منتخب کردہ کالم

دو نومبر… سیف ایگزِٹ!…. رئوف طاہر

دو نومبر… سیف ایگزِٹ!

یوں لگتا تھا جیسے عمران خان نے 28 اکتوبر ہی کو ”2 نومبر‘‘ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ ایک روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت اور خان، دونوں کے لئے ریڈ لائنز کا تعین کر دیا تھا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی پُرامن احتجاج کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دے رہے تھے (پُرامن دھرنا بھی اسی ذیل میں آتا ہے)۔ لیکن اس طرح کہ کسی دوسرے شہری کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔ دورانِ سماعت خان کی تقاریر کے کلپس بھی دکھائے گئے‘ جس پر فاضل جسٹس کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں یہ احتجاج کا نہیں بلکہ حکومتی مشینری کو روکنے کا منصوبہ ہے، وہ کس قانون کے تحت شہر بند کر رہے ہیں۔ کسی کو سڑکیں بند کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جنابِ جسٹس نے خان کو 31 اکتوبر کو پیش ہونے کا حکم بھی دیا، تاکہ اس کی موجودگی میں اس کی تقاریر کے کلپس دکھائیں جائیں اور وہ وضاحت کر سکے کہ اس نے یہ بیان کیسے دیا، کہ راستے بند کرکے حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ فاضل عدالت نے حکومت کو بھی ہدایت کی کہ خان کو پُرامن احتجاج کے لئے جگہ اور اس ساتھ ضروری سکیورٹی اور سہولتیں بھی بہم پہنچائی جائیں۔ اس موقع پر حکومت کو کنٹینر لگا کر راستے بند نہ کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔
اِدھر خان 2 نومبر کے اعلان پر قائم تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انصاف کے ادارے راستے میں نہ آئیں ورنہ ملک میں انتشار برپا ہو گا۔، تو کیا یہ عدالت کے حکم کو تسلیم نہ کرنے کا اشارہ تھا؟ اُدھر سپریم کورٹ 2 نومبر سے ایک روز پہلے پاناما کیس کی سماعت کا اعلان کر چکی تھی‘ جس پر وزیر اعظم کی اپنے قانونی مشیروں کو ہدایت تھی کہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار (جیورسڈکشن) کو چیلنج کرنے کی بجائے کارروائی کو آگے چلنے دیں۔ الیکشن کمیشن 2 نومبرکو نواز شریف (اور خود خان) کے خلاف بھی پٹیشن کی سماعت کا آغاز کر رہا ہے، لیکن خان 2 نومبر کے پروگرام پر قائم تھا۔ استعفیٰ یا تلاشی، اس کا اصرار تھا‘ جس کے بغیر وہ حکومت کو نہیں چلنے دے گا۔ یہ وزیرِ اعظم سے اس روایت کے آغاز کا مطالبہ تھا کہ کوئی بھی لیڈر ایک ہجوم کے ساتھ دارالحکومت پر یلغار کر دے اور وزیرِ اعظم مستعفی ہو جائے۔ یہ مستقبل کے لئے بڑی خطرناک ”نظیر‘‘ (precedent) ہوتی۔
خان اپنے جن جلسوں کو پاکستان کے 20 کروڑ عوام کے جذبات کا مظہر قرار دے رہا ہے، ایسے ہی جلسے انہی دنوں فضل الرحمٰن بھی کر رہے ہیں۔ 16 اکتوبر کو کراچی میں بلاول کی ریلی بھی چھوٹی نہ تھی۔ پھر خان کے اپنے صوبے کے پی کے میں خود مسلم لیگ ن کے بڑے بڑے جلسے۔ شیخ رشید اور چودھریوں کے سوا حزبِ اختلاف کی کون سی جماعت ہے جو خان کے اس طریقِ سیاست کی حمایت کر رہی ہو، تو کیا ان کے ووٹرز اور سپورٹرز پاکستان کے عوام نہیں؟ عوام کے ایک جتھے کے زور پر، چاہے وہ ہزاروں، بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں، یہ حق کیسے دے دیا جائے کہ وہ دارالحکومت پر حملہ آور ہو، یا اس کا محاصرہ کر لے اور کاروبارِ حکومت کو معطل کر دے۔ کیا پاکستان سرزمینِ بے آئین ہے یا عہدِ قدیم کا کوئی قبائلی معاشرہ؟
27 اکتوبر کی شام اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کا یوتھ کنونشن 2 نومبر کے اسی پروگرام کی تیاری کا حصہ تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ جسے آئینی اور قانونی حق قرار دینے سے انکار کر چکی تھی۔ فاضل جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے یہ استفسار بھی کیا تھا کہ اگر کوئی کسی کو قتل کرنے کا اعلان اور ارادہ ظاہر کرے تو کیا آپ قتل ہونے کا انتظار کریں گے؟ (یا اسے روکنے کے لئے قبل از وقت اقدامات کریں گے)۔ لیکن خان کو تو اس اعلان میں بھی عار نہ تھی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کسی کارروائی کے جواب میں اس کے ٹائیگر نہتے نہیں ہوں گے۔
ان تین برسوں میں تحریر و تقریر اور جلسے جلوس کے آئینی حق کے احترام کے حوالے سے نواز شریف کی ”بادشاہت‘‘ کا طرزِ عمل قابلِ رشک رہا تھا۔ 2014ء کی دھرنا بغاوت کے جواب میں تو اس نے غیر معمولی برداشت، صبر اور حوصلے سے کام لیا۔ اس کے بعد بھی خان کے کسی جلسے جلوس کی راہ روکنے کی بجائے اسے قانون کے مطابق سکیورٹی اور ضروری سہولتیں بھی مہیا کیں۔ ایک دوست نے دلچسپ تبصرہ کیا: تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے اور احتجاج کرنا اس کا جمہوری حق، اور پھر اپنے جمہوری حق کا آغاز ان الفاظ سے کرتی ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں، بادشاہت ہے۔ اورنج لائن کیس میں چیف جسٹس جمالی کے ریمارکس کو وہ اپنے اس دعوے کے حق میں دلیل بناتی ہے۔ کیا عزت مآب چیف جسٹس یہ وضاحت کرنا پسند فرمائیں گے کہ ان کے ریمارکس کا مفہوم وہی تھا‘ جو خان اور اس کے رفقأ نکالتے ہیں۔ خان 2 نومبر کو جو کچھ کرنے جا رہا ہے وہ جمہوریت نہیں، یہ سراسر غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے۔ آئین اور جمہوریت کو خطرے میں ڈالنے والا کوئی اقدام کسی کا جمہوری حق نہیں ہو سکتا۔ 27 اکتوبر کو یوتھ کنونشن کے شرکا کی گرفتاری پر خان نے اگلے روز خود کو ایک بڑی آزمائش میں ڈال دیا تھا، اسلام آباد سمیت ملک بھر میں بھرپور احتجاج کا اعلان۔ اِدھر فرزند لال حویلی نے راولپنڈی کے بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا 29 اکتوبر کو سارا پنڈی سڑکوں پر ہو گا‘ کوئی دکان نہ کھلے گی ۔ علمائے کرام سے بھی اس کی اپیل تھی کہ نمازِ جمعہ کے بعد نمازیوں کی قیادت کرتے ہوئے کمیٹی چوک کا رخ کریں۔ خان نے بھی اس شرکت کا اعلان کر رکھا تھا۔ اور پھر اسلام آباد اور پنڈی سمیت سارے ملک میں یومِ احتجاج پر جو بیتی، عوام نے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا، وہ ٹی وی چینلز پر ساری دنیا نے دیکھ لیا۔ اس شام ایک ٹی وی چینل سے گفتگو میں جنابِ شیخ اپنے گرفتار کارکنوں کی تعداد سترہ، اٹھارہ اور پی ٹی آئی کے گرفتار شدگان کی تعداد سینتیس، اڑتیس بتا رہے تھے۔
خان نے 29 اکتوبر کو 2 نومبر کے پروگرام کی فل ڈریس ریہرسل کا اعلان کیا تھا (بعد میں اسے وارم اپ ریلی کا نام دے دیا گیا)۔ 28 اکتوبر کے تجربے کے بعد اسے ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ 29 اکتوبر کی صبح بنی گالا میں شب گزارنے والے کارکنوں سے گفتگو میں خان نے گزشتہ روز کے (ناکام) احتجاج کو نیٹ پریکٹس قرار دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ گرفتاری سے بچیں اور اپنی توانائیاں 2 نومبر کے اصل میچ کے لئے سنبھال کے رکھیں۔ جب دارالحکومت میں پانی پت کا فیصلہ کن معرکہ ہو گا۔
کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ خان 2 نومبر کی آزمائش سے بھی بچ نکلنے کا سوچے؟ یکم نومبر کو سپریم کورٹ اور 2 نومبر کو چیف الیکشن کمیشن میں شروع ہونے والی کارروائی کو ”سیف ایگزٹ‘‘ کے طور پر لے اور 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے بجائے ملک گیر شٹرڈاؤن کی اپیل کو اپنی تائید و حمایت کا ذریعہ بنا لے۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا؟ عوامی تائید و حمایت کے حوالے سے ایک مثال: 18 اپریل 1993ء کی شب صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی (پہلی) حکومت پر شب خون مارا تو معزول وزیرِ اعظم کی طرف سے کسی اپیل، کسی اعلان کے بغیر اگلے روز ملک بھر میں رضاکارانہ ہڑتال تھی۔
سید احسان اللہ وقاص کی وضاحت: 23 اکتوبر کے جمہور نامہ (مارشل لاء میں سویلین وزرأ) کے حوالے سے احسان اللہ وقاص کی محبت بھری کال آئی۔ ان سے ہمارا برادرانہ تعلق کوئی 40 سال پر محیط ہے۔ جمعیت سے وابستگی کے دنوں میں وہ ہمارے ناظم بھی رہے۔ 1978-79ء میں ضیأالحق کابینہ میں جماعتِ اسلامی کے تین وزرأ میں چوہدری رحمت الٰہی (وزیرِ پانی و بجلی) بھی تھے۔ وقاص صاحب جماعت کی طرف سے چوہدری صاحب کے معاون تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیرِ پانی و بجلی واپڈا ہاؤس کے دورے پر پہنچے تو چیئرمین جنرل فضل رازق نے بڑے دروازے پر ان کا پُرجوش خیرمقدم کیا اور یہ بھی بتایا کہ ان کے برادرِ خورد جنرل فضلِ حق (تب گورنر سرحد) نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ چوہدری صاحب کا شایانِ شان استقبال کیا جائے۔ مزید یہ کہ چوہدری رحمت الٰہی صوبہ سرحد کے دورے پر گئے تو جنرل فضلِ حق کا اصرار تھا کہ وہ کہیں اور نہیں بلکہ گورنر ہاؤس میں ان کے مہمان کے طور پر قیام پذیر ہوں گے۔