منتخب کردہ کالم

روز ویلٹ ہوٹل کا خریدار کون…منیر احمد بلوچ

امریکہ میں پی آئی اے کے ملکیتی ہوٹل روز ویلٹ کو بیچنے کی تیاریاں عروج پر ہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا پس پردہ سودا مبینہ طور پر چند ماہ ہوئے طے پا چکا ہے لیکن چونکہ پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال اور ا س کے نتیجے میں ہونے والی دو پراسرار ہلاکتوں کی وجہ سے نئے بجٹ کی منظوری تک اسے مخفی رکھا جا رہا ہے۔ گوکہ اس کو بیچے جانے کی اس خبر کی ابھی با قاعدہ تصدیق نہیں ہو سکی اس لئے انتہائی محتاط لہجے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ہوٹل اپنی فروخت کے بہت سے مراحل طے کر چکا ہے جس کی باز گشت گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان کے میڈیا میں بھی گونج رہی ہے۔ اگر اس کی مو جودہ قیمت کا اندازہ لگانا ہو تو پھر سردار فاروق لغاری مرحوم کے مہران سکینڈل اور ان کے ملکیتی رضی فارم کے کئے گئے سودے کے سکینڈل کے وقت اختیار کئے جانے والے عمل کوسامنے رکھنا پڑے گا۔ اس وقت کے اپو زیشن لیڈر میاں محمد نواز شریف1994 ء میں ایک جلوس کی صورت میں مسلم لیگی قیا دت کے ہمراہ خود رضی فارم ڈیرہ غازی خان پہنچے تھے اورانہوں نے رضی فارم پر کھڑے ہو کر سب سے پہلا جملہ یہ ادا کیا تھا ” رضی فارم کی مہران بینک کو بیچی جانے والی زمین کی قیمت اور گزشتہ تین ماہ میں اس فارم کے ارد گرد کی جو زمین رجسٹرار کے ذریعے فروخت ہوئی ہے، اس کی قیمت میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ مہران بینک نے صدر لغاری کی زمین مارکیٹ سے بہت ہی مہنگے داموں خریدی ہے‘‘۔
امریکی صدر تھیوڈر روز ویلٹ کے نام پر1924ء میں تعمیر کئے گئے روز ویلٹ ہوٹل کا، جس کی تعمیر میں دنیا کی بیش قیمت اور نایاب مہاگنی لکڑی کا استعمال کیا گیا ، کل رقبہ3900 مربع فٹ کے قریب ہے اس کے ارد گرد واقع کچھ ہوٹل چند ماہ ہوئے فروخت کئے جانے کی خبریں زوروں پر ہیں اور ان ہوٹلوں کی قیمتوں کے حوالے سے سامنے آنے والے حقائق کو سامنے رکھنے پربآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں ہوٹل انڈسٹری میں سرمایہ کاری اس وقت کتنے عروج پر ہے۔ امریکہ کے سرکاری ریکارڈ کے مطا بق مین ہٹن نیو یارک کے علا قے میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جو ہوٹل بیچے گئے، ان کی اوسط قیمت فی کمرہ دس سے چودہ لاکھ ڈالر ہے اب اگر ہوٹل روز ویلٹ کی نئی تزئین و آرائش کو سامنے رکھیں اور اس کے1015 ڈیلکس کمروں اور52 انتہائی لگژری سوئیٹس کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی قیمت کا اندازہ لگائیں تو کسی طور بھی یہ ڈیڑھ بلین ڈالر سے کم کا نہیں بک سکتا۔
7 199ء میں نیویارک کے اس روز ویلٹ ہوٹل کی جب لیز کی بیس سالہ مدت ختم ہو گئی تو اس کے مالک کی نیت میں فتور آ گیا اور اس نے امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ہوٹل کے مالک کے دائر کردہ مقدمہ کا مقابلہ کرنے اور اسے اس کے بیس سال قبل کئے گئے معاہدے پر عمل کرانے کیلئے پاکستانی حکومت بھی قانونی طور پر اس کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں آ گئی اور چونکہ وہ حق پر تھی ا س لئے طویل قانونی جنگ کے بعد پاکستان اس مقدمے کو جیتنے میں کامیاب ہو گیا جس کے نتیجے میں1999 ء میں پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کو یہ روز ویلٹ ہوٹل 36 ملین ڈالر میں خریدنے کا موقع مل گیا۔ 2009ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں اسے بیچنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے جب اس کی قیمت لگوائی گئی تو اس کیلئے پہلی آفر ایک بلین ڈالر یعنی ایک ہزار ملین ڈالرآئی۔
روز ویلٹ ہوٹل کا شمار امریکہ کے تاریخی ہوٹلوں میں ہوتا ہے جس کی افتتاحی تقریب1924ء میں ہوئی۔ 1970ء کی دہائی کے آخر میں امریکہ کی معاشی حالت میں کمی آنے کی وجہ سے اس ہوٹل کے کاروباری حالات کچھ اچھے نہ رہے۔ مسلسل خسارے سے تنگ آ کر ہوٹل کی انتظامیہ نے اسے بیچنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کیلئے اس نے بڑے بڑے عرب ممالک سے رابطے شروع کر دیئے۔ خوش قسمتی سے ان کی ہوٹل بیچنے کی یہ آفر ایک سعودی شہزادے کے توسط سے پاکستان تک بھی پہنچی اور پی آئی اے کی ا نتظامیہ نے اس سعودی شہزادے کی مدد سے اس ہوٹل کو لیز پر لینے کی خواہش کا اظہار کیا؛چنانچہ پی آئی اے نے حکومت پاکستان کی اجا زت سے1979ء میں روز ویلٹ ہوٹل کو بیس سالہ لیز پر حاصل کر لیا۔
روز ویلٹ ہوٹل کو لیز پر حاصل کرتے وقت معاہدے میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ لیز کی مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد پی آئی اے کو یہ حق حاصل ہے کہ ہوٹل کی انتظامیہ اگر اسے بیچنا چاہے تو پاکستانی حکومت کا پہلا حق ہو گا کہ وہ اسے خرید بھی سکتی ہے۔اس دوران پاکستان میں وقفے وقفے سے مختلف حکومتیں آتی رہیں لیکن اس ہوٹل کی دیکھ بھال کی جانب دھیان کم سے کم ہوتا رہا اور ان سیا سی حکومتوں نے اپنے اراکین اسمبلی اور ان کے خاندانوں کو مفت میں وہاں مہینوں ٔنہیں بلکہ بہت سوں کو سالوں تک مفت رہائشیں دیئے رکھیں اور کسی نے بھی ان سے کچھ پوچھنے کی یا جواب طلبی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک لمبا خسارہ اس کے کھاتوں میں جھانکنا شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ جنرل مشرف کے دور تک بھی جا ری رہا لیکن2006-7ء میں جنرل مشرف نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے جدید دو رکے تقاضوں کے مطا بق اس کی دوبارہ تزئین آرائش کا حکم دیتے ہوئے اس کیلئے65 ملین ڈالر کی خطیر رقم منظور کرتے ہوئے اس کی حالت ٹھیک کرائی، جس سے یہ ہوٹل عصر حاضر کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بہترین ہوٹلوں کی صف میں شامل ہو گیا ۔ اس بات کو نہ سراہنا منا سب نہیں ہو گا کہ جنرل مشرف کے دور حکومت 2005ء میں ہی مذکورہ سعودی شاہی خاندان کے اہم ترین پرنس کو سعودی عرب کے ہوٹل منہال اور پیرس فرانس کے ہوٹل کے کچھ حصوں کے عوض 40 ملین ڈالر کی نقد ادائیگی کرتے ہوئے روز ویلٹ ہوٹل کے شیئر بھی پی آئی اے کے حق میں خرید لئے گئے تھے اور اس وجہ سے پی آئی اے کے پاس اب اس کے99 فیصد شیئرز ہیں