منتخب کردہ کالم

دو نومبر، تخت یا تختہ؟ …. ابراہیم راجہ

دو نومبر، تخت یا تختہ؟ .

جلد بازی سے جیتی بازی پلٹ جاتی ہے، بہت سوں کو اگرچہ یہ بات دیر سے سمجھ آتی ہے، شاید کپتان کو بھی، وہ کپتان جس کی ٹیم میں کھلاڑی کم، اناڑی زیادہ ہیں، مقدمہ ان کا مضبوط، حکمت عملی مگر کمزور ہے۔
سیاست ہو یا کھیل، جذبات سے نہیں، حکمت سے میدان مارا جاتا ہے۔ منزل کے قریب بھٹک جانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پیپلز پارٹی کو کپتان بہت پہلے پچھاڑ چکا۔ وہی پیپلز پارٹی جو اب بھٹو یا بی بی کے نام سے نہیں، زرداریوں اور تالپوروں کے نام سے جانی جاتی ہے۔ آٹھ سال کی آمریت کے بعد، بی بی شہید کے خون کے صدقے اقتدار پیپلز پارٹی کی جھولی میں آ گرا، پھر پانچ برس ریکارڈ توڑ لوٹ مار ہوئی، خود بھی لوٹا، اتحادیوں سے بھی لُٹوایا۔ اے این پی کی جمہوریت کرپشن کے ایزی لوڈ کے گرد گھومتی رہی، پیپلز پارٹی کی جمہوریت وفاق میں ”رینٹل‘‘ ہوئی، اس کے وزیر اعظم کو اپنے نام سے کم، ”رینٹل‘‘ کے نام سے زیادہ پکارا جانے لگا۔ سندھ میں سائیں سرکار کے ”منظور کاکے‘‘ پارک، پلازے، پلاٹ سب چٹ کر گئے۔ پوری عرق ریزی سے کرپشن کی نت نئی اقسام دریافت کی گئیں، چائنہ کٹنگ جیسی اصطلاحات متعارف ہوئیں، ہسپتالوں، سکولوں اور فلاحی اداروں کی زمینوں تک کو نہ بخشا گیا۔ ایک وفاقی وزیر نے تو علی الاعلان فرمایا کہ کرپشن میں مساوات ہونی چاہیے، یعنی سب مل کر لوٹیں لیکن برابر ی کی بنیاد پر۔ پورے پانچ برس پورے اعتماد کے ساتھ لوٹ مار کی گئی، کیوں؟ لوٹنے والے جانتے تھے کہ گلا سڑا نظام ان کا احتساب نہیں کر سکتا، وہ لوٹ مار بھی کریں گے، دوبارہ الیکشن بھی جیتیں گے اور پھر وہی مزے۔ سب کچھ منصوبے کے عین مطابق چل رہا تھا لیکن 2011ء کی ایک شام نے بہت کچھ بدل دیا۔ مینار پاکستان کے سائے تلے، تیس اکتوبر کی اس شام‘ جس کے دامن میں کئی اجالے تھے‘ کپتان نے امید کے نئے دیے جلائے، کرپشن اور ناانصافی کے خلاف بھڑکتے جذبات کو سمت اور آواز بخشی۔کرپٹ مافیاز، بوسیدہ نظام اور اس کے محافظوں کو کپتان نے للکارا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے عوام کا لشکر اس کے پیچھے چل پڑا۔ کئی کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود، کپتان نے پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی کا صفایا کر دیا۔ بڑے بڑ ے بُرج اُلٹ دیے اور تحریک انصاف دوسری بڑی سیاسی قوت بن گئی۔
پیپلز پارٹی کو فتح کرنے کے بعد، کپتان کا اگلا معرکا مسلم لیگ ن کے ساتھ تھا۔ ہر فریق کے ساتھ، ایک ہی حکمت عملی سے جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ اس لڑائی میں جلد بازی کپتان اور اس کے کھلاڑیوں نے کی۔ الیکشن پر تحریک انصاف کے تحفظات اپنی جگہ، لیکن اس کا پہلا دھرنا بے وقت، بلا جواز ثابت ہوا۔ کپتان پر انگلیاں اٹھیں اور اشاروں پر ناچنے کی چھاپ تحریک انصاف پر لگی۔ ایک نہیں، بارہا غلطیوں کے باوجود، کپتان کی ذاتی مقبولیت کے باعث تحریک انصاف پُراسرار ناکام دھرنے کا دھچکا بھی برداشت کر گئی۔ وقت گزرا اور پاناما لیکس کا سیکنڈل سامنے آ گیا۔ ایسا سیکنڈل جو تحریک انصاف جیسی حقیقی اپوزیشن کا موثر ترین ہتھیار بنا۔ کپتان نے یہ مقدمہ اداروں کے سامنے رکھا اور عوام کے بھی لیکن ایک بار پھر جلد بازی نے بازی پلٹ دی۔ اسلام آباد بند کرنے کے فیصلے کو عوامی پذیرائی نہیں ملے گی۔ یہ بات سمجھنے کے لیے افلاطونی عقل درکار نہیں تھی۔ کسی بھی شہر میں سکولز، ٹرانسپورٹ اور کاروبار بند کروا دیا جائے تو اذیت کسے پہنچے گی؟ شہریوں کا ردعمل کیا ہو گا؟ عدالتیں اس
معاملے پر کیا حکم صادر کر سکتی ہیں؟ کپتان کی تحریک کے طفیل، پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے عوامی دبائو پہلے ہی موجود تھا، اداروں کے لیے بھی اس معاملے تحقیقات کو نظر انداز کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ جلسوں کے ذریعے اس دبائو کو برقراررکھنا مشکل نہیں تھا، پھر اسلام آباد بند کرنے جیسا غیر مقبول فیصلہ کیوں کیا گیا؟ ایسا فیصلہ جس میں قانونی پیچیدگیاں بھی تھیں؟ کیا اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت نہیں تھی؟ خاص طور پر اس وقت جب سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت شروع کر دی تھی۔ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ سماعت کے ساتھ ساتھ، کپتان عوامی عدالتوں میں بھی دبائو بڑھاتا رہتا، آئین کے دائرے میں رہ کر‘ حکومت کو بھی قانونی بحثوں کے پیچھے چھپنے کا جواز نہ ملتا۔
کپتان جن کھلاڑیوں کے حصار میں ہے، ان کی سیاسی قابلیت اور صلاحیت کا پول بھی کھل چکا۔ درجنو ں بے لوث کارکن پٹتے رہے، گرفتار ہوتے رہے اور پوری قیادت بنی گالہ کے قلعہ میں چھپی رہی۔ اس قیادت کو خوف کس بات کا تھا؟ پولیس والے جب کارکنوں پر ڈنڈے برسا رہے تھے، کوئی رہنما برائے نام مزاحمت یا ہمدری تک کے لیے اپنے قلعہ سے باہر کیوں نہ آیا؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکومت انہیں گرفتار کرنے، یا ان پر تشدد کی حماقت نہیں کرے گی؟ اس سے پہلے پی ٹی وی حملہ کیس میں بھی کارکنوں کو بے یارومددگار چھوڑا گیا۔ تحریک انصاف اور طاہرالقادری نے اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا، اور بیچارے کارکن مہینوں جیلوں میں سڑتے رہے۔ اس کیس میں گرفتار کئی نوجوان کارکنوں کے تعلیمی کیریئر برباد ہو چکے۔
شیخ رشید کی سیاست سے لاکھ اختلاف لیکن سیاسی کارکن انہوں نے خود کو ثابت کر دیا۔ یہ بھی عیاں ہو گیا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو کم، ان کے رہنمائوں کو سیاسی تربیت کی زیادہ ضرورت ہے۔ صرف پیسوں اور زبانی کلامی دعووں سے کوئی لیڈر نہیں بنتا۔ تحریک انصاف کے پاس اب بھی اسلام آباد بند کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کی گنجائش موجود ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اس کا جواز بھی موجود ہے۔ پسپائی کا کوئی تاثر اس سے نہیں ملے گا‘ اور حکومت مظلومیت کا لبادہ بھی نہیں اوڑھ سکے گی۔ پاناما کیس کی سماعت پہلے ہی شروع ہو چکی، الیکشن بھی زیادہ دور نہیں، دو نومبر کپتان کی سیاست کا آخری دن نہیں، فیصلہ کن معرکے کے لیے کئی دو نومبر ابھی اور آئیں گے۔ جلد بازی جیتی بازی پلٹ دیتی ہے، یقینی فتح ہار میں بدل جاتی ہے۔ بہت سوں کی سمجھ میں یہ بات اگرچہ دیر سے آتی ہے، شاید کپتان اور اس کے کھلاڑیوں کو بھی