منتخب کردہ کالم

سرخیاں اُن کی‘متن ہمارے…ظفر اقبال

سُرخیاں‘ متن‘ فیصل ہاشمی اور سیّدہ سیفو

سرخیاں اُن کی‘متن ہمارے…ظفر اقبال

شہباز شریف کی گرفتاری افسوسناک اور مضحکہ خیز ہے: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یاب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”شہباز شریف کی گرفتاری افسوسناک اور مضحکہ خیز ہے‘‘ اور ہر مضحکہ خیز ی چونکہ خندہ آور ہوتی ہے‘ اس لیے میں ہنس ہنس کر بے حال ہو گیا ہوں اور ہنسی ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور افسوسناک اس لیے ہے کہ وہ میری اور حمزہ شہباز‘ مریم نواز کی جگہ لینا چاہتے تھے؛ حالانکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘ کیونکہ بالآخر ہم سب کی منزل ایک ہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ” حکومت جو کچھ کر رہی ہے ‘خود بھی اس کے لیے تیار رہے‘‘ کیونکہ اس نے بھی ملک کو ترقی دینی ہے اور کرپشن بھی کرنی ہے‘ کیونکہ کرپشن کے بغیر تو ترقی ہو ہی نہیں سکتی اور انہوں نے بھی پکڑے جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”حکومت انتہائی انتقامی کارروائی کی ذمہ دار ہے‘ اور ایسا لگتا ہے کہ جب تک ہمارے سارے لوگ گرفتار نہیں ہو جاتے‘ یہ انتقام جاری رہے گا‘ کیونکہ ماشاء اللہ سارے کے سارے ہی اس طرح کے کمالات دکھاتے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز شہباز شریف کی گرفتاری پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
گرفتاری غیر قانونی اور پارلیمنٹ کی توہین ہے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ”گرفتاری غیر قانونی اور پارلیمنٹ کی توہین ہے‘‘ اور یہ ساری فواد حسن فواد کی کارستانی ہے‘ جنہوں نے جو کچھ بھی کیا‘ اس کا ملبہ شہباز شریف پر ڈال دیا گیا۔ اس لیے آئندہ ایسے افراد کیلئے کوئی اور نمک استعمال کیا جائے گا ‘تاکہ اسے حرام نہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ”مشاورت کے بعد لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا‘‘ اگرچہ دونوں بھائی سارے کام کسی مشاورت کے بغیر ہی کیا کرتے تھے‘ کیونکہ کام ہی سیدھا سادھ تھا اور اس میں کسی قسم کی مشاورت کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی‘ کیونکہ ایسے کاموں میں مشاورت میں شامل لوگوں کو بھی حصہ دینا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ابھی حکومت کی انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی‘‘ جس کی ایک وجہ گرمی کا موسم بھی ہے اور امید ہے کہ موسم سرما شروع ہوتے ہی یہ آگ ٹھنڈی ہو جائیگی اور اگلی گرمیوں تک ٹھنڈی ہی رہے گی۔ آپ اگلے دن شہباز شریف کی گرفتاری پر اظہار خیال کر رہی تھیں۔
جو بھی سر اُٹھائے گا نیب اس کے سر پر ڈنڈا مارے گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ”جو بھی سر اٹھائے گا‘ نیب اس کے سر پر ڈنڈا مارے گی‘‘ جبکہ ہمارا اعتراض ڈنڈا سر پر مارنے پر ہے ‘کیونکہ اگر ڈنڈا سر پر ہی مارنا ہے تو باقی سارا جسم کس مرض کی دوا ہے‘ کیونکہ ایک ایک ٹانگ اور ایک بازو آسانی سے توڑا جا سکتا ہے کہ دو ٹانگیں اور دو بازو اسی لیے بنائے گئے تھے کہ ان میں سے ایک کام کرتا رہے‘ اس لیے سر پر ہیلمٹ پہننا ضروری ہو گیا ہے‘ البتہ پیٹ پر ڈنڈا مارنا بھی بہت خطرناک ہو سکتا ہے‘ کیونکہ پیٹ پر تو ہیلمٹ بھی نہیں پہنا جا سکتا‘ خاص طور پر وہ پیٹ جن کا سائز ماشاء اللہ زیادہ بڑا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ”سابق بیورو کریٹس اور سابق جرنیلوں کا احتساب بھی ہونا چاہئے‘ یعنی جو سیاستدانوں کا ہو رہا ہے‘ وہ بالکل صحیح ہے؛ بشرطیکہ مذکورہ افراد کا احساب بھی کیا جائے‘ تاکہ مساوات کے اصول کی پاسداری قائم ہو سکے۔ آپ اگلے روز چیچہ وطنی میں گرفتاری پر اپنے ردعمل پیش کر رہے تھے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری سے
دنیا میں منفی تاثر جائے گا: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ”قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری سے دنیا میں منفی تاثر جائے گا‘‘ جبکہ والد صاحب کی متوقع گرفتاری سے مزید منفی تاثر جائے گا کہ وہ سابق صدر ہیں اور کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ایسے ذمہ دار افراد کو بھی ان کی مرضی کے کام میں نہ کرنے دیا جائے اور یہاں روپے پیسے کو خواہ مخواہ اہمیت دی جا رہی ہے‘ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ سب کچھ یہیں پڑا رہ جائے گا‘ جبکہ سکندر اعظم کے دونوں خالی ہاتھ بھی دنیا دیکھ چکی ہے ؛حالانکہ وہ پیسے سے سخت نفرت کرتے ہیں اور فوراً ہی بیرون ملک دفع دفعان کر دیتے ہیں اور کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ اس خوش احتیاطی کا بھی کوئی احساس نہیں کیا جاتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور اب اس ہفتے کی تازہ غزل:
کوئی پتا نہیں چلتا کہاں سے آئے ہیں
کبھی گئے ہی نہیں تھے جہاں سے آئے ہیں
درخت ہی سے ہماری بنی نہیں ہے کہیں
ہم ایک اجڑے ہوئے آشیاں سے آئے ہیں
وہاں گئے تھے جہاں کوئی جا نہیں سکتا
جہاں سے آ نہیں سکتے‘ وہاں سے آئے ہیں
سفر ہمارا اسی طرح ختم ہونا تھا
کہ جسم سے گئے ہیں اور جاں سے آئے ہیں
ہوئے تھے آج یہیں دستیاب ہم خود کو
اب اس میں شبہ ہی کیا ہے یہاں سے آئے ہیں
وہ جس کے دم سے رہی ہے ہماری آمد و رفت
سو‘ ہم اُسی روشِ رائیگاں سے آئے ہیں
ہمیں زیادہ ضرورت ہے مہربانی کی
جو ایک خطہِ نامہرباں سے آئے ہیں
زمین ہی نہیں پہچانتی ہماری کہ ہم
بہت دنوں میں ترے آسماں سے آئے ہیں
جہاں سے فیض نہیں مل سکا کسی کو‘ ظفرؔ
ہم اُٹھ کے آج اُسی آستاں سے آئے ہیں
آج کا مطلع
اس میں کچھ بھی عجب نہیں ہے
پہلے کیا تھا جو اب نہیں ہے