تک نظام کی خرابیوں کا تعلق ہے تو وہ اظہر من الشمس ہیں ،لیکن ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہر دور کے اہلِ اقتدار ان خرابیوں کو کم کرنے کی بجائے اِن میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں اور قوم بدستور بند گلی میں کھڑی رہ جاتی ہے ،اس کی مثال بین الاقوامی اور داخلی قرضوں کا روز بروز اضافہ ہے ۔ہر دور کی حزبِ اختلاف قومی قرضوں کی شرح میں غیر معمولی اضافے کا دوش اُس وقت کی برسرِ اقتدار حکومت یا جماعت کو دیتی ہے ،لیکن جب اس کی باری آتی ہے تو اس کا شعار بھی پہلے جیسا یا اس سے بھی بدتر ہوتا ہے۔لہٰذا ہماری قوم کی صورتِ حال یہ بن جاتی ہے کہ :”بارش سے بچاتو پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہوایا کفن چور سے نجات ملی تو مُردے کی پیٹھ میں کیل ٹھونکنے والے سے واسطہ پڑگیا‘‘،گویا قوم اس شعر کی مجسم تصویر بنے رہتی ہے کہ:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہ رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
موجودہ حکومت کو سب نے متوجہ کیا کہ گردشی قرضوں (Circular Debt)کی ادائیگی کے لیے جو کھربوں روپے قومی خزانے سے تقسیم کیے گئے ہیں ،اُس کی تفصیل سے قوم کو آگاہ کیا جائے ۔لیکن وزیرِ خزانہ جنابِ اسحاق ڈار نے لَیتَ ولَعَلَّ سے کام لیا ، کبھی کہاکہ ہم وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ پر ڈال دیں گے ،لیکن یہ تفصیل پردۂ اخفاہی میں رہی اور آج پھر اُس پر سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کس کو کیا دیا ،اس کی تقسیم کا فارمولا کیا قرار پایااور اگرکسی کو کم اور کسی کو زیادہ دیاگیا ہے تو اُس کا میرٹ کیا تھا؟۔اسی طرح قطر سے ایل این جی کے بارے میں شروع سے سوال اٹھائے جاتے رہے ،کیونکہ قطرسے اُس کی درآمد شروع ہوچکی تھی،تو اُس کی قیمت کو صیغۂ راز میں رکھنے میں کیا حکمت کارفرماتھی ،اُس کو پارلیمنٹ میں پیش کیوں نہیں کیا گیا ،جب کہ مسلسل مطالبہ کیا جارہا تھا۔
اسی لیے اللہ عزوجل نے قرآنِ مجید میں فرمایا:”بلکہ انسان اپنے (خیر وشر )پرخود آگاہ ہے ،خواہ وہ (کتنے ہی) عذر تراشتا رہے ،(القیامہ:14۔15)‘‘۔لہٰذا معاشی منصوبوں اور اُن کے بارے میں قومی خزانے سے رقوم کے اجراء اور اُن پر نگرانی کے حوالے سے جو طریقۂ کار (Rules of Business) آئین وقانون میں طے ہے،حکمرانوں کو اس کی پاس داری کرنی چاہیے۔یہ مسئلہ بھی ہر ایک کے علم میں ہے کہ ہمارے ہاں قوانین وضوابط کافی پیچیدہ ہوتے ہیں اور وہ پائوں کی زنجیر بن جاتے ہیں،پھر اُن میں ایسے نقائص (Loopholes)رکھے جاتے ہیں کہ کسی بھی وقت موم کی ناک کی طرح جدھر چاہیں موڑ دیں ،وقت کا صاحبِ اقتدار طاقت کی پوزیشن میں ہو تو اس کے حسبِ منشاتاویل اور توجیہ کی گنجائش نکال لی جاتی ہے اور خدانخواستہ وہ کسی مرحلے میں زیرِ عتاب آئے تو انہی نقائص کو اُس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔نیب کے قوانین جنرل پرویز مشرف نے سیاستدانوں کو زیرِ دام لانے کے لیے بنائے تھے ، اس لیے اُن سے کرپشن کو پوری طرح سے کنٹرول کرنے کی تخیّلاتی معراج (Utopia) کبھی حاصل نہ ہوسکی ،بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ سیاستدانوں کو اُن کی بدعنوانیوں یا غیر قانونی اقدامات کی فائلیں دکھاکر اور ڈرادھمکا کر انہیں قائد اعظم مسلم لیگ کے کیمپ میں دھکیلا گیا اور آخر میں قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے سادہ اکثریت نہ ملنے پر پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے 20منتخب ارکان کو ڈرا دھمکاکر ایک باغی گروپ ”پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین پیٹریاٹ ‘‘کے نام سے تشکیل دیا گیا اور پھر اُسے قائد اعظم مسلم لیگ کا اتحادی بناکر بصدمشکل ایک ووٹ کی اکثریت سے جناب ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم منتخب کرایا گیا ۔ الغرض نیب کے قانون کے پیچھے کرپشن کو ختم کرنے کے لیے اخلاص اور نیک نیتی کارفرمانہیں تھی بلکہ اِسے سیاست دانوں کو دھمکی دینے اور ڈراوے (Threatening) کے لیے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا گیا اور اِسی سبب اس کے قواعد وضوابط عدل کے مسلّمہ معیارات کے مطابق مقرر نہیں کیے گئے اور اِس میں سودا بازی (Plea Bargain)کی شِق رکھی گئی تاکہ لوٹی ہوئی قومی دولت کا ایک حصہ قومی خزانے کو لوٹاکر اور کچھ رشوت میں دے کر اپنی تطہیر کرادی جائے اوربدعنوان شخص دوبارہ باعزت ہوکراعلیٰ سرکاری یا قومی نمائندگی کے منصب پر فائز ہونے کا اہل قرار پائے۔لہٰذا یہ کہنا سو فیصد بجا ہے کہ اس قانون کی تشکیل میں بدنیتی کارفرما تھی ،یہ عدل کے مسلّمہ معیارات پر پورا نہیں اترتا،لہٰذا اسے واضح،دوٹوک اور شفاف بنایا جانا چاہیے ۔اس میں قومی ادارۂ احتساب کے چیئرمین اور انتظامی بورڈ کے پاس امتیازی صوابدیدی اختیارات نہیں ہونے چاہئیں ،کیونکہ ایک ہی جرم میں بالفرض اگر پانچ افراد ملوّث ہیں ،تو وہ چار کو باعزت بری کردیتے ہیں اور ایک کو مجرم قرار دے کر قانون کے شکنجے میں کَس لیتے ہیں ،یہ صوابدیدی اختیار ختم ہونا چاہیے اور قانون کا اطلاق مساویانہ ہونا چاہیے۔
لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان بھی ایک دوسرے پر بد اعتمادی کی وجہ سے 2008ء سے 2016ء تک اس کے متبادل کوئی شفاف اورمنصفانہ نظامِ احتساب وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں،کیونکہ اُن کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ یہ ایک ایسا پھندا ہے جو آگے چل کر ہمارے گلے ہی میں فِٹ ہوگا اور ہم ہی اس کا نشانہ بنیں گے۔اس لیے یہ تو کہنا بجا ہے کہ پارلیمنٹ مقتدر ادارہ ہے ،لیکن یہ اقتدار واختیار عوام کے حقوق اور قومی امانتوں کے تحفظ کے لیے عطا ہوا ہے ،نہ کہ غیر منصفانہ لوٹ مار ، بدعنوانیوں کے فروغ اوراپنے لیے امتیازی حقوق حاصل کرنے کے لیے ،سو پارلیمنٹ کواس بارے میں ایسا نظام وضع کرنا چاہیے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھائے اوراسے پوری قوم کااعتمادحاصل ہو۔
زبان وبیان:پاکستان سپر لیگ میں شریک کرکٹ ٹیموں میں ایک ”پشاورزَلْمَے‘‘ہے ،زَلْمَے پشتو کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: جوان۔میڈیا والے اس لفظ کو ”زَلمی‘‘پڑھتے ہیں،جو غلط ہے۔