منتخب کردہ کالم

اثرات آج بھی باقی ہیں۔۔۔جاوید چودھری

ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں مزید چار حقائق بھی بہت اہم ہیں‘یہ حقائق ایشو کو جاننے کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

پہلی حقیقت خود ریمنڈ ڈیوس ہے‘ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں خود کو کانٹریکٹر قرار دیا‘یہ بلاشبہ کانٹریکٹر تھا لیکن یہ کوئی عام کانٹریکٹر نہیں تھا‘یہ سی آئی اے کا اتنامنجھا ہوا خاص کانٹریکٹر تھا کہ امریکا نے اسے چھڑانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا‘ صدر اوباما تک میدان میں کود پڑے‘ یہ نقطہ اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے‘یہ لاہور میں خاص مشن پر تھا‘ یہ 27 جنوری2011ء کے دن بھی مشن پر تھا‘ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں لکھا ’’میں قونصل خانے کی عمارت سے نکلا‘‘ یہ بات جھوٹ ہے‘ ریمنڈ ڈیوس قونصل خانے کے بجائے اپرمال لاہور کے اسکاچ کارنر میں رہتا تھا‘ یہ اس دن بھی اسکاچ کارنر سے مزنگ آیاتھا ‘ پولیس نے اس کے موبائل فون‘ اے ٹی ایم اور گاڑی کے جی پی ایس ٹریکر سے تمام معلومات حاصل کر لیں‘ ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی عموماً لاہور کے نصف درجن مقامات پر آتی اور جاتی تھی‘ موبائل فون کی کالز‘ ایس ایم ایس اور تصاویر سے بھی کہانی کی بے شمار پرتیں کھل گئیں۔

معلومات کے ان ذرائع سے پتہ چلا یہ پورا نیٹ ورک تھااور یہ نیٹ ورک لاہور میں کام کر رہا تھا‘ ہمارے اداروں نے ریمنڈ ڈیوس کے موبائل ڈیٹا سے وہ پورا نیٹ ورک پکڑ لیا‘ لوگ بھی گرفتار ہوئے ‘ سازشیں بھی سامنے آئیں اور ریمنڈ ڈیوس کا مشن بھی سامنے آ گیا‘ ریمنڈ ڈیوس نے کتاب میں لکھا’’میں ویسے ہی شہر میں نکل گیا‘‘ یہ بھی جھوٹ ہے‘ دنیا کا کوئی جاسوس لوڈڈ پستول لے کر گھر سے نہیں نکلتا ‘ ریمنڈ ڈیوس کے پاس نہ صرف دنیا کا جدید ترین لوڈڈ پستول تھا بلکہ وہ اس قدر ماہر نشانہ باز بھی تھا کہ اس نے گاڑی کے اندر سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے چند سکینڈ میں پستول نکالا‘ گاڑی کے اندر سے فائر کیا‘ ونڈ اسکرین میں صرف دو انچ کا سوراخ ہوا اور گولیاں سیدھی فہیم کے جسم میں اتر گئیں‘ وہ گاڑی سے اترا‘ سڑک پر گرے فہیم کو مزید دو گولیاں ماریں‘ فیضان کو پیچھے سے پانچ گولیاں داغیں‘ یہ تسلی کی یہ دونوں واقعی مر چکے ہیں۔
Advertisement

لاشوں کی تصویریں بنائیں اور دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گیا‘ اس عمل کے لیے آہنی اعصاب‘ ناقابل یقین مہارت اور مضبوط قوت فیصلہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ریمنڈ ڈیوس میں یہ تمام خوبیاں موجود تھیں‘ وہ ان دونوں لڑکوں کو ہر صورت قتل کرنا چاہتا تھا‘ کیوں؟ شاید وہ سمجھتا تھا یہ لڑکے اس شخص تک پہنچ گئے ہیں جس سے یہ ملاقات کر کے آیا تھا یا پھر انھیں اسے قتل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے اور اگر اس نے انھیں نہ مارا تو یہ اسے مار دیں گے اور یہ سارا کام ’’ویسے‘‘ نہیں ہو سکتا ‘ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں لکھا ’’میں نے فہیم اور فیضان کو سیلف ڈیفنس میں گولی ماری تھی‘‘ یہ بھی جھوٹ ہے‘ انسان سیلف ڈیفنس میں ہمیشہ دوسروں کو زخمی کرتا ہے‘ یہ ان کا پیچھا کر کے انھیں دس دس گولیاں نہیں مارتا‘ یہ ان کی موت کی تصدیق بھی نہیں کرتا اوریہ ان کی لاش کی تصویریں بھی نہیں بناتا جب کہ ریمنڈ ڈیوس نے فہیم کو ایک سامنے اور تین پیچھے اور بھاگتے ہوئے فیضان کو پانچ گولیاں ماریں‘ ریمنڈ ڈیوس نے گاڑی سے نیچے اتر کر ان کی موت کی تصدیق بھی کی اور لاشوں کی تصویریں بھی بنائیں چنانچہ یہ قتل کسی بھی طرح سیلف ڈیفنس نہیں تھے‘ یہ سنگدلانہ قتل تھے‘ ریمنڈ ڈیوس اگر چاہتا تو یہ ان نوجوانوں کو زخمی کرکے آگے نکل سکتا تھا لیکن اس نے باقاعدہ سوچ سمجھ کر نشانہ لے کر دونوں کو قتل کیا‘ وجہ شاید اس کی وہی غلط فہمی تھی کہ یہ دونوں نوجوان خفیہ ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ اس کے مشن سے واقف ہو چکے ہیں اور یہ اسے قتل کرنا چاہتے ہیںلہٰذا اس نے انھیں قتل کر دیا۔

ہم اب دوسری حقیقت کی طرف آتے ہیں‘ دوسری حقیقت فہیم شمشاد اور فیضان حیدرہیں‘ یہ دونوں معصوم لوگ نہیں تھے‘ یہ دونوں ڈاکو تھے‘ یہ دونوں گاڑیاں اور موٹر سائیکل روک کر ڈکیتیاں کرتے تھے‘ یہ دونوں اشتہاری بھی تھے اور لاہور کے مختلف تھانوں میں ان کے خلاف پرچے بھی درج تھے‘ فیضان کے خلاف قتل کا مقدمہ تھا اور یہ اس مقدمے میں اشتہاری بھی تھا‘ فیضان کو 27 جنوری کو گولی لگنے کے بعد سروسز اسپتال لے جایا گیا تھا‘ کیپٹن لیاقت اس وقت سول لائین ایریا کے ایس پی انویسٹی گیشن تھے‘ یہ اسپتال پہنچے اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی کمر سے گولیوں کی پیٹی اتاری‘ اس کا پستول بھی موقع واردات سے ملا‘ فیضان کی جیب سے تین چار موبائل بھی برآمد ہوئے‘ پولیس نے جب یہ موبائل ڈائل کیے تو پتہ چلا فہیم اور فیضان نے یہ موبائل پچھلے چوک میں لوگوں سے چھینے تھے‘ پولیس کی تفتیش سے پتہ چلا یہ دونوں ریمنڈ ڈیوس کو بھی لوٹنا چاہتے تھے‘ فہیم نے پستول کے اشارے سے اسے رکنے کا اشارہ کیا‘ ریمنڈ ڈیوس نے آگے نکلنے کی کوشش کی لیکن فیضان اس کے راستے میں کھڑا ہو گیا‘ ریمنڈ ڈیوس ٹرینڈ شوٹر اور جاسوس تھا‘ اس نے چند سیکنڈ میں دونوں کو گولی مار دی‘ میڈیا نے معاملہ اٹھایا اور یہ دونوں ڈاکو ہیرو بن گئے۔

فیضان حیدر ٹمبر مارکیٹ راوی روڈ اور فہیم شمشاد بیگم کوٹ شاہدرہ کا رہائشی تھا‘ علاقے کے لوگ ان کی حرکتوں سے بخوبی واقف تھے‘ یہ آج بھی ان کے ’’کردار‘‘ پر روشنی ڈالتے ہیں‘ یہ روزگار سے بھی محروم تھے‘ فہیم کی بیوہ شمائلہ کنول نے 6 فروری 2011ء کو فیصل آباد کے چک رسول پورمیں چوہے مار گولیاں کھا کر خودکشی کر لی‘ یہ خودکشی بھی انتہائی مشکوک تھی‘ لوگ خودکشی کے بارے میں بھی بے شمار جھوٹی سچی کہانیاں سناتے ہیں‘ یہ کہانیاں بھی دونوںخاندانوں کا پس منظر جاننے کے لیے کافی ہیں‘ تیسری حقیقت دیت کی رقم تھی‘ ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہوگی لواحقین نے دیت کی رقم بخوشی قبول کی تھی‘ یہ لوگ انتہائی غریب تھے‘ فہیم اور فیضان روزانہ دس پندرہ ہزار روپے کا ہاتھ مارتے تھے‘دونوں خاندانوں کی گزر اوقات اس لوٹ مار سے ہوتی تھی‘ ریمنڈ ڈیوس کی شکل میں ایک لاٹری نکلی اور دونوں خاندانوں کو دس دس کروڑ روپے مل گئے‘ یہ ان لوگوں کے لیے بڑی رقم تھی چنانچہ یہ ایک دن میں راضی ہو گئے۔

یہ رقم وفاق کے وکیل راجہ محمد ارشاد نے اپنے ہاتھوں سے گن کر لواحقین کے حوالے کی تھی‘20 کروڑ روپے تھیلے میں لاہور پہنچے‘یہ تھیلا18لواحقین کے سامنے کھولا گیا‘شریعت کے مطابق دیت کے حق داروں کا فیصلہ ہوا اور تمام لوگوں میں حصے کے مطابق رقم تقسیم کر دی گئی‘ بقول راجہ محمد ارشاد ’’تمام لوگ مطمئن اور خوش تھے‘میں نے ان کے کاغذات تیار کروائے‘ ان کے شناختی کارڈ ساتھ لگائے‘ ان کے انگوٹھے اور دستخط کروائے اور یہ رقم ان کے حوالے کر دی‘‘ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے دن بھی یہ 18 لواحقین عدالت میں موجود تھے‘ مردوں کے چہروں پر اطمینان تھا جب کہ خواتین رو رہی تھیں لیکن اس رونے کا تعلق ’’بے انصافی‘‘ سے نہیں تھا‘ یہ مائیں اور بہنیں تھیں اور ماں بہن شیطان کی بھی ہو تو وہ بھی اپنے بیٹے کی لاش نہیں دیکھ پاتی چنانچہ خواتین دکھی تھیں لیکن اس دکھ کے باوجود انھوں نے اپنا حصہ بھی وصول کیا‘ دیت کے کاغذات پر دستخط بھی کیے اور جج کے سامنے یہ بھی تسلیم کیا ’’ہم پر کسی قسم کا دباؤ نہیں‘ ہم اپنی مرضی سے قاتل کو دیت کے عوض معاف کر رہی ہیں‘‘ اور یہ بھی حقیقت تھی دیت کی رقم 24 کروڑ نہیںتھی21 کروڑ تھی‘ دس دس کروڑ روپے 18 لواحقین میں بانٹ دیے گئے اور باقی ایک کروڑ روپے وکیل کو ادا کیے گئے اور بس۔

ہم اب آخری حقیقت کی طرف آتے ہیں‘ فہیم اور فیضان کی دیت کی رقم دونوں خاندانوں کے لیے تباہی کا باعث بن گئی‘ فیضان کے والد نے دوسری شادی کر لی‘ جوہر ٹاؤن میں گھر بنا لیا‘ اس کا پہلی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ پھڈا ہوا‘ فیضان کی ایک بہن نے ایک لالچی قسم کے شخص سے شادی کر لی‘ وہ شخص بھی درمیان میں کود پڑا‘ فیضان کے والد کو غصہ آیا اور اس نے اپنی بیوی اور دونوں بیٹیوں کو قتل کر دیا‘یہ اس وقت کال کوٹھڑی میں سڑ رہا ہے جب کہ رقم‘ گھر اور گاڑی نئی بیوی کے قبضے میں چلی گئی‘ وہ کسی دوسرے شخص کے چکر میں پھنسی اور وہ شخص یہ سارا مال لے کر رفو چکر ہو گیا‘فیضان کی بیوہ زہرا بی بی اور شیرخوار بیٹے کو اڑھائی کروڑ روپے ملے‘ زہرا بی بی نئی شادی کرنا چاہتی تھی‘ یہ رشتہ والد کو پسند نہیں تھا۔

ماں بیٹی کی طرف دار تھی چنانچہ والد شہزاد بٹ نے بیٹی اور بیوی دونوں کو قتل کر دیا‘یہ بھی اس وقت جیل میں ہے‘ فیضان کے بھائی بھی دولت گنوا کرکوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے ہیں‘ فہیم کے خاندان کے لوگ بھی خون بہا کی رقم کے لیے لڑتے رہے‘یہ آدھا خاندان بھی قتل ہو گیا‘مال کا ایک حصہ پولیس لے گئی‘ ایک حصہ وکیلوں کے کام آ گیا اور باقی مال رشتے داروں نے لوٹ لیا‘ فہیم کا خاندان بھی اس وقت کسمپرسی میں زندگی گزار رہا ہے‘ پیچھے رہ گیا فہیم کی مرحومہ بیوی شمائلہ کا خاندان‘ یہ خاندان بھی دولت کے لیے لڑتا لڑتا جیلوں تک پہنچ چکا ہے چنانچہ ریمنڈ ڈیوس چلا گیا لیکن اس کے منحوس اثرات آج بھی باقی ہیں‘ لواحقین آج تک لڑ رہے ہیں‘ دیت کی رقم آج تک خون چوس رہی ہے اور یہ شاید اگلی کئی نسلوں تک ان لوگوں کی ہڈیاں پیستی رہے ‘ یہ لوگ اسی طرح عبرت کا نشان بنتے رہیں۔