منتخب کردہ کالم

دوسرا ’بنگلہ دیش‘ ہرگز نہیں……عبدالقادر حسن

دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جس کو خود اس کے باشندوں کی مدد سے توڑا جا سکتا ہو البتہ پاکستان واقعتاً ایک ایسا ملک ہے جس کو اس کے اپنے باشندوں کے ذریعے توڑا جا چکا ہے اور دشمنوں کے جاسوس اب باقی ماندہ کو توڑنے کے لیے کوشاں ہیں اور وہ یہ کام اپنے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے کر رہے ہیں۔

اس سے پہلے وہ مشرقی پاکستان کو ملک سے علیحدہ کر چکے ہیں یعنی نصف پاکستان کو پاکستان سے الگ کر دیا اور اس میں انھیں خود پاکستانیوں کی امداد حاصل تھی اور پاکستانی سیاست دان ارادتاً یا حماقتاً ان کے آلہ کار تھے۔ یہ ابھی کل کی بات ہے اور آج جب ہم کسی بھارتی جاسوس کو پکڑتے ہیں تو وہ اعتراف کرتا ہے کہ اب وہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے مشن پر تھا۔ پاکستان کو مزید توڑنے کا مشن ایک ممکن مشن ہے اور خود پاکستان کے اندر سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ہم پاکستان کی فرمانروائی سے تنگ ہیں، ہمیں اس سے الگ کر دو۔

بلوچستان کے صوبے سے ایک مدت سے علیحدگی کی باتیں سامنے آ رہی ہیں اور بھارت کو شہ مل رہی ہے کہ وہ اپنے جاسوسوں اور ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان میں علیحدگی کے جذبات کو عملی شکل دینے کی کوشش کرے۔ پاکستان میں اس کا جاسوس پکڑا گیا ہے جو اسی مشن پر تھا اور پرامید تھا۔ اس نے جو کچھ بتایا ہے وہ بھارت کی پاکستان دشمنی کے ثبوت کے لیے کافی ہے لیکن پاکستانی بے چارے کیا کریں کہ ان کے اعلیٰ ترین لیڈر جب الیکشن میں بھاری اکثریت لے کر آتے ہیں تو برملا کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستانی عوام نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات یعنی دوستی بنانے کے لیے ووٹ دیے ہیں۔

ہمارے سیاسی فہم سے محروم تجارت پیشہ لیڈر پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ کر بھارت کے دورے پر جاتے ہیں تو وہاں کے (فولاد) اسٹیل کے بہت بڑے تاجر سے اس کے ہاں کھانے پر ملاقات کرتے ہیں، اپنے بیٹے کو بھی لندن سے بلا کر اس فولادی کاروباری میزبان سے ملاتے ہیں اور یوں اس سے ایک خاندانی تعلق قائم کرتے ہیں۔ اب اسی قدیمی دشمن بھارت کا کوئی جاسوس جب ہمارے ہاں آتا ہے تو بے دھڑک ہو کر کھل کر باتیں کرتا ہے اور پاکستان کے خلاف اپنے پروگرام کا ذکر کرتا ہے۔

پاکستان کو مزید کمزور کرنے اور اس کے کسی حصے کو اس سے الگ کرنے میں بھارت سے بڑھ کر کون خواہشمند ہو سکتا ہے چنانچہ بلوچستان کو بنگلہ دیش پر قیاس کیا جا رہا ہے اور اس صورت حال کے پیدا کرنے میں بڑا حصہ پاکستان کی حکومتوں کا ہے جنہوں نے اس صوبے میں سرداری نظام کو نہ صرف برداشت کیا ہے بلکہ اس کو ترقی دی ہے۔ بھٹو صاحب نے سرداری نظام کو ختم کرنے کی بات کی تھی مگر یہ سردار ان کے پیچھے پڑ گئے۔ مرحوم اکبر بگٹی جو خود ایک سردار تھے، ایک بار مجھ سے کہنے لگے کہ سرداری تو اب الزام بن کر رہی گئی ہے۔

ہمارے ہاں سالانہ چند روپوں کے سرکاری وظیفے والے سردار بھی ہیں جو اس وظیفہ کو خواہ وہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو اس پر اکڑتے رہتے ہیں اور اسے بھی اپنی سرداری کا ایک ثبوت سمجھتے ہیں جب کہ بلوچستان کے عوام کے مسائل اور مشکلات کا ذمے دار یہی سرداری نظام ہے مثلاً بلوچستان میں ایک بڑی تعداد چرواہوں کی ہے، وہ جب اپنے ریوڑ کے ساتھ چراگاہوں کی تلاش کرتے ہیں تو راستے میں متعلقہ سردار کے کارندے ان کا راستہ روک کر ایک دو بکرے یا مینڈھے پکڑ لیتے ہیں اور اس سرداری تاوان پر احتجاج نہیں ہوتا۔ یہ ایک معمول ہے۔

اسی طرح بلوچستان کے کاشتکاروں کی آمدنی میں بھی سردار کا حصہ ہوتا ہے بلکہ کسی ملازم کی تنخواہ میں بھی سردار حصہ دار بن جاتا ہے۔ اگر اس سرداری لوٹ کھسوٹ سے کوئی انکار کرے تو سرکار دربار میں بااثر سردار اس پر جینا حرام کر دیتا ہے۔

اس طرح بلوچستان کے صوبے میں ایک مختلف پاکستان ہے اور جب کبھی اس صوبے میں اصلاحات کی کوشش کی جاتی ہے تو وہاں کے بااثر لوگ متحدہ مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ سرداری نظام جو اس صوبے کا اصل مرض ہے، مدتوں سے رائج ہے۔آپ یوں سمجھیں کہ صوبہ بلوچستان ابھی آزاد نہیں ہوا اور اس برطانوی سرکار کی حکومت ہے جس کے اپنے مقاصد ہیں اور بلوچستان ابھی تک ایک انگلش سرکار کی ریاست ہے۔

اگر بھارت ایسے صوبے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتا ہے تو یہ کام اس کے لیے کتنا آسان ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بھارت کو اب پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت نہیں، خود پاکستانی حکمران اور سیاست دان بندیا اور ساڑھی پر مرتے رہیں گے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد ہم نے خود رکھی تھی۔ ان کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا تھا اور ان کی معاشی ترقی پر توجہ نہیں دی تھی بلکہ ان کی پیداوار پٹ سن کو برآمد کر کے اس کا زیادہ تر زرمبادلہ ہم نے استعمال کر لیا تھا۔ ڈھاکا کے ایک صحافی کے ساتھ میں مال روڈ لاہور سے گزر رہا تھا جہاں الفلاح نام کی بلڈنگ نئی نئی بنی تھی تو اس صحافی نے بے ساختہ کہا کہ اس پر پٹ سن کی آمدنی لگی ہے۔

یہ بات واقعتاً غلط تھی مگر ایسے موقعوں پر ہر طرح کی بات کی جا سکتی ہے۔ جو کچھ بھی تھا بھارت کو ہم نے ایک موقع فراہم کر دیا تھا جس کا اس نے بڑی دانش مندی کے ساتھ فائدہ اٹھایا اور اندرا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ ہم نے مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اندرا کے یہ الفاظ ہر پاکستانی کو یاد رکھنے چاہئیں کہ اس کی غیرت جاگتی رہے۔