منتخب کردہ کالم

سسٹم کو چلانے میں ہی ملک کی بہتری ہے۔ مزمل سہروردی

سسٹم کو چلانے میں ہی ملک کی بہتری ہے۔ مزمل سہروردی

ویسے تو چھوٹے پیر پگاڑ ا کی وہ بات نہیں ہے جو بڑے پیر پگاڑ ا کی تھی۔ یہ مانا جاتا تھا کہ بڑے پیر پگاڑا کی سیاسی پیشن گوئیاں درست ہوتی تھیں اور انہیں آنے والے حالات کا پہلے سے علم ہو تا تھا۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بڑے پیر پگاڑا پاکستانی سیاست کا سکرپٹ لکھنے والوں کے ساتھ بہترین تعلقات رکھتے تھے اس لئے ان کو پہلے سے سکرپٹ کا علم ہو تا تھا۔ تا ہم بڑے پیر پگاڑا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چھوٹے پیر پگاڑا نے بھی پیشن گوئی کر دی ہے کہ انہیں 2018 میں انتخابات نظر نہیں آرہے بلکہ وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر خدانخواستہ 2018 میں انتخابات ہو گئے تو بہت خون خرابہ ہو گا۔
دوسری طرف اپنے سراج الحق بھی کہہ رہے ہیں کہ انتخابات سے پہلے احتساب کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ اس طرح یہ تو صاف بات ہے کہ پاکستان کے موجود قوانین کے تحت احتساب ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اس لئے اگر احتساب کو اگلے انتخابات سے پہلے مکمل کرنا ہے تو انتخابات کو ایک لمبے عرصہ کے لئے ملتوی کرنا ہو گا۔ ایسے میں براہ راست تو نہیں لیکن بالواسطہ کہیں نہ کہیں سراج الحق بھی مجوزہ ٹیکنو کریٹ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہ بھی مقررہ مدت پر انتخابات کے حامی نظر نہیں آرہے۔ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کو تو اس سے بھی زیادہ جلدی ہے اور انہوں نے تو موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ فوری پارلیمنٹ توڑ دیں۔
اگر نواز شریف کی پالیسی کو غور سے دیکھا جائے تو وہ بھی سسٹم کو چلانے کے حق میں نہیں ہیں۔ مجھے ان کے بیان کی بھی سمجھ نہیں آرہی کہ پاکستان میں سات میں سے پانچ حکومتیں ان کی ہیں۔ اور وہ اپنی ہی حکومتوں کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ بتا یا جائے کہ نواز شریف اگر اپنے ہی چہیتے وزیر داخلہ سے پوچھ لیتے کہ بھائی احسن اقبال میرے بندے کیوں پکڑے ہیں تو وہ بتا دیتے کہ ان کے خلاف 19 اکتوبر کو ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ لیکن انہوں نے اغوا کا بیان داغ دیا ہے۔ وہ بھی ملک میں ایسا ماحول بنا رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سسٹم ٹوٹ جائے اور انہیں شہید بننے کا موقع مل جائے۔
جہاں تک آصف زرداری کی بات ہے وہ اس وقت اسٹبلشمنٹ کے نرغے میں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ روٹھی ہوئی اسٹبلشمنٹ کو منا لیا جائے۔ ٹوٹے ہوئے اعتماد کے رشتے دوبارہ بنا لئے جائیں۔ اسی لئے وہ نواز شریف پر گولہ باری کر رہے ہیں۔ ہر وہ کام کر رہے ہیں جس سے وہ روٹھی ہوئی اسٹبلشمنٹ کو منا سکیں۔ ان کی کوششیں کتنی کامیاب اور کتنی ناکام ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن وہ ہرگزرتے دن کے ساتھ نواز شریف سے اپنے فاصلے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر آخر میں اسٹبلشمنٹ سے ان کی بات نہ بن سکی۔ سب کچھ کر کے بھی وہ اعتماد نہ جیت سکے تو کیا ہو گا۔ کیا وہ بھی سسٹم کو خیر باد کہنے والوں کی لائن میں لگ جائیں گے۔ یا وہ یہ کہیں گے کہ چاہے مجھے کچھ ملے یہ نا ملے سسٹم چلنا چاہئے۔
عمران خان کو بھی کچھ پتہ نہیں کہ کس طرٖ ف کھڑے ہیں ۔ نا اہلی کی تلوار کی وجہ سے ان کی چابی دوستوں کے پاس ہے۔ یہی چابی انہیں بار بار یو ٹرن لینے پر مجبور کرتی ہے۔ کبھی ایم کیو ایم کے دفتر بھیج دیتی ہے۔ کبھی سندھ بھیج دیتی ہے۔ ان کو خود نہیں پتہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کی اندھی خواہش نے ان کو سیاسی تنہائی کا شکار کر دیا ہے ۔ انہوں نے ہر محاذ پر لڑائی شرع کر دی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ان کی اپنی دوستوں اور دشنموں کی بھی کوئی لسٹ نہیں ہے۔ جو کہا جا رہا ہے وہ کہہ رہے ہیں۔ لیکن جب سسٹم کا بستر گول ہو گا وہ کہاں ہو نگے۔ کیا تب بھی وہ دوستوں کے ساتھ ہونگے۔ میں سمجھتا ہوں تب بھی وہ دوستوں کے ساتھ ہونگے۔ کیونکہ دوست انہیں سمجھا لیں گے بس دو سال کی بات ہے گند صاف کر رہے ہیں پھر آپ کی باری ہے۔ اور وہ مان جائیں گے۔
لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ دوست کیا چاہتے ہیں۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف نے دوستوں کو حیران پریشان کر دیا ہے ۔ یہ تو انداذہ ہی نہیں تھا کہ نواز شریف اس طرح آگے سے لڑ پڑیں گے سب کا خیال تھا کہ وہ چلے جائیں گے۔سسٹم کو بچانا نواز شریف کی مجبوری ہو گا۔ ان کی پانچ حکومتیں ہیں۔ اتنی بڑی جماعت ہے۔ سب جیتنے والے گھوڑے ان کی جماعت میں ہیں۔ اگلا انتخاب جیتنے کا بھر پور موقع ہے۔ وہ باہر بیٹھ کر بھی حکومت کے مزے لے سکتے ہیں۔اسی لئے نااہلی کے بعد انہیں دوبارہ حکومت بنانے کا بھر پور موقع دیا گیا۔ خواجہ آصف کووزیر خارجہ اور احسن اقبال کووزیر داخلہ قبول کر لیا گیا۔ حالانکہ تب بھی نواز شریف کا نداذہ تھا کہ دوست ان دونوں کو اتنی اہم وزارتوں پر قبول نہیں کریں گے۔ لیکن جس طرح یوسف رضاگیلانی کی نا اہلی اور مخدوم شہاب الدین کے وارنٹ گرفتاری کے بعد راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم بنا کر آصف زرداری کہتے تھے کہ میں نے بدلہ لیا ہے۔ اسی سوچ کے تحت نواز شریف نے بھی ان دونوں کو لانچ کر کے اپنی طرف سے دوستوں سے بدلہ ہی لیا تھا کہ اب سسٹم چلا کر دکھائو۔ لیکن دوستوں کو انداذہ تھا کہ بڑے اہداف کے حصول کے لئے چھوٹی چھوٹی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ خواجہ آ صف نے گھر صاف کرنے والی بات کر کے دوستوں کو مشکل میں ڈال دیا لیکن دوستوں نے برداشت کر لیا۔ احسن اقبال نے بھی احتساب عدالت کے باہر گفتگو میں ریڈ لائن عبور کی تو براداشت کر لیا گیا۔ قومی اسمبلی سے رینجرز کو ہٹا لیا گیا تو برداشت کر لیا گیا۔ حتیٰ کے براہ راست ڈی جی آئی ایس پی آر پر تنقید کی گئی اس کو بھی برداشت کیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی ہر موقع پر نواز شریف کو اپنا وزیر اعظم کہنے لگے۔ دوستوں نے برداشت کیا۔ اسحاق ڈار کو نیب ریفرسنز کے باوجود وزیر خزانہ رکھا گیا دوستوں نے برداشت کیا۔ بلکہ دوستوں نے بند دروازے کھولے۔ قومی سلامتی کی کمیٹیوں کے اجلاس شروع کر دیے۔ فوج نے سول حکومت کے ساتھ اپنے رابطے بڑھا دیے۔ ابھی جب ملکی معیشت کے حوالہ سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تو بعد میں پھر حکومت کے ساتھ بیٹھ کر معیشت پر بات کی گئی۔
مجھے ایسا لگ رہا کہ دوستوں کی خو اہش ہے کہ جیسا بھی نظام ہے چلتا رہے۔ یہ جمہوریت پاکستان کا ایک خوبصورت چہرہ ہے۔ ٹیکنو کریٹ حکومتوں نے نہ ماضی میں دوستوں کو کوئی نیک نامی دی ہے اور نہ آگے دیں گی۔ ایسی حکومتوں کے خلاف سیاسی اتحاد فطری بات ہے۔ جمہوریت کی بحالی کے نام پر سیاستدان اپنے گناہ دھو لیتے ہیں۔ اور دوست مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ امریکہ اور مغرب پہلے ہی سی پیک سے خوش نہیں ہیں۔ پھر جمہوریت کی بحالی کے نام پر وہ بھی پاکستان کے سیاستدانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیں گے۔ بلوچستان کے لئے مغرب میں ایک گندی گیم شروع ہو چکی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کو پاکستان میں حمایت حاصل نہیں ہے۔ لیکن دوستوں کی غلطی اس کو حمایت دلوا سکتی ہے۔ اسی طرح الطاف حسین کی بھی پاکستان مخالف سرگرمیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ہمیں پاکستان کی باقی سیاسی قیادت کو سسٹم سے باہر کر کے فائدہ نہیں نقصان ہو گا۔ احتساب کے نام پر شائد کیس چل جائیں۔ چند لوگ گرفت میں آجائیں لیکن ملک کا بڑا نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔ نواز شریف اگر سسٹم کو گول کرنے چکر میں ہیں۔ تو دوست کیوں ان کو کامیاب کرناچاہتے ہیں۔ دوستوں کی طرف سے نواز شریف ک جواب یہی ہے کہ سسٹم چلتا رہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ خود بخود مائنس ہوتے جائیں گے۔ گیم چل رہی ہے۔ ریا ض پیرزادہ جیسی اور آوازیں مارکیٹ میں آئیں گی۔ شہباز کو موقع دینا چاہئے۔ وہ ن لیگ کو بھی سنبھال سکتا ہے۔ اور سی پیک کوبھی چلا سکتا ہے۔ عمران خان کو نا اہل کرنا چاہئے تا کہ سکور برابر ہو سکے ۔کسی ایک کو مظلومیت کا تاثر نہ ملے۔ آصف زرداری کو بھی ناا ہل کر کے بلاول کوبھر پور موقع دینا چاہئے۔ ان سب کا ایک ہی علاج ہے کہ ان کی جماعتوں کو بھر پور موقع دیں۔ ان کو باہر رکھیں ۔ اس سے زیادہ ان کے لئے اور کوئی سزا نہیں۔ ٹیکنو کریٹ حکومت تو ان سیاسی مردوں میں جان ڈال دے گی۔ اور چند سال پھر یہ کھڑے ہوں گے۔ خدا راہ اس بات کو سمجھیں۔ اسی سسٹم میں ان کی سیاسی موت ہے۔ سسٹم ختم کر کے ان کو زندگی نہ دیں۔